وجود

... loading ...

وجود

زراعت کو ترقی دیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں

بدھ 02 اگست 2023 زراعت کو ترقی دیے بغیر آگے بڑھنا ممکن نہیں

پاک فوج کے سربراہ نے گزشتہ روز ملک میں زرعی شعبے کو ترقی دے کر ملک کو خوراک میں خود کفیل بنانے کیلئے پاک فوج کے پاس موجود مہارت بروئے کار لانے کا اعلان کیاتھا،پاک فوج کے سربراہ کا یہ اعلان یقینا دل خوش کن ہے کیونکہ پورے متحدہ ہندوستان کا اناج گھر کہلانے والا ہمارا ملک آج اپنے عوام کا پیٹ بھرنے کیلئے گندم،دالیں اور خوردنی تیل دوسرے ملکوں سے درآمد کرنے پر اربوں ڈالر خرچ کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے ہمیں قرض کیلئے بار بار کشکول اٹھا کر نکلنا پڑتا ہے اور کشکول میں کچھ ڈالنے والا امداد کے ساتھ پابندیوں کی ایک پٹاری بھی ہمارے ساتھ کردیتاہے جس کی وجہ سے عوام کا خون نچوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے،ہمارے ملک میں زرعی پیداوار میں کمی کی بڑی وجوہات میں پانی کی کمی،کھادوں اور اچھے بیجوں کی عدم فراہمی اور ہمارے محکمہ آبپاشی کے افسران اور اہلکاروں کی کرپشن ہے جو بڑے زمینداروں کی زمینوں تک تو ضرورت سے اتنا زیادہ پانی فراہم کرتے ہیں کہ وہ ضائع ہونے لگتاہے لیکن نہروں کے آخری کناروں کے کسانوں کو بوائی اور ترائی کے وقت ضرورت کے مطابق پانی اس وقت تک فراہم نہیں کرتے جب تک مبینہ طورپر ان کی مٹھی گرم نہیں کی جاتی،ٹیل یعنی نہروں کے آخری کناروں کے کاشتکار وں کی اکثریت چونکہ غریب ہوتی ہے اس لئے وہ بروقت ان راشی افسران اور اہلکاروں کی مٹھی گرم کرنے کا انتظام نہیں کرپاتے جس کی وجہ سے انھیں بروقت پانی نہیں مل پاتا اس طرح ان کی فی ایکڑ پیداوار کم ہوجاتی ہے،اس پوری صورت حال کا نتیجہ ظاہر ہے کہ گلوبل ہنگر انڈیکس یعنی دنیا بھر میں بھوک یا بھوک سے متاثر ہونے والے ملکوں کے اعتبار سے دنیا کے 129 ممالک میں سے 99 ویں نمبر پر آچکاہے۔بھوک کی اس اندوہناک صورت حال کے باوجود ہمارے حکمران کسی طرح کی ایسی انقلابی زرعی اصلاحات کرنے کو تیار نہیں ہیں جس کے تحت بڑے بڑے زمینداروں کی اجارہ داری ختم کرکے زرعی شعبے میں مساوات قائم کی جاسکے اور کوآپریٹو فارمنگ کو فروغ دے کر چھوٹے زمینداروں کو بھی بہتر مواقع سے مستفید ہونے کا موقع مل سکے، کہ گلوبل ہنگر انڈیکس سے متعلق رپورٹ میں ہماری زرعی بدحالی کی بنیادی وجوہات سیاسی اور معاشی بحران کے ساتھ ساتھ عام آدمی کیلئے یکساں مواقع تک رسائی اور استطاعت نہ ہونا بتایا گیاہے۔ رپورٹ میں پاکستان 26.1 اسکور کے ساتھ 99 ویں نمبر پر ہے اور رواں برس کے ابتدائی 6 ماہ میں بھی صورتحال ابتر ہی نظر آئی ہے۔ پاکستان کا 2000 اور 2007کی رپورٹوں میں ا سکور بالترتیب 32.1 اور 36.8 تھا اور بدترین سکور 2014 میں 29.6 تھا۔ تاہم 2022 میں یہ ریکارڈ بھی ٹوٹ گیا اور پاکستان مزید نچلے نمبر پر چلا گیا۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کی رپورٹ 2022 کے مطابق تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ کم از کم بھی 2030 تک پاکستان سمیت 46 ممالک خوراک میں کمی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ، تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں اور کرونا وبا نے 2022 میں لاکھوں افراد کو خوراک کی کمی کا شکار بنا دیا۔اس رپورٹ سے ظاہرہوتاہے کہ ہماری پی ڈی ایم کی موجودہ حکومت کے دور میں زرعی محاذ پر ابتری میں اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ ہمارے حکمران اپنے مقدمات ختم کرانے اور عمران خان اور ان کے حامیوں کو دیواروں میں چنوادینے کیلئے مختلف حربے تلاش کرنے میں مصروف رہے اور انھوں نے عوامی مسائل خاص طور پر زراعت جیسے اہم شعبے کے مسائل حل کرنا تو درکنار زرعی شعبے کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے پربھی توجہ نہیں دی اور نہ ملک کی گرتی اقتصادی صورتحال پر قابو پایا سکے۔