... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
منی پور سے ممبئی اورگروگرام سے میوات تک رونما ہونے والے یکے بعد دیگرے بد سے بدترین واقعات سنگھ پریوار پر بوکھلاہٹ اور حیوانیت کے سوار ہونے کا بین ثبوت ہیں۔ کرسی کے نیچے سے جب زمین کھسکنے لگتی ہے تو انسان آر پی ایف چیتن سنگھ کی مانند باولہ ہوجاتا ہے ۔ بی جے پی اس گھبراہٹ میں راہل گاندھی کے اس اندیشے کو سچ ثابت کررہی ہے کہ’ یہ لوگ اپنے اقتدار کی خاطر ملک کو آگ لگادیں’۔ جموں کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک ٹھیک ہی کہتے ہیں کہ جو پلوامہ کرسکتا ہے وہ کچھ بھی کرسکتا ہے اور وہی ہورہا ہے ۔ 31 اگست کو جئے پور۔ ممبئی سپر فاسٹ ایکسپریس میں فائرنگ کرنے والا ریلوے پولیس کا حولدار چیتن سنگھ دراصل سنگھ پریوار کی موجودہ ذہنی کیفیت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے ۔ اس نے پہلے تو اپنے افسر اے ایس بی ٹیکا رام مینا کو موت کے گھاٹ اتارا اور پھر جب اسے محسوس ہوا کہ اب پھانسی کے پھندے پر چڑھنا ہوگا تو تین بے قصورمسافروں عبدالقادر، اصغر کائی اور محمد حسین کو شہید کر کے خود کو مودی اور یوگی کا بھگت ثابت کرنے کی سعی کر ڈالی ۔
چیتن کی حرکت کے پیچھے یہ توقع ہوسکتی ہے کہ اس طرح اس کے جرم کی پردہ داری ہوجائے گی اور زعفرانی انتظامیہ نرمی کا سلوک کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوگا ۔ چیتن سنگھ کی مانند اس میں نفرت کا زہر بھرنے والا سنگھ پریوار بھی کیفر کردار کو پہنچے گا کیونکہ ذہنی توازن کھو بیٹھنے کے باوجودیہ لوگ فرقہ واریت کا شکار رہتے ہیں۔اس جرم عظیم پر سماجی کارکن ایشور مینا نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ‘آر پی ایف کانسٹیبل چیتن سنگھ نے ٹرین میں اپنی سرکاری رائفل سے چار لوگوں کا قتل کردیا، یہ اس کے اکیلے کا جرم نہیں ہے ۔ اس نے پہلے اپنے سینئر تکا رام مینا کو قتل کیا اور پھر تلاش کرکے 3 مسلم مسافروں کی شناخت کے بعد انہیں مار ڈالا۔ اس خوفناک واقعہ کی وائرل ویڈیوز سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جرم کس کا ہے ؟ فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والا ہر ایک گودی چینل 247 نیز ہر وہ سیاست دان اور نفرت پھیلانے والی تنظیم جواس کی سرپرستی کر رہی ہے ۔ سوشل میڈیا دن کی روشنی میں ہونے والے فرقہ وارانہ قتل کو کم کرکے بتارہاہے جو نہایت خطرناک و خوفناک ہے ۔ نفرت انگیز واقعہ کو چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ نازی ہندوستان کے قیام کا پہلا مرحلہ ہے جہاں حکومت کے سپاہی ‘دشمنوں’ کو مارنے لگتے ہیں”۔
یہ بہیمانہ واردات یقیناً سرکاری سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف میڈیا کے ذریعہ پھیلائے جانے والی نفرت انگیزی کا نتیجہ ہے ۔اس کو ہلکا کرنے کے لیے چیتن سنگھ کو ذہنی مریض کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ جنون کی کیفیت میں اس طرح چن چن کر گولی چلا نے کے دوران مودی و یوگی کی دہائی دینا مسئلہ کی سنگینی میں زبردست اضافہ کردیتا ہے ۔ اس طرح کے حملے میں اگر حملہ آور مسلمان اور اس کا شکار ہونے والے ہندو ہوتے تو بلا توقف اسے ایک دہشت گردانہ واقعہ قرار دے کر پوری قوم کو موردِ الزام ٹھہرا دیا جاتا ۔ اسی پالگھر میں جہاں یہ واردات ہوئی کورونا کے زمانے میں قبائلی گاوں والوں نے ایک سادھو اور اس کے ڈرائیور کو غلطی سے بچہ چور سمجھ کر ہلاک کردیا تھا۔ اس پر نہ صرف حزب اختلاف بلکہ پورا میڈیا ہذیانی کیفیت کا شکار ہوگیا۔ ارنب جیسے جنونی نے تو اسے سونیا کے توسط سے اٹلی پہنچا دیا لیکن اب اس کی زبان پر قفل لگا ہوا ہے ۔ پلک جھپکتے اٹلی پہنچ جانے والا ارنب اب اس کو قریب کے شہر ناگپور تک پہنچانے سے قاصر نظر آرہا ہے ۔4 لوگوں کو اپنے سروس ہتھیار سے قتل کرنے والا چیتن سنگھ اگر ذہنی مریض ہے تب بھی اس کو سرِ عام پھانسی دی جانی چاہیے تاکہ ایسے لوگوں کا دماغ درست ہواور وہ وضع قطع سے پہچان کر مسلمانوں کو ہلاک کرنے کی ہمت نہ کریں ۔
ریل میں اس اندوہناک واقعہ کے وقت ہریانہ کے نوح ضلع میں زبرست تشدد پھوٹ پڑا۔ اس کو قابو میں کرنے لیے اطراف کے علاقوں میں بھی نیم فوجی دستوں کی 13کمپنیاں تعینات کرنی پڑیں ۔ راجدھانی دہلی سے متصل گروگرام، فرید آباد، ریواڑی اور میوات اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔ مذکورہ تشدد میں 4افراد ہلاک اور کئی لوگ زخمی بھی ہوئے ۔ میوات میں چونکہ 80 آبادی فیصد مسلمان ہے اس لیے سوشیل میڈیا پر منافرت بھرے پیغامات کے ذریعہ اشتعال انگیزی شروع کی گئی۔ بی جے پی کے فسادی رہنما کپل مشرا نے ٹویٹ میں لکھا کہ ‘نوح میوات میں آج بے گناہ ہندو خواتین، بچے ، غیر مسلح عقیدت مندوں کو جہادیوں نے گھیر لیا، منصوبہ بند قاتلانہ حملہ کیا۔ صحافیوں اور پولیس اہلکاروں کے قتل کی کوشش کی۔ میوات کے اس حملے کے حملہ آور میوات کو منی پاکستان بنانے میں لگے ہوئے ہیں”۔ دہلی فساد کے اصلی مجرم مشرا نے بہتان تراشی کی کہ : ‘ملک کی سیکولر سیاست اور صحافت کے شاہین باغ والے جہادی گینگ نے میوات میں اس طرح کے حملوں کے لیے نظریاتی کردارادا کرنے کا کام کیا ہے ‘ ۔ اس جھوٹ سے قطع نظر سچائی یہ ہے کہ اس تشدد کی اصل ذمہ داری بجرنگ دل کے مونو مانیسر کی اشتعال انگیز ویڈیو کے سرہے ۔
نوح کے مونو مانیسر اوراس کے بجرنگی ساتھیوں پر جنید اور ناصر کو زندہ جلانے کا الزام ہے ۔ اس کے باوجود اسے بی جے پی کی صوبائی سرکار نے کھلا چھوڑ رکھا ہے ۔ اس نے پچھلے دنوں ایک وائرل ویڈیو میں یاترا کے دوران میوات میں رہنے کا کھلا چیلنج کیا تو ظاہر ہے جوابی تیاری بھی شروع ہوگئی اور علاقے کا ماحول گرم ہوگیا۔ جلوس میں مونو مانیسر اور ان کے ساتھی جب گروگرامـالور قومی شاہراہ پر نظر آئے تو ہنگامہ ہوگیا، جس میں دو ہوم گارڈس کے جوان اور ایک شہری ہلاک ہوا نیز متعدد افراد زخمی ہوگئے ۔ تادمِ تحریر حالات کشیدہ مگر قابو میں ہیں کیونکہ ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف )کی 20 کمپنیاں تعینات ہیں ۔نوح میں شروع ہونے والے تشدد کی آگ دیکھتے دیکھتے گرو گرام اور پلول تک پہنچ گئی جہاں متعدد فیکٹریوں ،گھروں اور مکانوں کو نذر آتش کیا گیا ۔ حالات کو قابو میں کرنے کے لیے انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی گئیں اور بی جے پی کی صوبائی سرکار کے وزیر داخلہ انل وج کومرکزی حکومت سے اضافی سیکورٹی دستہ کا مطالبہ کرنا پڑا ۔
