... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دور جدید میں انسانوں کی پہچان کیلئے فنگر پرنٹ کااستعمال کیا جاتا ہے کیونکہ ہماری انگلیوں کے نشان بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ ہر انسان کے فنگرپرنٹ دوسرے انسان کے فنگر پرنٹ سے (چاہے وہ مر چکا ہو، یا زندہ ہو) مختلف یا منفرد ہوتے ہیں جبکہ وہ جڑواں بچے جو بالکل ایک شکل کے ہوتے ہیںاور جن کو ان کے اپنے والدین بھی ا ن کو پہچاننے میں دھوکا کھاجاتے ہیں، ان کی انگلیو ں کے نشان بھی منفر د ہوتے ہیں۔
ممتاز محقق پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری کا کہنا ہے کہ جب بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنی نعمتیں یاد کرائیں تو خاص طور پر انسانوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم نے تمہیں بہترین پیدا کیا۔ فنگر پرنٹس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے تین سورتوں ،سورة حم سجدہ، سورة قیامہ اور سورة التین میں فرمایا کہ تم نے غور نہیں کیا ، ہم تو تمہاری انگلیوں کی پوریں بنانے پر بھی قادر ہیں۔چودہ سو سال قبل قرآن نازل ہوا مگر ہم نے اب اس کو صرف برکت کیلئے رکھ چھوڑا ہے۔ اس کو سمجھنے اور اور اس پر عمل کرنے کی توفیق نہیں۔ اگر ہم سمجھیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری انگلیوں کی پوروں کا ذکر کیوں خاص طورپر کیا ۔ مغرب نے اس پر تجربات کیے تو ان کو تو یہ بات سمجھ میں آ گئی ۔ انگلینڈ کے فلاسفر ڈاکٹر فرانسس گیلٹن نے 1892 میں ایک کتاب شائع کی جس کا نام ہی یہی تھا فنگر پرنٹس۔ انہوں نے فنگر پرنٹس کی تاریخ دریافت کی کہ سات سو عیسوی میں چین کے لوگ آدمیوں کی شناخت کیلئے فنگر پرنٹس کو محفوظ کر لیتے تھے۔ مٹی کو بہت نرم کر کے گیلی مٹی پر فنگر پرنٹس لگوا کر محفوظ کر لیتے تھے۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ۔ انسان نے سوچا شناخت کیلئے فنگر پرنٹس بہت ہی اہم ہیں۔
ماہر تعلیم و عربی زبان ڈاکٹر اکرم چودھری بتاتے ہیں کہ میرے فنگر پرنٹس منفرد ہیں جو صرف میرے ہیں۔میرے جیسے فنگر پرنٹس کسی کے بھی نہیںہیں۔ اس وقت دنیا کی آبادی سات ارب کے قریب ہے توسات ارب لوگوں کے آپس میں فنگر پرنٹس نہیں ملتے۔ جڑواں بچوں کی پیدا ئش کے سلسلے میں حیرانی کی بات یہ ہے کہ ان کے بھی فنگر پرنٹس علیحدہ علیحدہ ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جتنے انسان دنیا میں پیدا کیے ہیں ہر کسی کو الگ الگ فنگر پرنٹس دیے ہیں۔ماہرین کی رائے ہے کہ اگر دنیا کی آبادی چونسٹھ ارب ہو جائے تو ایک امکان ہے کہ کوئی دو آدمیوں کے فنگر پرنٹس مل جائیں مگر اس کا بھی یقین نہیں ہے۔ تو اللہ تعالیٰ نے خاص طورپر ہمیں مہمیز دیتے ہوئے کہا کہ تم غور تو کرو ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ تمہاری انگلیوں کی پوروں کو ہم بنا دیں۔
سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا پروفیسر ڈاکٹر اکرم چودھری کا کہنا ہے کہ1946 میں امریکہ کے ادارے ایف بی آئی نے دس کروڑ لوگوں کے فنگر پرنٹس محفوظ کیے ۔ 1961 میں انہوں نے بیس کروڑ لوگوں کے فنگر پرنٹس محفوظ کیے۔ 1980 میں امریکہ میںفنگر پرنٹس کی بنیاد پر خود کار شناختی نظام قائم کر دیاگیا۔ ہمارے پاکستان میں بھی نادرا ہم سے فنگر پرنٹس لے کر محفوظ کر رہی ہے۔ میں کہیں بھی جاؤں ۔ فنگر پرنٹس چیک کراؤں تو میرا سارا ڈیٹا ان کے سامنے آجاتا ہے۔ یہ اصل میں مسلمانوں کی دین تھی۔ کاش ہم نے اس بارے میں کام کیا ہوتا اس کا سب سے بڑا فائدہ جرائم کی تفتیش کے بارے میں ہے۔ اگر مجرم کا کہیں ہاتھ لگ جائے آپ اس کے فنگر پرنٹس محفوظ کر لیں تو چشم زدن میں مجر م تک پہنچا جا سکتا ہے بشرطیکہ پوری آبادی کے فنگر پرنٹس آ پ کے پاس محفوظ ہوں۔ ہمیں چاہیے کہ قرآن کریم کی ان آیات پر کام کریں تو اس سے ہمارا علم آگے بڑھے گا۔
بہت سی کتابوں کے مصنف ڈاکٹر اکرم چودھری کی ایک کتاب ‘قرآن مجید ایک مسلسل معجزہ’ بزم اقبال لاہور نے بین الاقوامی معیار کے مطابق شائع کی تھی جب راقم الحروف بزم اقبال کے ڈائریکٹر تھے۔ انگریزی میں بھی یہ کتاب THE HOLY QURAN – A Continuous Miracle کے نام سے بزم اقبال کے زیر سایہ شائع ہو چکی ہے۔ ڈاکٹر صاحب قرآن پاک پر مزید تحقیق کر رہے ہیں۔قرآن مجید میں فرمایا گیا کہ خدا کے لیے آسان ہے آدمی کو موت کے بعد دوبارہ زندگی دے۔ مندرجہ ذیل آیت میں انسان کی انگلیوں کے نشانات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے:”کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی بکھری ہوئی ہڈیاں اکٹھی نہیں کریں گے، ضرور کریں گے (اور) ہم اس بات پر قادر ہیں کہ اس کی پور پور درست کریں”۔ (القیامہ:٣۔٤) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انگلیوں کے پوروں کی جانب اشارہ کیا اور اس کی اہمیت واضح کی، جس پر اس کے نزول کے وقت تو کوئی متوجہ نہ ہوا لیکن آج اس کی اہمیت سے ہم سب واقف ہیں۔
انگلیوں کے نشان کو ہم اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیںکہ آج کل جس طرح ہر طرف بارکوڈ سسٹم کا استعمال ہورہا ہے بالکل اسی طرح انسانو ں میں انگلیوں کے نشان اللہ تعالیٰ کی طرف سے بارکوڈ سسٹم ہے۔ جس طرح ہر چیز کا منفرد بار کوڈ سسٹم ہوتا ہے اور وہ کسی دوسرے بار کوڈ سسٹم سے موافقت نہیں ر کھتا ۔اسی طرح جب سے دنیا بنی ہے اور جب تک قیامت نہیں آتی ہر انسان کے انگلیوں کے نشان دوسرے انسان سے موافقت نہیں رکھیں گے، اسی لیے پولیس فورس میں مجرموں کی پہچان کیلئے فنگر پرنٹس کا طریقہ استعمال ہوتا ہے۔ مجرم لاکھ اپنا چہرہ بدل لیں لیکن وہ فنگر پرنٹ سے آسانی سے پکڑے جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ زمانے کے تغیر اور سائنسی ارتقاء کے ساتھ اسلام جیسا ترقی پسند دین ہی قدم سے قدم ملا کر چل سکتا ہے۔ یہ میرے پرور دگار کے حسن تخلیق کا ہی کرشمہ ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں کی شکل و صورت میں مماثلت ہو سکتی ہے’ عادات و اطوار میں مشابہت ممکن ہے مگر ان کے ہاتھوں کی لکیریں ایک جیسی نہیں ہو سکتیں، اس لیے دنیا بھر کے مقدمات میں فنگر پرنٹس کو تفتیش میں بنیادی حیثیت حاصل رہی۔