وجود

... loading ...

وجود

اقبال نے کربلا کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا قرار دیا

اتوار 06 اگست 2023 اقبال نے کربلا کی لازوال قربانی کو اسلام کی بقا قرار دیا

ریاض احمدچودھری

قلم کاروان اسلام آباد ، بیداری فکراقبال کی ادبی نشست میں” قافلہ حجازمیں اک حسین بھی نہیں”کے عنوان پر فریدالدین مسعودبرہانی نے بتایاکہ یہ مصرعہ “بال جبریل”سے لیاگیاہے جو1935میں شائع ہوئی،اس دورمیں سلطنت عثمانیہ زوال کاشکارہورہی تھی اور مغربی تہذیب بہت تیزی سے مسلمانوں میں نفوذکررہی تھی ۔ اس زمانے میں عرب باہم ایک دوسرے کی کمرمیں خنجرگھونپ رہے تھے اور سوئے اتفاق کہ اس وقت والی حجازکانام بھی حسین تھاچنانچہ علامہ کایہ مصرع ذومعنی ہے جس میں امام حسین بن علی کے کردار اور اس وقت کے والی حجازکے کردارکا تقابل پیش کیاگیاہے۔اقبال مشاہیر پرست نہیں تھے بلکہ مشاہیرسازتھے،بقول کسے کہ اقبال مسلمانوں کی آنکھ ہیں جوہروقت اشک بارہے کیونکہ حسرت و آرزوکلام اقبال کاخاصہ ہے۔ دجلہ و فرات سے ایک مراد علم کے بہتے ہوئے دریابھی ہیں لیکن یہاں سے امام حسین بن علی کاکردار برآمدنہیں ہورہا۔
علامہ اقبال عصرحاضر کے وہ عظیم شاعر ہیں جن کی شاعری عقل و شعور اور بلندی افکار و تخیل سے مزّین ہے لہذٰا یہ ناممکن ہے کہ علامہ اقبال جیسی حساس شخصیت واقعہ کربلا کو نظرانداز کرے۔ پس مشرق کے بلند پایہ شاعر، مفکر اور عاشق رسولۖ اور اہلبیت، علامہ اقبال جیسی شخصیت کے فکر و فن میں واقعہ کربلا کو بنیادی اہمیت حاصل ہونی چاہیئے تھی جو کہ ہے۔ اگرچہ اقبال نے مختلف نظموں اور غزلوں میں فرزند زہرا، حماسہ ساز کربلا، شہدائے کربلا کے امام کی جاں سپاری اور قربانی کا ذکر کیا ہے تاہم ”رموزِ بے خودی” میں اشعار کا ایک تسلسل ”در معنی حریت اسلامیہ و سرحادثہ کربلا” کے عنوان کے تحت قلمبند کیا ہے۔ علامہ نے واقعہ کربلا بیان کرنے سے پہلے توحید کی آفاقی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اور کہا ہے کہ جو شخص ذات باری کے ساتھ اپنا عہد و پیمان قائم کرتا ہے اس کی گردن ہر دوسرے معبود کی پرستش سے آزاد ہو جاتی ہے۔ یعنی جو لوگ توحید خالص کے ماننے اور اس پر ثابت قدمی دکھاتے ہیں وہ نمرودوں، فرعونوں اور یزیدوں کے سامنے کبھی نہیں جھکتے۔
اسی طرح کشمیری ادب پر ایک نظر ڈالیں تو لاتعداد شاعر ، ادیب اور فن کار آزادی کے گیت گاتے اور داستانیں سناتے نظر آتے ہیں،لیکن ڈاکٹر محمد اقبال کی کشمیر سے وابستگی اور اس حوالے سے ان کے کلام کا ذکرکا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مفکّرِ پاکستان کو اس خطّے سے کس قدر لگائو تھا اور وہ آزادی کے حوالے سے کشمیریوں کے جذبات کی کتنی قدر کرتے تھے۔انہیں کشمیر سے قلبی لگائو تھااوروہ خود بھی کشمیری الاصل تھے۔ انہوں نے اپنے کلام اور مکتوبات میں جا بجا کشمیر کا تذکرہ کیا ہے۔ علّامہ اقبال نے اپنے انتقال( 1938ء )سے پہلے کہہ دیا تھا کہ اہلِ کشمیر کی محکومیت زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہ سکتی، اس کی وادیوں سے انقلاب کی تحریک ضرور اْبھرے گی اور غلامی کی زنجیروں کو توڑ کے رکھ دے گی۔
یوں تو کشمیر کے شعری رجحانات پر علامہ کی شخصیت کی گہری چھاپ تھی اورکثیر تعداد میں شعرا نے ان کے رنگ کو قبول کیا تھا، مگر ان میں سب سے نمایاں نام جس نے ان کا گہرا اثر لیا پیر زادہ غلام احمد مہجور تھے۔ اس شاعر رنگین نوا نے اقبال کا رنگ اپناکر کشمیری شاعری کو صدائے انقلاب بنادیا، جس سے کشمیر کی فضا میں گلشن میں اور شاخ نشیمن میں ایک نئی روح ابھری۔علامہ نے ”پیام مشرق”، ”جاوید نامہ” اور ”ارمغان حجاز” میں المیہ کشمیر کے مختلف پہلوؤں پر بہت کچھ لکھ کر اس کے زوال و پستی کے اسباب کا تجزیہ کیا ہے، جس میں تو ہم پرستی، مزار پرستی، کور ذوقی اور بے عملی وغیرہ شامل ہیں۔ انہوں نے انہیں سیاسی شعور دیا اور خود شناسی، خود اعتمادی، ذوق عمل ہمت و مردانگی کی توانائیاں بخشیں۔
علامہ اقبال کے فکر سے بلا شبہہ امت مسلمہ کے اندر ایک بیداری پیدا ہوئی۔ جذبہ عمل پیدا ہوا۔ لوگ حرکت میں آئے۔ بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقہ پوری طرح الحاد اور بے دینی کی طرف جانے سے بچ گیا۔ جو کچھ ہوا بر صغیر ہند و پاک تک ہوا۔ بہت بعد میں ایران میں علامہ کے کلام کے اثرات رو نما ہوئے۔ لیکن بقیہ عالم اسلام پر علامہ اقبال کے فکر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کا صحیح اندازہ نہیں ہے۔
آج عالم اسلام پر جب نظر ڈالتے ہیں تو علامہ کے فکر اور اس کے مطابق منظم اور منصو بہ بند کوششوں کی شدید ضرورت محسوس ہو تی ہے۔پورا مشرقِ وسطیٰ بری طرح مجروح ہے۔ سواسو کروڑ کی تعداد میں بسنے والی یہ امت جس کے پاس آزاد ملکو ں کی تعداد 60 کے قریب ہے، اور دنیا کی دولت اور خزانے اللہ نے وافر مقدار میں اسے عطا کئے ہیں، لیکن خس وخاشاک کے مانند ہو کر رہ گئی ہے۔علمی اور فکری اعتبار سے ایک شاندار تاریخ اور بہترین مواد کی حامل یہ قوم اپنے پاس عصائے موسیٰ رکھ کر رسیوں سے خوف کھا رہی ہے۔بلاشبہ ہر ملک میں اب تجدید و احیاء دین کی کوششیں چل رہی ہیں، خود ہندوستا ن میں بھی یہ کام ہو رہا ہے،تاہم ان کو منظم اور موثر بننے میں وقت لگ سکتاہے۔ہم میں سے ہر فرد کو اپنی ذمہ داری سمجھنا اور ادا کرنا چاہئے
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقد ر کا ستارہ
تقدیر امم کیا ہے کوئی کہہ نہیں سکتا
مومن کی فراست ہو تو کا فی ہے اشارہ
ذہن صدیوں پیچھے چلا گیا جب انھی مومنوں کے آباء نے روم اور ایران کی سلطنتوں کو روند ڈالا تھا۔ اْس وقت کے رومی جرنیل نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے جرنیل خالد بن ولیدسے پوچھا، ”آخر کیا وجہ ہے کہ آپ نے صرف تیس ہزار کی فوج سے تین لاکھ کی فوج کو شکست دے دی ہے اور آپ جہاں جاتے ہیں فتح یاب ہوتے ہیں، یہ راز کیا ہے”؟ عظیم جرنیل نے جواب دیا،”ہم موت سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتناتم زندگی سے کرتے ہو”پھر وضاحت کی کہ ہمارے ہر سپاہی کی سب سے بڑی آرزوشہادت ہے۔ اللہ کی خوشنودی اور شہادت کے لیے لڑنا ہی جہاد ہے، اور یہی وہ جذبہ ہے جو اسلامی فوج کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر