... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل میڈیا شتر بے مہار ہے تو دوسری طرف علم و آگہی کا پیکر بھی ہے بات بس سمجھنے والے کی ذہنی بصارت کی ہے کہ وہ مزاحیہ انداز میں کی ہوئی بات سے بھی کوئی نہ کوئی سبق حاصل کرتا یا پھر سنجیدہ تحریر کو بھی مزاح کے پیرائے میں لیتا ہے ۔ ہرانسان کا ذہن دوسرے سے مختلف ہے بعض ان پڑھ افراد ایسی بات کرجاتے ہیں جو مدتوں یاد رکھی جاتی ہے اور بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ ساری عمر کوئی تخلیقی بات نہیں کرپاتے۔ آجکل سوشل میڈیا کا دور ہے جو کسی کے کنٹرول میں نہیں ہر انسان اپنی حیثیت اور ذہنی صلاحیت کے مطابق کچھ نہ کچھ لکھتا رہتا ہے کیونکہ اس پر کوئی روک ٹوک نہیں اور پھر جو بات دل کو لگتی ہے وہ وائرل بھی ہوجاتی ہے ۔اسلامیہ یونیورسٹی میں جو ا سکینڈل زیر گردش ہے اس میں بہاولپور کے ایم این اے اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے بیٹے کا نام بھی سر فہرصت ہے اور ابھی اس سکینڈل میں اور بھی بہت سے پردہ نشینوں کے نام آئیں گے۔ میں سمجھتا ہوں وہ بھی صرف سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر کیونکہ ہمارا سرکاری میڈیا اس حوالے سے کوئی بات نہیں کریگا۔ خیر میں بات کررہا تھاسوشل میڈیا کی جس نے ہمیں ٹیلی ویژن اور اخبار سے دور کردیا ہے ہر خبر بروقت سوشل میڈیا پر دستیاب ہوتی ہے اور اس پر لوگوں کے ریمارکس بھی کھل کر آتے ہیں۔ آپ کسی بھی سیاسی شخصیت کے ٹویٹر اکائونٹ کو چیک کرلیں جہاں سے کچھ پوسٹ کیا وہیں پر اسکے حق اور مخالفت میں تحریریں آنا شروع ہو جاتی ہے ۔حالیہ دنوں کیا بلکہ آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو کسی سعودی عرب میں مقیم ہیڈ راجکان کے رہائشی غضنفر کا میسج پڑھنے کو ملا کہ بجلی کے بلوں میں آئے روز ہونے والے اضافہ سے بعض اوقات تو ایسا محسوس ہونے لگتا ہے کہ بارشوں میں گرجنے والی آسمانی بجلی کا بھی بل ہمارے بلوں میں شامل نہ کردیا جائے۔ ہم تو اپنے بل نہیں دے سکتے آسمانی بجلی کا بل کیسے جمع کروائیں گے۔
ایک جگہ اور تحریر تھا کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے خزانہ خالی ہاتھوں میں ہے۔ انصاف کمزور ہاتھوں میں ہے اور عوام چوروں کے ہاتھوں میں ہے۔ طارق بشیر چیمہ کا بیٹا گرفتار نہ ہوسکا لیکن یہاں غریب انسان پورے ٹبر سمیت گرفتار ہو جاتا ہے۔ منفی سوچ ” غلط نمبر کی عینک ” کی طرح ہوتی ہے ،جس سے ہر منظر دھندلا ہر راستہ ٹیڑھا اور ہر چہرہ بگڑا ہوا نظر آتا ہے۔ سعودی عرب میں مقیم گگو منڈی کے رہائشی طلعت محمود کا ایک خوبصورت میسج پڑھنے کو ملا کہ سمجھ نہ آیا زندگی تیرا فلسفہ، ایک طرف کہتی ہے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے دوسری طرف کہتی ہے وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا ۔کبھی کبھی ٹھوکریں اچھی ہوتی ہیں ایک تو راستے کی رکاوٹوں کا پتہ لگ جاتا ہے اور سب سے بڑھ کر سنبھالنے والے ہاتھوں کا پتا چل جاتا ہے۔ قاری خالد محمود نے لکھا کہ پاکستان کے دو آئین ہیں ۔ایک قرآن اور دوسرا 73 کا متفقہ آئین اگر ہم ان کو مان لیں تو ہمارے سارے مسائل دور ہوسکتے ہیں موجودہ سیاست دان ایک میدان میں ایک ساتھ ہر گیم کھیل رہے ہیں، جب نواز شریف کو اقتدار سے نکالا گیا تو اس نے کہا کہ مجھے کیوں نکالا جبکہ عمران خان کہتا ہے کہ مجھے پتہ ہے مجھے کیوں نکالا گیا ۔مائنس کسی کو بھی کردیں مگر عوام کو کسی صورت مائنس نہیں کیا جاسکتا۔ عدلیہ اور ادھوری قومی اسمبلی کے درمیان اختلافات سے ملک کابہت نقصان ہوچکا ہے اس وقت ہم آئین کو مان نہیں رہے ہیں۔ کاشف کشمیر ی لکھتے ہیں کہ ملک کی موجودہ صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے ۔ہر شخص پریشانی کا شکار ہو رہا ہے ملک کے سیاست دانوں کی ناکامی ہے کہ وہ ایک ہی میدان میں ہر گیم کھیل رہے ہیں ۔ملک کی 14سیاسی پارٹیاں ایک جانب اور ایک پارٹی ایک جانب کھڑی ہے ہر پارٹی اپنی مرضی کا گیم کھیل رہی ہے۔ ایک ہی پلے گروانڈ میں تمام پارٹیاں کھیلنے میں مگن ہیں۔ لوگوں کو کپتان کی باتیں سچ لگنے لگی ہیں۔پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کی بد سلیقی اور نالائقی اقتدار میں آنے کے بعد عوام پر آشکار ہو چکی ہے اور مہنگائی سیکنڈوں کی بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ ریٹائر زندگی گزارنے والے محمد اکبر نے لکھا کہ جاپان جسے لامذہب ملک کہا جاتا ہے یہاں 97 فیصد آبادی کسی بھی مذہب کی پیروکار نہیں مگر جہاں ڈسپلن اخلاقیات کردار اور معاملات کی بات آئے تو دنیا میں انکا کوئی ثانی نہیں۔ ہمارے ہاں ہر پانچویں گلی میں مسجد، ہر دسویں گلی میں مدرسہ ہر محلے کا اپنا مزار اور مردے بخشوانے کے لئے کرائے پر تھوک کے حساب سے مولوی، ہر شہر قصبے میں لاتعداد مفتی اور عالم اورجب بات دیانتداری اخلاقیات معاملات اورڈسپلن کی ہو تو دنیا میں 160 ویں نمبر پر اور پارسائی کا ڈھنڈورا پہلے نمبر پر کیا، یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔ مال روڈ لاہورکے تاجر فاروق آزاد لکھتے ہیں کہ 2108 سے 2022 کے دور میں کاروبار اچھے تھے۔ مارکیٹوں میں رش بھی تھا لیکن ناجائز منافع خور دکاندار 10 کی چیز 30 کی بیچتے اور تمسخر اُڑا کر کہتے تھے تبدیلی آگئی ہے۔ بھئی اب وہی دکان دار سارا دن بیٹھ کر آپس میں باتیں کرتے ہیں۔ رات گئے منہ لٹکا کر گھر واپس ہو جاتے ہیں اور گھر میں ان کی بیگمات نے بھاری بھرکم بجلی گیس کے بل سودے کی لسٹیں پہلے سے تیار رکھی ہوتی ہیں، جسکو دیکھ کر وہ مزید پاگل ہو جاتے ہیں۔ کوئی مانے یا نا مانے یہ ناشکری قوم اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہی ہے۔ آخر میں ٹائون شپ کے رہائشی شیخ محمد حسین کی تحریر جنکا کہنا ہے کہ ہوش و حواس اور بنا کسی دباؤ کے یہ حلفیہ بیان دیتا ہوں کہ میرا پاکستان تحریک انصاف یا اس کے عہدے داران سے کوئی تعلق نہیں اور دانستگی یا نادانستگی میں تحریک انصاف یا عمران خان کے حق میں کوئی بات کی ہو تو میں ان سے برات کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ مقتدر حلقے بھی درگزر سے کام لیں گے ۔شب و روز کے غور و فکر کے بعد یہ بندہ ناچیز اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ شریف برادران صحیح معنوں میں شریف ہیں نہ انہوں نے نہ ان کے صاحب زدگان اور مریم نواز نے زندگی میں کبھی کرپشن کی اور نہ کبھی فوج کے خلاف بیان دیا۔ میں یہ بھی اقرار کرنا چاہتا ہوں کہ مقصود چپڑاسی اور ڈاکٹر رضوان واقعی طبعی موت مرے تھے اور اس ضمن میں تمام چہ مگوئیاں جھوٹ پر مبنی ہیں۔ میاں صاحب کے پلیٹ لیٹس واقعی کم تھیں جو اللہ تعالی کے فضل و کرم سے قطری جہاز میں بیٹھتے ہی نارمل ہوگئے تھے۔ میرا یہ بھی ماننا ہے کہ مریم نواز نوجوان نسل کی امید اور مقبول ترین رہنما ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ محترم آصف علی زرداری حقیقی معنوں میں بابائے جمہوریت ہیں جس کا واضح ثبوت ان کی پارٹی میں جمہوریت ہے ۔ ان کے اینٹ سے اینٹ بجانے کا اعلان اسٹیبلشمنٹ کیلئے نہیں بلکہ دودھ میں ملاوٹ کرنے والوں کیلئے تھا جن نا عاقبت اندیش لوگوں نے ان کو مسٹر ٹین پر سینٹ کا خطاب دیا ان کو شرم آنی چاہئے کیونکہ زرداری صاحب کے پاس ناجائز ذرائع ہوتے تو وہ بلاول ہاؤس اپنے پیسوں سے خرید لیتے۔ آئندہ آنے والی نسلوں کیلئے بلاول بھٹو زرداری کی شکل میں وہ نابغہ روزگار انمول ہیرا موجود ہے جو ملک و قوم کو اس کی مشکلات سے نجات دلائے گا ۔آخر میں اپنے ایک گناہ کبیرہ
پر استغفار کرنا چاہوں گاکہ اگر کبھی غیر ارادی اور انجانے میں بھی عالم بے بدل مجاہد اسلام حضرت مولانا فضل الرحمان مدظلہ کی شان میں کوئی گستاخی ہوگئی ہو کیونکہ وہ ایک زیرک سیاستدان ہیں اور ڈیزل کے پر مٹوں سے ان کا کبھی واسطہ نہیں رہا۔ جمہوریت زندہ باد پی ڈی ایم پائندہ باد۔