وجود

... loading ...

وجود

تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی

پیر 07 اگست 2023 تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی

ریاض احمدچودھری

پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹربہرہمند تنگی نے سینیٹ میں تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کی بحالی پر ایک بل پیش کیا ہے جس پر بروز سوموار بحث ہوگی۔ بل میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ملک کے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں کو پوری طرح سے بحال کرنے کی ضرورت ہے۔تعلیمی اداروں کی یہ تنظیمیں غریب اور متوسط طبقے کی سیاسی نرسریاں سمجھی جاتی تھیں جہاں سے ملک کو سیاسی قیادت ملی۔بہت سے قومی سطح کے سیاستدان طلبہ یونین سے ایوانوں تک پہنچے ہیں۔ جنرل ایوب خان نے طلبہ یونین پر پابندی لگائی تھی اور جب مارشل لا ختم ہوا اور آئین نافذ ہوا تو یہ پابندی اٹھائی گئی۔جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں طلبہ اور مزدور یونینوں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی ۔ اس سے قبل طلبہ تنظیموں کی بہت مثبت سرگرمیاں ہوتی تھیں جنرل ضیاالحق کے آنے تک یونیورسٹیاں پر امن تھیں اور وہاں بحث مباحثے ہوتے تھے۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد 1988 میں بینظیر بھٹو نے طلبہ یونین سے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا، لیکن تین سال کے اندر یونین سازی کو اس بنیاد پر عدالت میں چیلنج کر دیا گیا کہ یہ تشدد کو فروغ دیتی ہیں بالآخر 1993 میں سپریم کورٹ نے یونین پر پابندی عائد کر دی۔جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت کے بعد جب 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنے پہلے خطاب میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔جب مارشل لا ختم ہوتے ہیں تو بہت سارا ملبہ چھوڑ جاتے ہیں اور بہت ساری رکاوٹیں افسر شاہی کے پاس ہوتی ہیں جو دور سے نظر نہیں آتیں۔ ہمارے یہاں ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا کہ عبوری دور اپنے منطقی انجام پر پہنچا ہو جس کی وجہ سے جمہوری اداروں کی بحالی ایک بار بھی نہیں ہو سکی۔جماعت اسلامی کا دعویٰ ہے کہ جنرل ضیاالحق کے دور حکومت میں طلبہ تنظیموں پر پابندی جماعت اسلامی کو کنارے لگانے کی لیے لگائی گئی تھی۔ طلبہ تنظیمیں ایک بہت بڑا موقع ہوتا تھا کہ اساتذہ اور طلبہ کو ایک دوسرے کے طریقہ کار کو دیکھیں۔ اس طرح طلبہ کو مالیات اور عوامی رابطہ کا موقعہ مل جاتا تھا۔ دراصل حکمرا ن یہ چاہتے ہیں کہ آزادی کم سے کم میسر ہو اور لوگ حقوق کے نام پر سڑکوں پر نہ آ سکیں، لہٰذا اس طرح سے چیزیں کی جائیں کہ دستور سے شروع ہوں اور دستور پر ختم ہوں۔
پاکستان میں جامعات میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کی ایک وجہ طلبہ گروہوں میں تصادم کو بھی قرار دیا جاتا ہے۔ جب ہم یونین کی بات کرتے ہیں تو مطلب یہ ہوتا ہے کہ طالب علم اپنے مسائل خود حل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن بدقسمتی سے ان میں باہر کی قوتوں کا عمل دخل بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ پورے ماحول کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتی ہیں اس کی وجہ سے انتظامیہ بلیک میل ہو جاتی ہے۔ تشدد کی بنیاد جس نے بھی رکھی ہو اس کے لیے ہمدری پیدا نہیں ہو گی۔ موجودہ وقت میں تو کوئی یونین نہیں ہے لیکن اس عرصے میں تعلیمی اداروں کا کیا حال ہوا ہے، کہ بالآخر رینجرز کو لگانا پڑا ہے؟’ اعلیٰ تعلیمی اداروں کے طلبہ اور طالبات شدت پسندی میں ملوث پائے گئے ہیں۔ جس کے بعد انسداد دہشت گردی کے ادارے جامعات سے شدت پسندی کے رجحان کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کا کہنا ہے کہ انتہاپسندی کے رحجانات کی روک تھام کے لیے طلبہ تنظیمیں اہم کردار ادا کر سکتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ جتنی بھی تشدد پسند اور دہشت گرد تنظیمیں ہیں وہ ایک متبادل سیاسی نقطہ نظر پیش کرتی ہیں۔ جب مرکزی دھارے کے نقط نظر کو جامعات میں کام کرنے کے لیے اجازت نہیں دیں گے تو وہ خلا اس قسم کی پرتشدد تنظیمیں ہی پورا کریں گی۔ طلبہ یونین سے نہ صرف طلبہ میں بیداری پیدا ہوگی ،سیاسی سرگرمیاں بحال ہونگی اور جو ڈکٹیٹر شپ کے زمانے میں ان پابندیوں کے باعث برائیاں پیدا ہوئی ہیں وہ ختم ہونگی۔ طلبہ یونینز جب بحال ہونگی تو ان کو ایک قانونی طریقہ کار فراہم کیا جائے گا اور تعلیمی اداروں کو اسلحہ سے مکمل طور پر پاک کیا جائیگا۔طلبہ کی کردار سازی اور تربیت سے مستقبل کی سیاست میں بڑے نام پیدا ہونگے۔اسلامی جمعیت طلبہ اس امر کی بھر پور حمایت کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اداروں میں نظریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کا دفاع بہت ضروری ہے اور طلبہ کی فکری و نظریاتی تربیت کے لئے ایسی تنظیمیں ضرور ہونی چاہیں۔ قرار داد مقاصد کا حوالہ بھی دیا کہ کیسے نظریہ پاکستان کا دفاع ضروری ہے اور اداروں کو تاکید کی کہ وہ نظریہ پاکستان کا پرچار کریں نہیں تو انہیں حق نہیں پہنچتا کہ وہ بطور ادارہ ادھر کام کریں۔
پا کستان میں یہ جملہ بار بار دہرایا جاتا ہے کہ طلبہ کو سیاست کے بجائے تعلیم پر توجہ دینی چاہیے کہ سیاسی سرگرمی، تعلیمی کارکردگی کے لئے نقصان دہ ہے۔ اس بات کا حقیقت سے بہت کم تعلق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا کی اچھی یونیورسٹیاں آکسفورڈ سے لے کر ہارورڈ تک سب میں طلبہ یونینز تنظیمیں ہیںجب کہ پتہ نہیں کیوں پھر ہمارے غیر سیاسی اور کنٹرولڈ ادارے دنیا میں بدترین شمار ہوتے ہیں۔طلبہ سیاست اور تعلیمی نتائج پر تحقیقات یہ بتاتی ہیں کہ طلبہ سیاسی لیڈرشپ بہت سے سیکھنے سمجھنے کے نتائج کے معاملات جیسے علمی پیچیدگیوں، علم کا حصول و اطلاق، باہمی اور دوسروں سے تعلقات میں قابلیت کے اعتبار سے مثبت ترقی سے جڑی ہوتی ہے۔ محقق یہ کہتے ہیں کیوں کہ طلبہ کی سیاسی سرگرمیاں انہیں حالات اور لوگوں کا سامنا کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں جو اپنے بارے میں سیکھنے، اپنے سے مختلف لوگوں کے ساتھ کام کرنے، شہری ذمہ داری کے تصورات اور اپنی برادری اور معاشرے میں مسائل کے حل کے لیے حوصلہ افزا ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر