... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
عوام کی پریشانیوں سے بے نیاز وزیر اعظم فی الحال ‘انڈیا ‘ سے پریشان ہیں۔ وہ ایک دکھیاری بیوہ کی مانند پانی پی پی کرحزب اختلاف کو کوس رہے ہیں کیونکہ خود تو منی پور جانے کی ہمت نہ کرسکے مگر حزب اختلاف کا 21 رکنی وفد وہاں پہنچ گیا۔وزیر اعظم کی پریشانی میں اضافہ کرنے کے لیے راہل گاندھی نے بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر تنقید کرتے ہوئے یوتھ کانگریس کے قومی کنونشن میں کہہ دیا کہ منی پور جلے ، ملک ٹوٹے ، تشدد پھیلے ، ان سب سے انہیں (بی جے پی، آرایس ایس) مطلب نہیں ہے کیونکہ انہیں صرف اقتدار سے محبت ہے اور وہ اس کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ اان کو ملک کے دکھ درد سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔راہل گاندھی کے مطابق ”ملک بی جے پی، آر ایس ایس اور کانگریس کے نظریئے میں تقسیم ہوگیا ہے ۔ کانگریس نے بھائی چارے کو بڑھاوا دینے کی لڑائی لڑی ہے جبکہ بی جے پی اورآر ایس ایس نے اقتدار کیلئے ملک کو تقسیم کرنے کا کام کیا ہے ”۔ راہل کا دعویٰ ہے کہ کانگریس کا نظریہ آئین کی حفاظت، ملک کو متحد کرنے اور سماجی ناہمواری کے خلاف لڑنے کا ہے ، وہیں بی جے پی اور آر ایس ایس چاہتی ہیں کہ چنندہ لوگوں کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور اور تمام دولت مرکوز رہے ۔ یہ اشارہ مودی کے دورکی خصوصیت ‘ ہم دو اور ہمارے دو ‘کی جانب تھا ۔
راہل گاندھی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ مودی جانتے ہیں ان کے نظریئے نے منی پور کو جلایا ہے ۔ اپنے منی پور دورے کے بعد راہل گاندھی نے کہا تھا کہ یہ آگ دیگر شمال مشرقی صوبوں کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔ یہ اندیشہ سچ ثابت ہوچکا ہے ۔ مودی انتظامیہ نے جس ویڈیو کو غالیچہ کے نیچے چھپا دیا تھا اس کے باہر آتے ہی میگھالیہ ، میزورم ، تریپورہ اور ناگالینڈ کے اندر بھی احتجاج شروع ہوچکا ہے ۔ شمال مشرقی صوبوں کے اندر میزورم میں زبردست مظاہرہ ہوچکا ہے اور میگھالیہ سے سرکاری جہازوں میں بھر کے میتئی لوگوں کو منی پور لانے کی نوبت آگئی ہے ۔ ایسے میں تریپورہ کے سابق گورنر اور سنگھ کے مفکر و دانشور کا ایک ٦ سال پرانا ٹویٹ یاد آتا ہے ۔ اس میں انہوں نے جن سنگھ کے بانی شیاما پرساد مکرجی کے حوالے سے لکھا تھا کہ ”ہندو مسلم مسئلہ خانہ جنگی کے بغیر حل نہیں ہوگا ”۔ اس پر ہنگامہ ہوگیا کہ آئینی ذمہ داری پر بیٹھا ہوا ایک شخص سیویل وار کی ترغیب دے رہا ہے ۔ اس اعتراض کے جواب میں رائے نے لکھا یہ بات 10/1/1946 کو شیاما پرساد مکرجی نے اپنی ڈائری میں لکھی تھی۔ سترّ سال قبل کہی جانے والی یہ بات صد فیصد درست ثابت ہوئی ۔ اس نوٹ کے ٧ ماہ بعد محمد علی جناح نے خانہ جنگی شروع کی اور اس میں فتح حاصل کرکے پاکستان بنالیا۔
تتھا گت رائے اور شیاما پرساد مکرجی مسائل کے حل کی خاطر جس خانہ جنگی کی وکالت کرتے ہیں اسے بی جے پی نے اپنی حماقت سے شمال مشرقی صوبوں میں شروع کروادی ہے ۔ منی پور کے اندر تھوربونگ میں ویڈیو کا پرتشدد ردعمل سامنے آرہا ہے ۔ چشم دید گواہوں کے مطابق پچھلے ٦ دنوں سے کوکی قبائل کی جانب سے لگاتا ر نہ صرف گولی باری بلکہ موٹار حملے بھی ہورہے ہیں۔ تھوربونگ میں آسام رائفلز کے کیمپ سے 30میٹر دور 3 گھروں کو جلادیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا میتئی لوگوں راحتی کیمپ میں منتقل ہونا پڑا۔ منی پور کے اندر فی الحال خوب اچھل اچھل کر بولنے والے آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنتا بسوا سرما کو چاہیے کہ منی پور جاکر اپنی رائفلز کا حوصلہ بڑھائیں لیکن یہ ان سے نہیں ہوگا۔اس معاملے میں مودی کی مانند وہ بھی گونگے بہرے ہوچکے ہیں۔ کوکیوں کے مورٹار حملے میں میتئی نوجوان لونگ جام ناوچی ہلاک ہوگیا۔ گاوں کے لوگوں کو توقع تھی ایک دودن میں فائرنگ بند ہوجائے گی مگر وہ تو مورٹار حملوں میں بدل گئی اس لیے انہیں چاروناچار انہیں راحتی کیمپوں میں پناہ لینی پڑی ۔ ویسے راحتی کیمپ بھی محفوظ نہیں ہیں ۔
دینک بھاسکر کے نامہ نگار نے اپنی آنکھوں سے چھت پنکھے میں اٹکا ہوا مورٹار شیل دیکھا۔گاوں میں موجود حفاظتی دستے حملہ آوروں کو روکنے کے بجائے باشندوں کو محفوظ مقامات پہنچانے کا کام کررہے ہیں ۔پہلے جو حملے راتوں میں ہوتے تھے اب دن دہاڑے ہونے لگے ہیں اور راحتی کیمپ سے محض 20 میٹر کے فاصلے تک پہنچ گئے تو وہاں موجود لوگوں کو دوسرے کیمپ میں منتقل ہوناپڑا ۔ بھاسکر کے مطابق کوکی حملے اب ان کے اپنے علاقہ سے نکل کر بفر گاوں پواورگاکچاو دکھائی اور ٹیرا کھونگاشانبی تک پہنچ گئے ۔ اس دوران اخبار کا نامہ نگار بھی مورٹار حملے کی زد میں آگیا۔ آگ زنی کے ساتھ فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جو کئی گھنٹوں تک چلتی ہے ۔ بشنو پور کے ایڈیشنل ایس پی ستیم نے اعتراف کیا کہ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد حملوں میں اضافہ سے مشکلات بڑھی ہیں ۔ عوام کو تحفظ فراہم کرنے والی پولیس بھی غیر محفوظ ہوگئی ہے ۔ ہائی کول کی جانب سے پولیس تھانے پر فائرنگ ہوچکی ہے اور دیگر چار پولیس اسٹیشن میں بم بلاسٹ ہوچکے ہیں یعنی سبق سکھانے والے وزیر داخلہ کو سبق سکھایا جا رہاہے ۔
جائے واردات پر موجود روزنامہ بھاسکر کے نامہ نگار نے بچشمِ خود اے کے سیریز کے رائفلز ۔ تھری ناتٹ تھری ، ایس ایک آر ، جی ٣، جی ٢ جیسے غیر ملکی اسلحہ کے استعمال کا مشاہدہ کیا ۔ ان ہتھیاروں کا استعمال کوکی اور میتئی دونوں کررہے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر یہ اس بات کا چرچا ہے کہ کوکی جنگجووں کو چین اسلحہ فراہم کررہا ہے مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ میتئی کے پاس وہ کہاں سے آتا ہے ؟ ایڈیشنل ایس پی امرجیت کے مطابق ان حملوں میں استعمال ہونے والے مورٹا ر گاوں والوں نے بنائے ہیں اور ان میں چھتوں و دیواروں کو پھاڑ کر دھماکہ کرنے کی صلاحیت ہے ۔ حملہ آوروں کے پاس نائٹ ویزن بائنوکولر (دوربین) بھی دیکھی گئی جو صرف خودکار ہتھیار میں لگائے جاسکتے ہیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ کوکی پہاڑوں سے وادی میں بنے میتئی گھروں کی نگرانی کرتے ہیں اور میتئی اپنے گھروں سے پہاڑوں پر کوکی کیمپوں پر نظر بنائے رکھتے ہیں۔ یہ خانہ جنگی کی کیفیت جموں کشمیر سے یکسر مختلف ہے ۔ وہاں جنگجو اور حفاظتی دستے ایک دوسرے سے برسرِ پیکار ہیں جبکہ منی پور میں عوام کو ایک دوسرے سے لڑانے کا کام بیرین سنگھ اور بی جے پی نے تشدد کی آگ میں گھی ڈال کرکردیا۔