وشو ہندو پریشد نے ان پرتشدد واقعات کو پولیس اور انٹیلی جنس کی کوتاہی قرار دے کر بی جے پی کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا ۔ اس سے گھبرا کر ریاستی وزیر داخلہ کو کہنا پڑا یہ منصوبہ بند سازش ہے اور اس کے پیچھے افراد اور ا سباب کا پتہ لگا کر قصور واروں کو سزا دی جائے گی ۔ انل وِ ج اگر جنید اور ناصر کے قاتلوں کو بچانے کے بجائے سزا دلوا تے تو آج یہ نوبت نہیں آتی ۔ یہ ان کے ہاتھوں کی کمائی ہے ۔نوح کے اندر منہ کی کھانے کے بعد ان بزدلوں نے گروگرام میں انتقام لینا شروع کردیا ۔ وہاں پراسکول کالج اور کئی دفاتر پہلے ہی بند کردئیے گئے تھے کیونکہ
ضلع میں کشیدگی کے سبب خوف و ہراس پھیلا ہواتھا اور دفعہ 144 نافذ تھی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر بلوائیوں نے یکم اگست کی شب قریب ساڑھے 12 بجے گروگرام سیکٹر 57 میں واقع انجمن مسجد پر حملہ کردیا ۔ مسجد کے امام حافظ سعد اور ان کے ساتھیوں پر 200 سے زائد افراد کا ہجوم بندوق ، تلواروں، لاٹھیوں سے لیس ہوکر ٹوٹ پڑا۔ ان فسادیوں نے مسجد میں توڑ پھوڑ اور آگ زنی کرنے کے بعد وہاں موجود لوگوں پر فائرنگ کی ۔
زعفرانیوں کے اس بزدلانہ حملے میں مسجد کے 19 سالہ امام شہید ہوگئے اور دیگر دو زخمی زیر ِ علاج ہیں ۔ امام صاحب کی ہمشیرہ کے بقول رات ساڑھے گیارہ بجے لائٹ کاٹ دی گئی تھی اور مسجد کے باہر چوکیدار سمیت پولیس کا دستہ پہرے پر تعینات تھا مگر حفاظتی دستوں کی کوتاہی یا ملی بھگت سے یہ سانحہ وقوع پذیر ہوگیا ۔ گروگرام میں سیکٹر 57 کی طرح سوہنا علاقہ میں امن کمیٹی کے اجلاس کے بعد پولیس فورس نے سوہنا میں ایک طرف فلیگ مارچ شروع کیادوسری جانب کچھ شرپسندوں نے شاہی مسجد میں گھس کر وہاں نصب پنکھے ، میزیں اور کرسیاں وغیرہ توڑ پھوڑ دیں اور آگ لگانے کی کوشش بھی کی ۔ اس واردات کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی ٹیم موقع پر پہنچی توشرپسند مولانا کلیم کے گھرمیں توڑ پھوڑ کررہے تھے ۔ یہ دیکھ کر پولیس نے ہوائی فائرنگ کی تو شرپسند بھاگ کھڑے ہوئے ۔
پولیس کی ٹیم نے مولانا کے اہل خانہ کو سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر پہنچایا ۔ اسی طرح کا معاملہ حافظ سعد صاحب کے ساتھ ہوتا وہ بھی ظلم و جور سے بچ سکتے تھے ۔ اس لیے امام صاحب کے قتل اور مسجد کو نذر آتش ہونے سے بچا نے میں ناکامی کے لیے قاتلوں اور بلوائیوں کے ساتھ وہاں تعینات حفاظتی دستے کو بھی سزا ملنی چاہیے ۔ اس کے برعکس بی جے پی سرکار کا یہ حال ہے کہ وہ بریلی میں کانوڑیوں پر لاٹھی چارج کرکے فساد کو ٹالنے والے ایس ایس پی پربھاکر چودھری کو انعام و اکرام سے نوازنے کے بجائے معطل کر دیتی ہے ۔ ایسے میں اگر سماج سے امن و امان غارت نہیں ہوگا تو کیا ہوگا؟ اور یہی ہورہا ہے ۔ سنگھ پریوار کے اقتدار کی ہوس ملک کو کہاں پہنچائے گی یہ کوئی نہیں جانتا۔
٭٭٭