... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
راہل گاندھی نے اپنی رکنیت کی بحالی کے بعد پریس کانفرنس میں صرف تین جملے کہے ۔ پہلا تو یہ کہ آج یا کل ، جیت ہمیشہ سچائی کی ہوتی ہے ۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے لیکن اس کو سن کر مودی اور شاہ کی جوڑی سوچ رہی ہوگی کہ اگر جھوٹ کی ہار ہوجائے گی تو ان کا کیا ہوگا ؟ گبرّ سنگھ کا مشہور ڈائیلاگ ان کے دماغ میں گھوم رہا ہوگا :’اب تیرا کیا ہوگا رے کالیا’؟ اس کے بعد گولیوں کی گڑگڑاہٹ اور پھر :’جو ڈر گیا وہ مرگیا’۔ بیچارے ڈرے سہمے بھگت سوچ رہے ہیں کہ اب ان کا کیا ہوگا کیونکہ جیت تو سچائی کی ہوتی ہے ۔ راہل کا دوسرا جملہ تھا ‘مجھے پتہ ہے کہ کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے ؟’ ۔ان کے انداز سے ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ارجن کی مانند تیل کی کڑھائی میں مچھلی کی آنکھ پر نشانہ سادھ کر یہ بول رہے ہیں ۔ اس مہابھارت کا انجام کیا ہوگا یہ تو وقت بتائے گا؟ آخری جملہ تھا : ‘آپ لوگوں نے جو پیار اور سپورٹ مجھے دیا ہے اس کے لیے میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں’۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے راہل کے خلاف یہ سازش رچی گئی اور نچلی عدالت سے غیر متوقع فیصلہ آیا تو تبھی سے راہل کی حمایت میں اضافہ ہونے لگا۔ ایوان پارلیمان کی رکنیت چلی گئی تو اور پیار اور بھی بڑھ گیا ۔ گھر خالی ہوا تو ہمدردی ملنے لگی ۔ ہائی کورٹ نے نچلی عدالت کے فیصلے کی توثیق کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوگیا ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے روک لگائی تب تو حامیوں کے بلے ّ بلے ّ ہوگئے ۔ ان ساری عنایتوں کے لیے راہل کو بی جے پی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جس نے اسے ممکن بنایا ورنہ کانگریس اگر اپنا سارا خزانہ بھی خالی کردیتی تب بھی گودی میڈیا اتنی خبریں نہیں چلاتا ۔ کنس کے گھر میں کرشن کے پلنے بڑھنے کی پرانی پرمپرا ہے ۔ راہل کے اس مقدمہ نے کئی پیغام دئیے اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ مودی جی ہندوستان کو گجرات بنانے میں ناکام ہوگئے ۔ وزیر اعظم بننے سے قبل آدرش گجرات ماڈل کا جعلی خواب بیچا گیا۔ ایک خیالی چیز کو میڈیا کے ذریعہ اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا کہ سارے ملک میں گجرات بن جانے کی خواہش پیدا ہوگئی۔
مودی جی نے یہ وعدہ کیا کہ وہ پورے ملک کو گجرات بنا دیں گے ۔ ممبئی سے احمد آباد تک بولیٹ ٹرین چلا دیں گے لیکن نو سال کے بعد پتہ چلا کہ وہ گولی کی طرح ٹرین تو نہیں چلاسکے ہاں اپنے بھگتوں کے ذریعہ ممبئی اور احمد آباد کے بیچ پالگھر کے قریب گولی چلوادی۔ ان کے بھگت چیتن سنگھ نے پہلے اپنے سینئر افسر اورپھر چار بے قصور مسافروں کا قتل عام کردیا۔ وہ مسلم دشمن جنونی حوالدار چونکہ مودی اور یوگی کی حمایت میں نعرے لگاتے ہوئے گولیاں چلا رہا تھا اس لیے ان دونوں کو چاہیے تھا کہ اس کی وضاحت کرتے ۔ اس سانحہ پر یاتو کہتے کہ ان کا قاتل سے کوئی تعلق نہیں ہے اس لیے اسے قرار واقعی سزا دلائی جائے گی۔ یہ ممکن نہیں تھا تو کہہ دیتے کہ ہمارے بھگتوں کے لیے یہ فعل مباح ہے ۔ ہم اس کو اس کارخیرکے لیے انعام و اکرام سے نوازیں گے اور بہت جلد وہ ایوانِ پارلیمان میں رونق افروز ہوگا ۔ مودی اور شاہ کے آگے کھائی اور پیچھے آگ ہے ۔ وہ اگر اس ظلم کی مذمت کریں تو بھگت ناراض ہوتے ہیں اور خاموش رہیں تو غیر بھگتوں کو ناگوار گزرتا ہے اس لیے بولیں تو بولیں کیاَ اور کریں تو کریں کیاَ ؟ کی کیفیت ہے ۔اس مقدمہ نے گجرات ماڈل کا اصلی چہرہ لوگوں کے سامنے پیش کردیا ۔
گجرات ماڈل یہ ہے کہ جب اپنے سیاسی دشمن پر قابو پانا مشکل ہوجائے تو ایک چیلے کے ذریعہ اس کے خلاف اپنے صوبے میں مقدمہ درج کروا دو۔ یہ خاص بات ہے کہ جس وقت راہل گاندھی نے کرناٹک کے کولار شہر میں تقریر کی تو ڈبل انجن سرکار تھی ۔ کرناٹک کے اندر اپنی سرکار کے باوجود مقدمہ درج کروانے کے بجائے گجرات کے سورت کی عدالت میں دائر کرایا گیا کیونکہ اندھا دھند دھاندلی کے لیے تو صرف گجرات کا ماحول سازگار ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی اپنے آپ کو ملک کا مقبول ترین رہنما سمجھتے ہیں لیکن ان کے اندر ہمت نہیں ہے کہ کرناٹک کے اندر مقدمہ درج کروا کر اپنا من مانا فیصلہ کروالیں ۔ یہ ان کے اندر پائے جانے والے عدم تحفظ کا کھلا ثبوت ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گودی میڈیا جو چاہے دعویٰ کرے وہ خود اپنی نظر میں اب بھی عالمی تو دور قومی سطح کے رہنما بھی نہیں ہیں۔ ملک کا وزیر اعظم بننے کے باوجود وہ ایک صوبائی رہنما ہیں ۔ گجرات کے علاوہ ان کی کہیں نہیں چلتی ۔ ارے اگر وہ اپنی ناک کے نیچے بسی دہلی میں اپنا من پسند فیصلہ نہیں کرواسکے تو وارانسی میں کیا خاک کریں گے ۔ اس فیصلے کا سب سے بڑا پیغام یہ ہے کہ مودی جی اپنے نوسالہ دورِ اقتدار میں راجدھانی دہلی کو بھی گجرات بنانے میں ناکام ہوگئے ۔
اڈانی کو بچانے کے لیے مقدمہ کو تیزی سے چلا کر راہل کو ایوان پارلیمان سے باہر بھیجا مگر اب وہ لوٹے تو سرکار کے خلاف تحریک عدم اعتماد ان کا خیر مقدم کررہی ہے ۔ راہل گاندھی جب ایوان میں آئیں گے تو نہ صرف کانگریس بلکہ پورا ‘انڈیا’ کہے گا ‘دیکھو دیکھو کون آیا؟ شیر آیا آیا’ تو بیچارے اسپیکر اوم برلا کا کیا ہوگا؟ راہل گاندھی رکنیت ختم کرنے میں اگر وہ اتنی جلدی نہ مچاتے تو ان کی یہ درگت نہ ہوتی۔ ایوان کے اندر تحریک عدم اعتماد منظور ہونے کے باوجود اس پر بحث کروانے کے بجائے مرکزی حکومت نت نئے قوانین منظور کروا رہی ہے حالانکہ اس کو دیگر امور سے قبل اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا چاہیے ۔ بی جے پی کی بھلائی اس میں تھی کہ راہل گاندھی کی آمد سے قبل بحث کرکے معاملہ نمٹادیا جاتا ۔ اس مقدمہ کی پچھلی سماعت میں جب جسٹس گوائی نے سوال کیا تھا کہ ان کے والد کانگریس کی مدد سے رکن پارلیمان بنے تھے اور بھائی کانگریس میں ہے اس لیے کسی کو ان پر اعتراض تو نہیں ہے ؟ اس سوال سے عدالت کے رجحان کا اندازہ لگا لینا چاہیے تھا لیکن اس کے لیے جو عقل چاہیے وہ بیچارے بی جے پی والوں میں نہیں ہے ۔
تحریک عدم اعتماد کا مرکزی موضوع یقیناً منی پور کا تشدد ہوگا۔ تین ماہ کے بعد وہاں پھر سے قتل و غارتگری شروع ہوگئی ہے ۔ پچھلے دنوں میتئی خواتین کو حملہ کرنے سے آسام رائفلس نے روکا تو وہ بھڑ گئیں۔ بالآخر ہیمنتا بسوا سرما کی آسام رائفلس کو میتئی خواتین پر آنسو گیس کے گولے چھوڑنے پڑے اور گولیاں چلانی پڑیں۔ یعنی اب یہ معاملہ کوکی میتئی سے آگے بڑھ کر آسام رائفلس اور میتئی کے درمیان ہوگیا جبکہ یہ دونوں بی جے پی کے وفادار ہیں۔ میتئی سماج اب کوکی لاشوں کو اپنے علاقہ میں دفنانے کا بھی روادار بھی نہیں ہے ۔ ایسے میں جب ایوان میں راہل بتائیں گے کہ انہوں نے منی پور میں کیا دیکھا اور وہاں کے لوگ چھپن انچ کی چھاتی والے وزیر اعظم کو ڈھونڈ رہے ہیں تو مودی جی کیا جواب دیں گے ؟ کیا وہ بولیں گے کہ ‘میں راجستھان اور ایم پی میں اپنی پارٹی مضبوط کررہا تھا یا گجرات کے اندر اپنی لیڈری چمکا رہا تھا’۔ یہ شرم کی بات ہے کہ تین ماہ بعد بھی ملک کا وزیر اعظم ایک ایسے صوبے کا دورہ نہیں کرسکا جہاں پر بیس فیصد عوام ریلیف کیمپ میں ہے ۔ مودی جی کو چاہیے کہ وہ اپنی لال آنکھوں سے چین کو نہ سہی تو منی پور کے فسادیوں کو ڈرا کر امن امان قائم کردیں لیکن اب ان آنکھوں میں آنسووں کے سوا کچھ نہیں ہے اور پوری قوم اپنی سرکار پر آنسو بہا رہی ہے ۔
یہ فیصلہ ساورکر کے نظریہ پر گاندھی کے نظریے کی بھی جیت ہے ۔ راہل گاندھی جب کہتے ہیں کہ وہ ساورکر نہیں ہیں جو ڈر کر معافی مانگ لیں تو سنگھ پریوار کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے ۔ اس لیے کہ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو چھپانا سنگھ پریوار کی سب سے بڑی مجبوری ہے ۔ ملک کے لوگوں کو جس وقت پتہ چل جائے گا کہ یہ بزدل لوگ انگریزوں کے وفادار تھے ۔ انہوں نے نہ تو گاندھی کے عدم تشدد کا ساتھ دیا اور نہ سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج میں شامل ہوئے ۔ یہ لوگ تو آزادی کی جدوجہد کو ناکام کرنے کی خاطر انگریزوں سے آلۂ کار بنے رہے ۔ ایمرجنسی میں جن سنگھ کے رہنما گرفتار ہوئے تو مودی جی روپوش ہوگئے ۔ یوگی چند دنوں کے لیے جیل بھیجا گیا تو ایوان پارلیمان میں رو رو کر مرنے کی دہائی دینے لگے ۔ غلامی کے اس پرودہ ٹولے کے ہاتھوں میں اتفاق سے ملک کی باگ ڈور آگئی ہے ۔ یہ لوگ پورے ملک کو اپنے جیسا غلام بنانا چاہتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ احتجاج تودور اختلاف کے روادار بھی نہیں ہیں ۔ یہ چاہتے ہیں کہ جس طرح وہ خود اقتدارِ وقت کے باجگذار تھے اسی طرح دیگر لوگ ان کی اطاعت گزار بن جائیں لیکن ایسا نہ ماضی میں ہوا اور نہ مستقبل میں ہوگا ۔ آزادی کے متوالے پہلے بھی کامیاب و کامران ہوئے ہیں اور آگے بھی ہوں گے ۔ یہ اس فیصلے کا سب سے بڑا پیغام ہے کہ ڈر کر معافی نامہ لکھنے والے ذلیل و خوار ہوتے ہیں اور کامیابی کامرانی سر اٹھا کر بلا خوف وخطر آزادی کا پرچم لہرانے والوں کے قدم چومتی ہے ۔ راہل گاندھی کی کامیابی ملک کا حریت پسند خوش ہے ۔
٭٭٭