مودی جی جانتے ہیں کہ یہ ان کے نظریہ کاکیا دھرا ہے اس لیے وہ سمرتی ایرانی کو آگے کرکے خودایوان سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ سمرتی ایرانی کا یہ حال ہے سوالات کے وقفہ میں جب کانگریس کے رکن پارلیمان امی یاگنیک نے سوال کیا کہ وہ اور ان کی خاتون ساتھی ارکان کب بولیں گی؟ تو وزیر موصوف گیس سلنڈر کی مانند پھٹ پڑیں مگر خوش قسمتی سے ایک بڑا دھماکہ ٹل گیا ۔ انہوں نے نہ صرف کانگریس پر حقائق چھپانے کا بلکہ راہل گاندھی پر تشدد کی آگ بھڑکانے کا الزام تھوپ دیا۔ مرکزی وزیر بولیں کہ نہ صرف خواتین کی وزیر بلکہ ارکان پارلیمان کو بھی بہار ، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں خواتین پر ہونے والے مظالم پر بحث کرنی چاہیے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چھتیس گڑھ اور راجستھان کے بالکل درمیان میں مدھیہ پردیش ہے ۔ وہاں پہلے ایک قبائلی پر پیشاب کیا گیا اور پھر فضلہ کھانے پر مجبور کیا گیا لیکن زعفرانی عینک سے ایرانی کو وہ واقعات نظر نہیں آتے ۔ خواتین پر مظالم کے معاملے میں اتر پردیش اول نمبر پر ہے جہاں ہاتھرس جیسا بڑا سانحہ ہوگیا وہ بھی سمرتی کو دکھائی نہیں دیا ۔
بہار میں بھی اگر نتیش کمار الگ نہ ہوتے تو وہاں بھی سب چنگا ہی تھا ۔ بہار کا حوالہ دینے والی سمرتی ایرانی کو شور مچانے سے قبل بی جے پی کے سابق ترجمان اور ریاستی ایگزیکٹیو کمیٹی رکن ونود شرما کا پارٹی سے استعفیٰ پڑھ لینا چاہیے تھا ۔ منی پور تشدد کے سبب پارٹی کے سبھی عہدوں سے مستعفیٰ ہونے والے ونود شرما نے پٹنہ کے چوراہوں پرپوسٹرسب لگوادیئے ہیں جن میں منی پور کے اندر پیدا شدہ حالات کی ذمہ داری وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ پر ڈال کر ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیاہے ۔شرما نے اپنے پوسٹر میں مشہور ہندی شاعر رام دھاری سنگھ دنکر کا یہ شعر لکھا ہے ۔ ‘سمر شیش ہے ، نہیں پاپ کا بھاگی کیول ویا دھ… جو تٹست ہے ، سمئے لکھے گا ان کا بھی اَپرادھ’۔ اس کے معنیٰ ہیں” جنگ ابھی باقی ہے ۔ اس لیے گناہ صرف شکاری کا نہیں بلکہ ایسے میں غیر جانبدار رہنے والوں کا جرم بھی مورخ لکھے گا”۔
ونود شرما نے اپنے ضمیر کی آواز پر مودی حکومت کے خلاف یہ نعرہ لکھ کر کہ ‘بھارت کی بیٹیاں کرے چیتکار(خبردار)، شرم کرو بیٹی بچاؤ کا نعرہ دینے والی مودی سرکار’ یہ اعلان کردیا ہے کہ وہ اس جبرو ظلم پر نہ خاموش رہیں گے اور نہ سمرتی ایرانی کی مانند اس کا جواز فراہم کرنے کی ناکام کوشش کریں گے ۔ انہوں پارٹی کے صدر جے پی نڈا کو لکھا کہ منی پور میں بیٹیوں کو مکمل برہنہ کر بھیڑ میں سڑکوں پر گھمائے جانے کے واقعہ نے پوری دنیا میں ہندوستان کو شرمسار کیا ہے ۔ اس کے لیے ذمہ دار قیادت کے تحت کام کرتے ہوئے انہیں شرمندگی محسوس ہو رہی ہے ۔سمرتی ایرانی کی بوکھلاہٹ پر شیوسینا کی رکن پارلیمان پرینکا چترویدی نے ٹھیک ہی کہا کہ اس سے ان کے اندر بھری نفرت کا اظہار بھی ہوتا ہے ۔ کانگریس کی ترجمان سپریہ شرینیت کے سمرتی ایرانی کے جواب میں ان تمام خواتین پر ہونے والے مظالم کرکے بتا دیا کہ کس طرح ان پر خاموشی اختیار کرکے انہوں نے اپنے فرض منصبی کو ادا کرنے میں کوتاہی برتی ہے ۔ بے ہنگم شور شرابے کے اس منہ توڑ جواب کو سن کر ایرانی کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیے ۔ سمرتی ایرانی کی حالت پر بیخود بدایونی کا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے
کبھی حیانہیں آئی فقط غرور آیا
بس ان کے کام میں سوطرح سے فتور آیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