دوسری جانب موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث بے موسمی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں نے بھی پاکستان میں بدترین انسانی المیے کو جنم دیا‘ جس سے لوگوں کو جانی و مالی نقصان کے ساتھ اپنے کاروبار سے بھی ہاتھ دھونے پڑے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں ہرسو بے روزگاری کا عفریت پھیلا ہوا ہے اور رہی سہی کسر روزافزوں مہنگائی نے نکال دی ہے جس کی وجہ سے ہر گھر میں عملاً فاقوں کی نوبت آچکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام کیلئے اب دووقت کی روٹی کا حصول مشکل ترین ہو چکا ہے۔ بھوک اور ننگ جس تیزی سے ہر گھر میں ڈیرے ڈال رہی ہے اورگلوبل ہنگر ایڈیکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان بھوک سے متاثر ہونیوالے ممالک میں 99ویں نمبر پر آگیا ہے، ملک کے عالی دماغوں ماہرین اقتصادیات اور پالیسی ساز اداروں کیلئے چشم کشا ہونی چاہیے۔ ایک طرف حکمران معیشت کی بحالی کے دعوے کرتے نہیں تھکتے اور دوسری جانب عوام کو رتی برابر ریلیف نہیں دیا جارہا۔ اگر بے روزگاری اور مہنگائی پر فوری قابو نہ پایا گیا تو عالمی سطح پر پاکستان کی حالت مزید سنگین ہو سکتی ہے۔
بلاشبہ پاکستان زرعی ملک ہے اور بد قسمتی سے زراعت کو جو ترقی اور جو توجہ چاہیے تھی وہ 75سال میں اس شعبے کو نہیں دی گئی،سابق صدر ایوب خان کے دور میں ایک زرعی انقلاب ضرور آیا تھا،اور اس دور میں ملک کی فی ایکٹر زرعی پیدا وار میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا تھا ملک کے نہری نظام کو ترقی دی گئی تھی اور ملک میں ایک زرعی بہتری واضح طور پر نظر آئی تھی لیکن اس کے بعد وقت گزرتا گیا اور وقت کے ساتھ ساتھ جو اپ گریڈ کی ضرورت ہے ہو تی وہ نہیں ہوا اور ٹیکنالوجی سمیت ہم بیچوں اور کھادوں کے حوالے سے بھی باقی دنیا سے پیچھے رہتے چلے گئے،اس صورتحال میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔اگر حقیقی معنوں میں زرعی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں تو ایران میں جاکر دیکھنی چاہیے ایران نے صحیح معنوں میں زراعت کو ترقی دی ہے اور اس حوالے سے بہترین کام کیا گیا ہے،پانی کا استعمال کیسے کرنا ہے؟ کم از کم پانی کے استعمال سے زیادہ سے زیادہ پیدا وار کس طرح حاصل کرنی ہے،یہ ایران سے سیکھنا چاہیے کس زمین پر کس علاقے میں کس قسم کے باغات لگانے چاہیے،یہ بھی سیکھنا چاہیے،لیکن افسوس ہے کہ ہم نے کچھ نہیں سیکھا ہے،ہم ابھی تک اس حوالے سے ٹامک ٹو ئیاں ہی ما ر رہے ہیں اور ہمارے ملک میں زرعی زمین پر ہاؤسنگ سو سائٹیاں بنائی جارہی ہیں زرعی زمین کو تباہ کیا جا رہا ہے اور ملک کے لیے مسائل میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے۔پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے دور رس فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ہاں عموما مشکل فیصلے کرنے کے لیے جس سیاسی ول کی ضرورت ہو تی ہے اس کا مظاہرہ بھی کم ہی کیا جا تا ہے بلکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ کس منصوبے کو شروع کرنے میں کتنا کمیشن یاکک بیک حاصل کیاجاسکتاہے،تاہم حکمراں طبقے کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر آگے بڑھنا ہے تو صورتحال میں تبدیلی لا نی ہو گی اور ہر صورت میں لانی ہو گی۔ملتان میں آم کے باغات ختم کرکے ہاؤسنگ سوسائٹیاں بنائی جا رہی ہیں جو کہ پاکستان کی زراعت اور فوڈ سیکورٹی کے لیے تباہ کن صورتحال ہے ہمیں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ نئے شہر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آبادی کا پھیلاؤ مخصوص علاقے تک محدود رہے اور جگہ جگہ پر ہاؤسنگ سو سائٹیاں نہ بنیں اور ملک کی زرعی زمینوں کو تباہ نہ کریں۔ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اس کے بغیر اب مسائل حل نہیں ہوں گے۔تمام اسٹیک ہو لڈرز کو مل کر معاشی پالیسی پر اتفاق کرنا ہو گا تاکہ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ملکی پالیسیاں بھی تبدیل نہ ہو ں۔ ہمیں کئی نئے شہروں کی ضرورت تھی جو کہ ایک مخصوص علاقے میں ہوں اور آبادی کو اپنے اندر سمو لیں اور زرعی زمینیں آبادی کی وجہ سے متاثر نہ ہو ں۔جو شہر ہم نے بنا رکھے ہیں ان شہروں کو بھی ہم نے انڈسٹریل ایریا میں تبدیل کر دیا ہے،جو کہ شہروں کی تباہی کا باعث بنا،زراعت کی ترقی کے لیے بروقت بجلی پانی اور بیچ چاہیے ہوتا ہے جو کہ ہماری حکومتیں مہیا کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔بلوچستان رقبے کے لحاذ سے پاکستان کا بڑا صوبہ ہے اور بلوچستان پر توجہ دے کر ملک کے زرعی رقبے میں بے شمار زرعی زمینیں شامل کی جاسکتی ہیں۔پاکستان کو آگے بڑھانے کے لیے بلوچستا ن کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہو گا۔بلوچستان کی زمین اعلیٰ معیار کی زمین ہے،چاہے مشرقی بلوچستان میں جا ئیں یا مغربی بلوچستان میں،ہر جگہ بہترین زمین دستیاب ہے جو کہ نہ صرف بلوچستان بلکہ ملکی معیشت کی تقدیر بدلنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے،لیکن کاشت کار کو جوسہولیتیں دستیاب ہونی چاہیے وہ نہیں ہو تی ہیں جس کے باعث کاشت نہیں ہو پا تی ہے۔اگر پاکستان کو ایک زرعی طور پر مستحکم ملک بنانا ہے تو ہمیں اس حوالے سے پاکستان میں صنعتیں بھی وہی لگانی ہو ں گی جو کہ زمین برداشت کرسکتی ہوں۔غلط پالیسیز اور غلط صنعتیں لگانے سے بھی زراعت کی تباہی ہو ئی ہے،پنجاب کی زمینوں پر چاول،کپاس اور گندم کی فصلوں کے لیے زیادہ ساز گار ہیں لیکن پنجاب کی زمینوں پر پیدا وار گنے کی جارہی ہے اور گنے کی فصل پانی کی بھی دیگر فصلوں سے کہیں زیادہ طلب گار ہو تی ہے،اس معاملے کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تر جیحات کا درست تعاون کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔پاکستان آگے اسی وقت بڑھے گا،جب زراعت آگے بڑھے گی،اگر ملائیشیا،تھائی لینڈ،انڈونیشیا زیادہ بارشوں میں کاشتکاری کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ کسانوں کے لیے گرین ڈیزل،سستی بجلی، سولر ٹیوب ویل، ڈرپ اریگیشن، آ ئی ڈراپ ایریگیشن اورا سپرنگ کلر اریگیشن سسٹم کا انتظام کروایاجائے۔ہمیں پالیسی سازی میں ایک تسلسل اور استحکام لانے کی ضرورت ہے۔بہر حال یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف کو زراعت کی بہتری کا خیال آیا ہے اور اس حوالے سے اب ایک نئی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور بہتری کے لیے کا وشیں شروع کی گئیں ہیں۔زراعت کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے،جس جس علاقے میں زراعت ہے وہاں پر سرمایہ کاری کرنی ہو گی،عوام کو صحت اور تعلیم کی بہترین سہولیات فراہم کرنا وقت کی ضرورت ہے تا کہ لوگ بہتر انداز سے زرعی پیدا وار میں اضافے کے لیے کام کر سکیں اور شہروں کی جانب سے لوگوں کی نقل مکانی کا دباؤ بھی کم کیا جاسکے۔ اگر ہم اپنے مستقبل کو تابناک بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں زراعت کی جانب توجہ دینی ہوگی جتنی بھی تو جہ دیں وہ کم ہو گی اور اس سلسلے میں ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اگر ملک کو آگے بڑھانا ہے تو مشکل فیصلے کرنا ہوں گے،صرف ووٹ حاصل کرنے کیلئے بڑے زمینداروں کی خوشنودی حاصل کرنے کی حکمت عملی کو خیرباد کہناہوگا۔اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر