... loading ...
چیئرمین پی ٹی آئی کو جس صبح توشہ خانہ چوری کیس میں 3برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہوئی اور اسی دوپہر مشترکہ مفادات کی کونسل کی طرف سے نئی مردم شماری کی منظوری کی خبر آ گئی جس کے بعد الیکشن کمیشن اس امر کا پابند ہوگیا ہے کہ وہ عام انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کروائے۔ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے انٹرویو دیا تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمراں اتحاد نے انتخابات میں غیر معمولی طورپرتاخیر کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کرلیاتھا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نئی مردم شماری کی منظور ی پہلے بھی دی جاسکتی تھی اور اسمبلی مدت سے دو تین دن پہلے تحلیل کرنے کے بجائے وقت پر تحلیل کرکے ایک ماہ بچایا جاسکتاتھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکمراں ابھی تک نگراں وزیراعظم سامنے لانے سے گریزاں ہے،جس سے تاثر ملتاہے کہ نگراں وزیراعظم کو انتخابات میں تاخیر کیلئے باقاعدہ بریفنگ دی جارہی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جارہاہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد نگراں وزیرا عظم بھی پنجاب اور پختونخوا کے نگراں وزرائے اعلیٰ کی طرح جی حضور طرز کا ہی ہوگا،ورنہ کیا وجہ ہے کہ آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی تحلیل ہورہی ہے،اور ابھی تک نگران وزیراعظم کا نام طے نہیں کیا جاسکا۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے ویڈیو لنک اجلاس میں اسمبلیوں کی تحلیل 9 اگست کو کرنے پر تمام رہنماوں نے اتفاق کر لیا ہے اور نگران وزیر اعظم کے انتخاب کے معاملے کو وزیراعظم کا استحقاق قرار دیدیا گیا۔ جہاں تک وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری کا سوال ہے تو اس منظوری کے بعد قومی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کے 90 دن کے اندر عام انتخابات کا انعقاد سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اگر مردم شماری منظور ہو جاتی ہے اور اس کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری ہو جاتا ہے تو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 61 کی سب سیکشن 5 کے تحت ازسر نو حلقہ بندیا ں کرنا الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہو گی۔ اس عمل کو مکمل کرنے میں 4 سے 6مہینے لگ سکتے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرے گا اور اگر کسی کو اس پر اعتراض ہو تو پہلی اپیل الیکشن کمیشن کے پاس جائے گی اور اس کے فیصلے کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فورم بھی دستیاب ہیں جہاں پر لوگ اپنی درخواستیں لے کر جا سکتے ہیں۔ اس طرح زمینی حقائق کے مطابق الیکشن نومبر کی بجائے فروری یا مارچ کے آغاز میں ممکن ہو سکیں گے، وہ بھی اس صورت میں کہ تمام حلقہ بندیوں کا عمل اور دیگر تیاریاں وقت برباد کیے بغیر ہو جائیں۔ مشترکہ مفادات کونسل میں دی جانے والی مردم شماری کی منظوری کے بعد یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے باوجود عام انتخابات کا رواں سال میں انعقاد ممکن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتحادی حکومت نگران سیٹ اپ کو زیادہ وقت کے لیے چلانے کے حق میں ہے لیکن یہ معاملہ ملک اور عوام کے حق میں دکھائی نہیں دے رہا،اس لیے تمام ا سٹیک ہولڈرز کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اس کا کوئی قابلِ عمل حل نکالنا چاہیے۔پہلے اس حکومت نے عام انتخابات میں تاخیر کرنے اور انتخابی مہم چلانے کیلئے زیادہ وقت حاصل کرنے کیلئے اسمبلی مدت پوری ہو نے سے2-3 پہلے ہی تحلیل کر نے کا فیصلہ کرکے انتخابات کرانے کی لازمی مدت 60 دن کی بجائے 90 دن سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیاگیا اور اس مدت مین بھی بات بنتی نہ دیکھ کر مردم شماری کے نام پر الیکشن میں مزید 4 سے6 ماہ تاخیر کرنے کا جواز پیدا کیا گیا۔ کیا اس عمل کو دھاندلی کی ابتدا نہیں کہاجاسکتا۔ کیا یہ پری پول رگنگ نہیں ہے اسمبلی تحلیل کرنے یعنی توڑنے کیلئے جواز اور شرائط ہونے ضروری ہیں حالات کی ناگزیری بھی اسمبلی توڑنے کا جواز ہو سکتی ہے کیا حالات ناگزیر ہیں کہ اسمبلی 3 دن قبل توڑ کر آگے بڑھا جائے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے ایسا صرف اس لئے کیا جا رہا ہے تا کہ 60 کی بجائے 90 دن حاصل ہو جائیں۔ جس ”کارِخیر“ یعنی فریش مینڈیٹ کے حصول کی ابتدا ہی بددیانتی اور بدنیتی سے کی جائے گی اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔ اب جبکہ 9/ اگست کو موجودہ حکومت اپنا عرصہ اقتدار پورا کرنے کے بعد رخصت ہو رہی ہے اس نے ڈیڑھ برس تک حکمرانی کے مزے لوٹے اس دوران اس نے کافی نشیب و فراز کا بھی سامنا کیا لیکن حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے وزیراعظم شہباز شریف نے مہنگائی اور بیروزگاری کا رونا رونے والے عوام کی پروا کئے بغیر اپنی تمام تر توجہ اپنے اور اپنے اہل خانہ اور رفقاء کے مقدمات ختم کرانے انھیں کلین چٹ دینے اور عمران خان کو کسی طرح میدان سیاست سے باہر نکالنے پر مرکوز رکھی،اس کے نتیجے میں وزیراعظم شہباز شریف ادھوری اسمبلی سے من مانی ترامیم منظور کراکے اپنے اور اپنے رفقا پر سے مقدمات ختم کرانے اور کلین چٹ حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن عمران خان کو قابو کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔حکومت نے ملک کی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات تسلیم تو کرلیے لیکن آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمدکے نتیجے میں ملک میں ایک اضطراب جنم لے چکا ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے۔ اس سے پہلے بجلی وغیرہ کی جو قیمتیں بڑھائی گئیں اس پر لوگ پہلے ہی دہائی دے رہے تھے اب مزید چیخ وپکار کر رہے ہیں مگر حیرت افسوس اور دکھ یہ ہے کہ کسی بااختیار کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، سب خاموش ہیں سب تماشا دیکھ رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اگر حکمران چاہتے تو آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم نہ کرتے ہوئے امور مملکت چلا سکتے تھے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز ایک بیان میں تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف قرضہ نہ بھی دیتا تو ملک ڈیفالٹ نہیں ہوتا،اور اگر ایسا خطرہ موجود تھا بھی تو حکومت میں شریک دودھ بالائی کھانے والے چند بڑے خاندان آگے آتے اور اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے مگر انہیں غریب عوام کا خیال نہیں آیا۔ انہیں جب بھی کوئی خیال آیا تو اپنے آشیر بادیوں کا جو انہیں اقتدار میں لانے میں ان کو سپورٹ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب تک معاشی حالت خراب رہی ہے اور اب اس کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔ لوگوں نے رونا دھونا شروع کر دیا ہے اور وہ اس نظام حکومت و حیات کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں مگر انہیں اذیت پہنچانے والی اشرافیہ ان کو بد دل و بدگمان ہی نہیں ہراساں بھی کر رہی ہے اور آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح پھنسا کر روٹی، انصاف اور روزگار کے خوف میں مبتلا کردیا ہے تاکہ انھیں اشرافیہ کے فلک بوس حسین و جمیل دلکش محلوں کی طرف آنکھ اٹھانے کی فرصت ہی نہ مل سکے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں اب قومی سیاست کے حوالے سے تاثر پایا جاتا ہے کہ 16 ماہی حکمرانی کے نتیجے میں اتحادی (12 رکنی پی ڈی ایم+ پیپلز پارٹی) حکومت عوامی پزیرائی کھو چکی ہے۔ 16 مہینوں کے دوران سیاسی جادوگر، معاشی حکمت کار اور ایسے کئی دیگر کردار اپنا آپ دکھا کر عوام کو مایوس ہی نہیں کر چکے بلکہ ناامید اور نامراد بنا چکے ہیں۔ 16 ماہ کے دوران حکمران اتحاد کی کارکر دگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا نعرہ بھی اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ حکمران اتحاد نے آئی ایم ایف کو خوش کر کے منانے اور ان سے قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے کی کاوشوں میں عوام کی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ حکمران اتحاد نے اس پر ہی بس نہیں کیا اپنے آپ کو مراعات دینے میں بھی مثالیں قائم کر دکھائی ہیں۔ عوام جب نانِ جویں کو ترس رہے ہیں تو ایسے میں افسران کیلئے، وہ بھی چھوٹے معمولی قسم کے افسران کیلئے اربوں روپے کی گاڑیوں کی خریداری عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کاوش ہی کہلا سکتی ہے۔ آخری دنوں میں حکمران اتحاد نے جس انداز میں قانون سازی کرنے کی کوشش کی ہے تھوک کے حساب سے بل بغیر کسی طریق کار کی پابندی کے منظور کرائے ہیں، اس سے بھی انتہائی منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا اس وقت پورے ملک میں مایوسی کی ابھری ہوئی لہر کو صاف طور سے دیکھا جا سکتا ہے جس میں خوف بھی شامل ہو چکا ہے جو ہر لمحہ کمزور اور بے بس عوام کو اونچا سانس بھی لینے نہیں دے رہا۔یہی وہ صورت حال جس نے اب جاتی ہوئی حکومت کو پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے اور وہ انتخابات کاسامنا کرنے سے کترا رہی ہے اور انتخابات کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک ٹالنے کیلئے مختلف حربے آزمانے کی کوشش کررہی ہے، لیکن ان تمام تر حربوں کے نتیجے میں کیا حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں خاص طورپر مسلم لیگ ن اگلی حکومت بنانے کا خواب پورا کرسکے گی یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب انتخابی نتائج کے بعد ہی مل سکے گا۔
مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...
بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...
مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...
نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...
سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...
ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...
عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...
علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...
بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...
مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...
پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...
خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...