... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مصنوعی ذہانت کا شاہکار ایک ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم کیسا رہے گا؟ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ ممالک اپنی ضرورتوں کے حساب سے مصنوعی ذہانت کو حرکت دے رہے ہیں۔ کہیں ڈیجیٹل اوتار بن رہے ہیں۔ کہیں ڈیجیٹل اینکرز پیدا کیے جارہے ہیں۔مگر ہماری ضرورت سیاسی نظام پر کامل گرفت کی ہے۔ کنٹرول کی نفسیات مختلف سیاسی جماعتوں سے لے کر اسٹیبشلمنٹ تک سب پر حاوی ہے۔
ایک مصنوعی دنیا کے عالمی دھوکے میں سائنس کی حیران کن ایجادات سے انسان کی لامرکزیت کو شعوری یا غیر شعوری طور پر مستحکم کیا جا رہا ہے۔ یہ کام کوئی اور نہیں انسان ہی کر رہے ہیں۔مٹھی بھر لوگ دنیا کو ایک عالمی گاؤں کے دھوکے میں رکھتے ہوئے کنٹرول کی نفسیات سے آٹھ ارب آبادی کا مستقبل اپنے تئیں طے کررہے ہیں۔ بنیادی تحریک یہی ہے کہ آٹھ ارب انسان کیسے کنٹرول کیے جائیں؟ زیادہ خطرناک دماغ یہ بھی سوچ رہے ہیں کہ ایک کنٹرولڈ دنیا کی آبادی کتنی ہو؟ اور اُسے کس طرح رہنا چاہئے؟ یہ سوچ رکھنے والے دنیا کی مطلوب سے زائد آباد ی کو مختلف حیاتیاتی، کیمیائی اور سائنسی تجربات کے ذریعے فنا کے گھاٹ اُتارنے کو درست سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی لوگ دنیا میں جنگوں کی معیشت کو بھی زندہ رکھنے کے قائل ہیں۔ یہ سوچ عالمی سطح پر قومی ریاستوں میں انڈیل دی جائے تو پھر ہم وطن کسی جذباتی، معاشرتی ، نفسیاتی اور تہذیبی تعلق سے کٹ کر محض ایک ضرورت کی مقدار سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہی ضرورت مختلف تجربے کراتی ہے۔ یہاں تک کہ نظریات کو بھی تجربات کے تیروں پر رکھ لیا جاتا ہے۔ ایسے بدبخت ذہنوں سے مذہب بھی محفوظ نہیں رہتا۔ ان کے تجربات کی بھٹی کا ایندھن خود حضرت انسان بھی بن کر رہ جاتا ہے۔ ہم بنیادی انسانی حقوق کے صرف شور میں ایسے ہی غیر انسانی دور میں جی رہے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ نظریات میں زیادہ سے زیادہ استحصال کا عہد۔یہ عہد کنٹرول اور گرفت کے اعتبار سے ماضی کے تمام ادوار سے زیادہ خطرناک ہے۔ جس میں صرف انسانوں کو ہی نہیں اُن کے خیالات تک کو گرفت میں رکھنے کی سفاکانہ کوششیں جاری ہیں۔ وطنِ عزیز کوئی مختلف ملک نہیں۔
آج کل مملکت خداداد میں صرف چال چلن نہیں بلکہ تیوروں اور ارادوں پر بھی کڑی نگرانی ہے۔ پاکستان انتخابات کے آئینی مطالبے کے نازک عرصے میں ہے۔ مگر یہاں انتخابات تو کجا نگراں حکومت کا معاملہ بھی تنازعات میں اُلجھ رہا ہے۔ تمام ارباب ِ تنازعات کنٹرول کی نفسیات سے ایک دوسرے کے ساتھ کھینچا تانی میں مصروف ہیں۔ عمران خان تو اب ذرا دور پرے کا معاملہ ہے۔مگر نگراں وزیراعظم کے قضیے میں خود پی ڈی ایم کی متحدہ حکومت اور اس سے ”بہترین” تعلقات رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان سب کچھ ہموار نہیں جارہا۔ حکومت کی دو بڑی جماعتیںیعنی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی میں اس حوالے سے اختلافات اُبھر رہے ہیں۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمان بھی شکوہ سنج دکھائی دیتے ہیں۔ کوئی اور نہیں خود پیپلزپارٹی اور نون لیگ کے ذرائع خاموشی سے یہ اشارے دے رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ انتخابات کا التواء چاہتی ہے۔ دونوں جماعتوں کے قائدین اس میں تاخیر گوارا کرنے کو تیار نہیں۔ یوں کنٹرول کی نفسیات اس معاملے پر بھی سایہ فگن ہے۔ اس تناظر میں سب سے اہم مسئلہ نگراں وزیراعظم کے تعین کا ہے۔ پیپلزپارٹی اور نون لیگ دیگر انتخابی امور اور بعد از انتخابات حکومت کی تشکیل اور حصہ داری پر اگرچہ ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ مگر انتخابات میںتاخیر نہ کرنے اور نگراں وزیراعظم کے تعین میں اسٹیبلشمنٹ کی رائے کے خلاف متفق ہیں۔یہ اختلاف واتفاق کسی بھی اُصول یا نظریے پر نہیں بلکہ کنٹرول کی نفسیات کے باعث ہے۔ اگرچہ اس کو اخفاء رکھنے کے لیے ڈھنڈورا مختلف اُصولوں اور نظریات کا ہی پیٹا جاتا ہے۔ پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل جماعتیں بالعموم اور نون لیگ اور پی پی بالخصوص ایسے نگراں وزیراعظم کا تعین کرنا چاہتی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آئے بغیر وقت پر انتخابات کرا دے۔ چنانچہ یہ جماعتیں کسی سیاسی شخصیت یا ایسے ریٹائرڈ جج کی طرف مائل ہیں جو انتخابات کی تاخیر کے کسی ہتھکنڈے کا شکار نہ ہواور اُن کے مرہون منت ہو۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے مخصوص حالات میںایک ایسے وزیراعظم پر اِ صرار کر رہی ہے جو ٹیکنو کریٹ یا بیورو کریٹ کی جون رکھتا ہو۔جسے کنٹرول کرنا اُن کے لیے آسان ہو۔ ان حالات میں نگراں وزیراعظم کا معاملہ اندرون ِ خانہ ایک نئی قسم کی کھینچا تانی کی مشق بنا ہوا ہے۔ معلوم انسانی تاریخ کا تجربہ یہ ہے کہ انسان کبھی کسی کے قابو میں نہیں رہ سکتے۔ مسندِ اقتدار پر متمکن یا اس کی خواہش مند شخصیات کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کو دھوکا دینے پر آمادہ ہو جاتی ہیں۔ موجودہ حالات میں سیاسی شخصیات سیاسی جماعتوں کو اور ٹیکنوکریٹس وزیراعظم بن کر اسٹیبشلمنٹ کو بھی دھوکا دے سکتے ہیں۔ یہ معاملہ اُن حالات اور مواقع پر منحصر ہوتا ہے جو ان کے ارد گرد پیدا ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ کسی بھی انسان کو نگراں وزیراعظم مقرر کردیا جائے ، دھوکے کا اندیشہ موجود رہے گا۔ پھر کیوں نہ ہم اس ضرورت کی خاطرمصنوعی ذہانت کو حرکت دیں اور مصنوعی ذہانت کا شاہکار ایک ایسا وزیراعظم تخلیق کریں جو ڈیجیٹل ہو۔ اس سے کم از کم کسی دھوکے کا اندیشہ تو نہ رہے گا۔ ڈیجیٹل اوتار، ڈیجیٹل اینکر اور ڈیجیٹل محافظ کے زمانے میں ایک ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم کیوں نہیں؟
زیادہ دن نہیں گزرے ، ایک بھارتی میڈیا گروپ انڈیا ٹوڈے نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس ٹیکنالوجی (مصنوعی ذہانت) پر مبنی پہلی ”اینکر ثنائ” کو متعارف کروایا۔پھر بھارت کے کچھ اور میڈیا گروپس سے بھی یہ خبریں آنے لگیں۔ انڈیا ٹوڈے کی وائس چیئرپرسن کالی پوری نے بتایا کہ اے آئی اینکر کے آنے سے کام میں کوئی خلل نہیں پڑے گا البتہ وہ خوبصورت ہونے کے علاوہ کبھی تھکتی بھی نہیں جبکہ یہ متعدد زبانوں میں بولنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے ۔ ابھی یہ خبر گردش میں تھی کہ پاکستان کے مقامی نشریاتی چینل کی جانب سے ملکی تاریخ میں پہلی بار آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) یعنی مصنوعی ذہانت سے لیس 2 نیوز اینکرز متعارف کرنے کے ساتھ دنیا کا پہلا اے آئی ٹاک شو کا بھی آغاز کردیا گیا۔ یہ ڈیجیٹل اینکرز تھکتے نہیں، مسلسل اور دنیا کی تمام زبانوں میں بول سکتے ہیں۔ڈیجیٹل اینکرز کے اس تجربے سے چند ہفتے قبل ہی جرمنی کے ایک گرجا گھر سے عجیب و غریب خبر آئی۔ جہاں مصنوعی ذہانت نے چرچ میںوعظ دیا اور اس میں سینکڑوں افراد نے شرکت بھی کی۔ عبادت میں چیٹ جی پی ٹی کی طرف سے لکھے گئے خطبات دینے والے ورچوئل اوتار نے شرکت کی ۔ ڈیجیٹل اوتار کی جانب سے عبادت کرانے کے اس تجربے کے بعد اب یہ ناممکن نہیں رہا کہ کسی بھی ضرورت کے لیے مصنوعی ذہانت سے ایک ڈیجیٹل ہَیولا تیار کر لیا جائے۔ اگر انسان عبادت کے لیے کسی ڈیجیٹل اوتار کو مان سکتے ہیں تو پھر چند ماہ کے عبوری انتظام کے لیے کسی ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم کو کیوں نہیں؟
ایک ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم سے کیا فائدے ہیں ؟ اس کو ہم نصاب کا سوال بھی بنا سکتے ہیں۔ کسی بھی ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ دھوکا دے سکے۔ چنانچہ کسی سیاسی بندوبست پر گرفت رکھنے کا مسئلہ اس ڈیجیٹل وزیراعظم کے تقرر کے بعد باقی ہی نہیں رہتا۔اگر آپ بدعنوانیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو کرپشن کا کوئی امکان باقی نہیںرہ جاتا۔ایک ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم کو سیاسی طور پر کسی حمایت یامخالفت کی بھی پروا نہیں ہوگی۔ چنانچہ کسی دباؤ کا سوال ہی پید انہیں ہوتا۔درحقیقت ایک ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم ہی مکمل تابعداری کے ساتھ طے شدہ کردار ادا کر سکتا ہے۔اس کے علاوہ انسانی وزیراعظم کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ کسی ایک کے ساتھ اپنی وفاداری کو دائم استوار رکھ سکے۔ دنیا اپنی ضرورتوں کے حساب سے مختلف تجربات کر رہی ہے۔ یونیورسٹی آف ہارورڈ نے (Ai) کو پروفیسر کے طور پر رکھا،جو مصنوعی ذہانت کے طلباء کو اگلے سمسٹر کی تیاری کرائے گا۔ آپ ہنسی ضبط کریں ۔ ہاورڈ کے ڈیجیٹل پروفیسر، بھارت اور پاکستان کے ڈیجیٹل نیوز کاسٹرز اور جرمنی کے ورچوئل اوتار یہ باور کرارہے ہیں کہ ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم کا تجربہ بھی کچھ اتنا ناممکن نہیں۔ پاکستان کی ضرورتوں کے حساب سے یہ تمام جھنجھٹوں سے مستقل جان چھڑانے کا ایک یقینی نسخہ ہے۔ اگر چہ اس میں کچھ مشکلات ہیں۔ جرمنی میں عبادت کرنے والے شرکاء نے ورچوئل اوتار کے متعلق کہا کہ اس میں کوئی جان اور روح نہیں تھی۔ غور کریں تو یہ نگراں وزیراعظم کے لیے ہی نہیں مستقل وزیراعظم کے لیے بھی ہماری مستقل ضرورت ہے کہ اس میں جان اور روح دونوں ہی نہ ہو۔ یوں ڈیجیٹل اوتار کے لیے جو کمی ہے وہ ہماری کمی دور کردینے والی کمی ہے۔ البتہ ہمارے ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم کے لیے ایک مسئلہ ضرور ہوگا۔ گرفت میں رکھنے کی نفسیات خود کو اپنی گرفت میں بھی نہیں رہنے دیتی۔ انسان اپنا آپا کھو دیتا ہے، خود کے ہاتھوں خود ہی بے قابو ہو جاتا ہے۔ طاقت کا پہلا حملہ طاقت ور پر اسی طرح ہوتا ہے کہ وہ اپنے دشمن سے زیادہ خود اپنے ہاتھوں ہی خود کو کمزور کرنے لگتا ہے۔ایسی صورت میں ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم کا کنٹرول کسی ایسے ہاتھوں میںچلا گیا تو پھر کیا قیامتیں ہونگیں، اس کا اندازا لگانا دشوار نہیں۔ مگر آج کل ہم جن حالات میں جی رہے ہیں تو ایک بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ایک بے قابو شخص کے ہاتھ کے قابو میں رہنے والاڈیجیٹل وزیراعظم پھر بھی عمران خان سے زیادہ تو خطرناک ہرگز نہیں ہوگا، کیوں؟ پھر کیاہو جائے ایک ڈیجیٹل نگراں وزیراعظم؟؟؟
٭٭٭