... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
حزب اقتدار کو شکایت ہے کہ منی پور کے بہانے اپوزیشن پارٹیاں ایوان پارلیمان کے اجلاس میں رکاوٹ ڈالتی ہیں حالانکہ سیشن کے دوران پر دھامن منتری پر پرچار منتری ہونے کا دورہ پڑ جانے سے وہ خودباہرچلے جاتے ہیں۔ ایوان پارلیمان میں منی پور پر بیان دینے کے بجائے وزیر اعظم خود راجستھان کے دورے پر نکل گئے اور اپنے دست راست وزیر داخلہ کو مدھیہ پردیش بھیج دیا اس لیے کہ ان دونوں صوبوں میں بہت جلد انتخابات ہونے والے ہیں۔ وزیر داخلہ کا چونکہ خیر خالص سیاسی دورہ تھا اس لیے انہوں نے رات تقریباً آٹھ بجے راجدھانی بھوپال پہنچتے ہی پارٹی کی ریاستی اکائی کے سینئر لیڈروں کے ساتھ دیر رات تک میٹنگ کی اور آئندہ اسمبلی انتخابات کی حکمت عملی کی تیاریوں کے تعلق سے غور و خوض اور تبادلہ خیال کیا۔ اس نشست میں انتخابات سے قبل بننے والی کمیٹیوں کی تشکیل سے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔کرناٹک کی شکست کے بعد امیت شاہ اسمبلی انتخاباتنکے حوالے سے بہت سنجیدہ ہوگئے ہیں بلکہ ان پر ایک جنون سوار ہے ا س لیے مسلسل بھوپال کا دورہ کر رہے ہیں۔ تقریباً ایک ہفتہ قبل بھی وہ مختصر دورے پر آئے تھے اور انہیں امور پر بات چیت ہوئی تھی مگر کیا کریں دل مانگے مور ، یہ مور اردو والا نہیں بلکہ انگریزی کا ہے ۔
وزیر اعظم کا بھی’ دل ہے کہ مانتا نہیں’ ، اس لیے ایوان پارلیمان اجلاس چھوڑ کر سیکر راجستھا ن جا پہنچے ۔ ان کا یہ سرکاری دورہ تھا مگر وہاں بھی ایک تنازع کھڑا ہوگیا ۔ وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ پروگرام میں جو تین منٹ ان کے لیے رکھے گئے تھے اسے وزیر اعظم کے دفتر نے کاٹ دئیے اس لیے وہ مودی جی کا استقبال نہیں کرسکیں گے ۔ اس پر وزیر اعظم کے دفتر نے صفائی دی کہ پروٹوکول کے مطابق ان کو پروگرام میں باقاعدہ مدعو کیا گیا تھا اور تقریر کا بھی وقت مقرر تھا لیکن موصوف کے دفتر نے کہا کہ وہ شریک نہیں ہوسکیں گے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے پچھلے دورے کے دوران اور ہمیشہ ان (گہلوت) کو مدعو کیا گیا ہے اور انہوں نے پروگراموں میں شرکت بھی کی تھی۔اس پروگرام میں بھی ان کا خیر مقدم ہے کیونکہ اس ترقیاتی کام کے کتبے پر بھی ان کا نام موجود ہے ۔ا س کے بعد گزارش کی گئی کہ اگر انہیں حال ہی میں زخمی ہونے کے باوجود آنے میں کوئی جسمانی تکلیف نہ ہو تو ان کی شرکت گراں قدر ہوگی۔
اس منافقانہ لیپا پوتی سے قطع نظر وزیر اعظم نے کسانوں کے فلاح بہبود کی خاطر کیے جانے والے سرکاری اقدامات کااحسان جتاتے ہوئے کہا کہ کیمیکلز اور فرٹیلائزر کی وزارت کے مختلف اقدامات کا زراعت کو فروغ دینے ، کسانوں کو بااختیار بنانے اور زرعی شعبے کی پائیدار ترقی کو یقینی بنانے کے لیے ان کی حکومت پر عزم ہے ۔انہوں نے بتایا کہ زراعت اوربہبودِ کسان کی وزارت زرعی پیداوار کو بہتر بنانے ، کسانوں کی آمدنی بڑھانے اور ملک کے لئے خوراک کو یقینی بنانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے ۔یہاں تک تو ٹھیک تھا مگرآگے مودی جی نے دعویٰ کردیا کہ ‘لال ڈائری’ میں موجود راز آئندہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو برباد کر دیں گے اور جب اس کے صفحات کھلیں گے تو راجستھان حکومت کی مدت کار ختم ہوجائے گی۔اس غیر ضروری جملے نے وزیراعلیٰ اشوک گہلوت کو وزیر اعظم پر تنقید کا نادر موقع عطا کردیا ۔ وہ بولے پی ایم کو ریڈ ڈائری کے بجائے لال ٹماٹر اور لال سلنڈر پر بات کرنی چاہیے ۔ اس طرح نہلے پر دہلہ مار کر وزیر اعلیٰ نے مودی جی کو چت کردیا جن کی حالت کھایا پیا کچھ نہیں گلاس پھوڑا بارہ آنہ کی مصداق ہوگئی۔
مودی جی دنیا بھر کے غیر ضروری موضوعات پر بہت کچھ بولتے مگر منی پور کی بابت نہیں بولتے ۔ اس معاملے میں وزیر اعظم کا کم سے کم قصور خاموش رہ کر جرم میں شامل ہوناہے ۔ جیسا کہ ‘ دی شیلانگ ٹائمز’ کی ایڈیٹر پیٹریسیا مُکم نے کہا کہ ظالموں کو وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کی پشت پناہی حاصل ہے اور وزیر اعظم اپنے وزیر اعلیٰ کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہی کرنے والے وزیر اعلیٰ کی پشت پناہی تشدد کی بلا واسطہ حمایت ہے ۔ مو نی بابا کو تو برہنہ پریڈ کی ویڈیوکے بعد سپریم کورٹ کی مداخلت نے بولنے پر مجبور کردیا ورنہ وہ ابھی تک خاموش ہی رہتے ۔ ایوان میں اور لال قلعہ کی فصیل سے ڈیڑھ دو گھنٹہ بے تکان بولنے والا وزیر اعظم منی پور پر تینتیس سیکنڈ سے زیادہ نہیں بول پایا۔ وزیر اعظم نے چونچ کھولی بھی تو چھتیس گڑھ اور راجستھا ن کا ذکر کرکے اپنی گندی سیاست کھیل گئے ۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے 28 جولائی تک کا وقت دے کر مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے جواب طلب کیا تھا۔ عدالت کے ذریعہ سرکاری کارروائی سے متعلق استفسار پر کیس کی سماعت سے ایک دن پہلے مرکزی حکومت نے ‘ مرتا کیا نہ کرتا’ کی مصداق لنگڑا لولا حلف نامہ داخل کردیا۔
مرکزی حکومت نے عدالت کو بتایا کہ ریاستی حکومت کی رضامندی سے اس قضیہ کی تحقیقات سی بی آئی کو منتقل کردی گئی ہے ۔ اس طرح اپنے حلف نامہ سے وہ خودجال میں پھنس گئی کیونکہ صوبائی پولیس کے بجائے سی بی آئی جیسی مرکزی ایجنسی سے تفتیش اس وقت کرائی جاتی ہے جب عوام کا ریاستی حکومت کے اوپر سے اعتماد اٹھ جاتا ہے ۔ یہ مطالبہ عام طور پر عوام یا حزب اختلاف کی جانب سے ہوتا ہے لیکن چونکہ مرکزی حکومت نے کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا تھا اس لیے دکھاوے کی یہ کارروائی کرڈالی ۔ اس سے بی جے پی کی مرکزی حکومت نے از خود اپنی ہی پارٹی کی ریاستی سرکار کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کردیا ۔ سوال یہ ہے کہ جو صوبائی حکومت اس قدر نااہل ہے اسے برخواست کیوں نہیں کیا جاتا ؟ وہاں پر اگر صدر راج لگانے سے ناک کٹتی ہے تو وزیر اعلیٰ کو ہی بدل دیا جائے لیکن وہ بھی نہیں ہوتا ۔
حلف نامہ میں مقدمات کے جلد نمٹا رے کی خاطر مرکز نے سماعت کو ریاست سے باہر منتقل کرنے کا مطالبہ کردیا نیز ٹرائل کورٹ کو چارج شیٹ داخل کرنے کے 6 ماہ میں اپنا فیصلہ سنانے کا حکم دینے کی اپیل کی ۔اس طرح کے مقدمہ کو ریاست سے باہر منتقل کرنے سے مدعیان کو بے شمار مشکلات کا شکار ہونا پڑے گا۔ ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے جب ریاستی حکومت سے گواہوں کو خطرہ لاحق ہوجائے ۔ گجرات میں فساد کے بعد یہی صورتحال پیدا ہوگئی تھی اس لیے کئی سنگین مقدمات کو مہا ارشٹر منتقل کرنا پڑا۔ اب منی پور میں وہی شرمناک صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ چارج شیٹ کے بعد ٦ ماہ کے اندر ٹرائل کورٹ سے فیصلے کی توقع بھی ایک فریب ہے ۔ سرکار نے پہلے تین ماہ یوں ہی گنوا دئیے ۔
ابھی جملہ تقریباً سات ہزار ایف آئی آرکی چارج شیٹ کب تک داخل ہوسکے گی اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ہے ۔ ایک سنگین مسئلہ ہزاروں لوگوں کا راحتی کیمپوں میں رہنا ہیں۔ اپنے گھر کب لوٹنے کے بعد ان کو کب عدالت سے نوٹس ملے گا ۔ منی پور سے گواہ گوہاٹی جائیں گے اور وہاں سماعت کی تکمیل کے بعد فیصلہ سنایا جائے گا۔ یہ سب ٦ ماہ کے اندر ناممکن ہے ۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے حلف نامہ کے ذریعہ نہ صرف عوام بلکہ عدالت عظمیٰ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی سعی کرڈالی۔
مرکزی حکومت نے اپنے حلف نامہ میں کہا کہ منی پور کے اندر امن بحال کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔حلف نامہ کہتا ہے منی پور میں خواتین کے ساتھ ہونے والی بدسلوکی پر وزارت داخلہ کارروائی کررہا ہے ۔ کیا کررہا ہے اور کیسے کررہا ہے اس کی کوئی تفصیل سامنے نہیں آئی ہے ۔مرکزی حلف نامہ کے مطابق حالات پر قابو پانے کے لیے 35 ہزار اضافی فورسز کو تعینات کردی گئی ہے لیکن اگر وہ کسی نااہل ریاستی حکومت کے تابع ہو تو کچھ بھی نہیں کرسکتی۔ گجرات میں جس طرح مودی جی نے فوج کو بے بس کردیا تھا وہی کام بیرین سنگھ منی پور میں کررہے ہیں ۔ یعنی جیسا مالک ویسا گھوڑا کچھ نہیں تو تھوڑا تھوڑا والی کیفیت ہے ۔ عدالتی حلف نامہ میں مرکزی حکومت نے دعویٰ کیا کہ 18 جولائی کے بعد تشدد کا کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا ہے جو غلط ہے ۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جبکہ تشدد و قتل و غارتگری کی واردات نہ ہوتی ہو ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عدالت ان دعووں کو تسلیم کرلیتی ہے یا انہیں کوڑے دان کی نذر کردیتی ہے ۔منی پور میں بی جے پی کا ڈبل انجن نہ چلتا ہے نہ چلنے دیتا ہے ۔ نہ بولتا ہے نہ بولنے دیتا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نہ تو امن و امان کی اپیل کرتے ہیں اور نہ وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن وہاں کے لٹے پٹے لوگوں کی مدد کے لیے سرکاری خزانے کا منہ کھولتی ہیں۔ ان دونوں کی پراسرار خاموشی کو دیکھ کر فلم روٹی کپڑا اور مکان کا مشہور نغمہ معمولی ترمیم کے ساتھ یاد آتا ہے ۔ سنتوش آنند نے لکھا تھا
میں نہ بولوں گا ، میں نہ بولوں گی،
اس دنگے پر اس ہنسا پر ،
اس خون خرابے پر ،
میں نہ بولوں گا ، میں نہ بولوں گی ۔