... loading ...
مولانا عبدالقوی ذکی حسامی
………………….
تاریخی نظام اور اس کی ضرورت
سکینڈ سے گھنٹہ، گھنٹہ سے دن، مہینہ اور سال تک کے معمولات کو صحیح انداز اور مناسب تقسیم کرنے کو بزبانِ عربی ـ تقویم، اردو میں نظام الاوقات، ہندی میں جنتری اور انگریزی میں کیلنڈر کہتے ہیں۔ اور وقت وہ شئے ہے جو اپنے محور میں گھومتا رہتا ہے۔ اسی وقت سے فرد سے قوم تک کے حالات وواقعات درج ہوکر ماضی کے حوالہ ہوجاتے ہیں، جس سے عبرت و نصیحت لے کر انسان اپنے مستقبل کے معاملات طے کرتا ہے۔ علاوہ ازیںانسان کے لیے سیاسی، سماجی اُمور، معاشرتی تقریبات اور مذہبی فرائض کی انجام دہی کے لیے ایک مرتب نظام کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے بغیر انسان کا مفوضہ ذمہ داری کو نبھانا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہے۔
تاریخی نظام کی اقسام
اسی مقصد کے تحت دنیا میں مختلف نظام الاوقات رائج ہیں، عمومی طور پر دو نظام معروف ہیں:
1- شمسی: جنوری سے دسمبر تک 2-قمری : محرم الحرام سے ذو الحجہ تک۔
شمسی تاریخ کو عیسوی (حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے) نسبت حاصل ہے۔ اور نظامِ قمری ہجرتِ نبوی l کی طرف منسوب ہے۔ موجودہ دور میں عموماً سرکاری وغیرسرکاری، نجی وملکی تمام تر معاملات شمسی تواریخ کے لحاظ سے انجام پاتے ہیں، البتہ اسلامی احکامات وفرائض قمری نظام سے مربوط ہیں، جیسے: روزہ، زکوٰۃ، حج ، عیدین، وغیرہ۔
قمری سن کی اہمیت
قمرلغتِ عربی میں چاند کو کہتے ہیں، اسی کی طرف نسبت کرتے ہوئے قمری کہتے ہیں، کیونکہ اس نظام کا سارا دارومدار چاند کے گھٹنے اور بڑھنے پر منحصر ہے۔ اور یہ قمری تاریخی کیلنڈر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس عمل ہجرت سے وابستہ ہے۔ (ماہِ محرم الحرام کے فضائل واحکام)
مفتی محمد شفیع عثمانی رحمۃ اللہ علیہ ’’ إِنَّمَا النَّسِیْءُ زِیَادَۃٌ فِي الْکُفْرِ‘‘ کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ قمری مہینوں کی جو ترتیب اسلام میں معروف ہے، وہ رب العالمین کے ترتیب کردہ ہیں، جس میں خاص مہینوں کے مخصوص احکام نازل فرمائے ہیں ،اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ کے یہاں احکامِ شرعیہ میں قمری سن معتبر ہے ، اور یہ اللہ کو پسند ہیں، اسی لیے قمری حساب کا محفوظ رکھنا فرضِ کفایہ ہے ، اگر ساری اُمت قمری حساب کو ترک کردے تو گنہگار ہوگی۔ قمری حساب محفوظ رہے تو شمسی تواریخ کا استعمال بھی جائز ہے۔‘‘ (معارف القرآن،ج:۴، ص: ۳۷۳)
قمری سال کا پہلا مہینہ (محرم الحرام)
محرم کے معنی: معظم، محترم اور معزز ہیں، اس ماہ کا شمار اشہرِ حرم میں سے ہے، جن کی عظمت وفضیلت کتاب وسنت میں آئی ہے، جن میں اعمالِ صالحہ کا اجر وثواب دوگنا کرکے دیا جاتا ہے۔ یہ مہینہ ایسی بزرگی والا ہے جس کا ادب واحترام نزولِ کتاب کے زمانہ میں اہلِ کتاب اور کفارِمکہ بھی کیا کرتے تھے۔ بعض علمائے سلف نے اشہرِ حرم میں بھی محرم الحرام کو افضل لکھا ہے، چنانچہ حافظ ابن رجب حنبلی ؒ فرماتے ہیں:
’’وقداختلف العلماء في أي الأشہرالحرم أفضل؟ فقال الحسن البصريؒ: أفضلھا شھر اللہ المحرم، ورجَّحہٗ طائفۃ من المتاخرین۔‘‘
’’علماء کرام نے اس بارے میں اختلاف کیا ہے کہ اشہرِحرم میں کونسا مہینہ افضل ہے؟ حضرت حسن بصری ؒ نے فرمایا: ان میں افضل مہینہ اللہ کا مہینہ محرم ہے ،اور متاخرین میں سے ایک جماعت نے اسی کو راجح قرار دیا ہے۔‘‘ (خصوصیاتِ ماہِ محرم الحرام ویومِ عاشوراء)
محرم الحرام کے فضائل
ماہِ محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے ، جن کی حرمت وعظمت کو اللہ تعالیٰ نے کائنات بناتے وقت ہی لکھ دیا، ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللہِ اثْنَا عَشَرَ شَہْرًا فِیْ کِتٰبِ اللہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ مِنْہَآ اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ‘‘ (سورۃ التوبہ:۳۶)
’’یقیناً شمار مہینوں کا (جوکہ) کتابِ الٰہی میں اللہ کے نزدیک (معتبر ہیں) بارہ مہینے (قمری)ہیں جس روز اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کیے تھے (اسی روز سے اور) ان میں چار خاص مہینے ادب کے ہیں ۔‘‘ (حضرت تھانویؒ)
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’حرمت کے مہینوں میں نیک کام کرنے کاثواب بہت بڑا ہے ، لہٰذا ان میں گناہ کرنے کا عذاب بھی بہت بڑا ہے، اگر چہ گناہ ہر زمانہ میں (برائی کے لحاظ سے) بڑا ہوتا ہے۔‘‘ (مظہری)
مفتی محمد شفیع صاحب ؒ لکھتے ہیں کہ : ’’تمام انبیاء کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے اور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال وعذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔‘‘ ( معارف القرآن)
علامہ ابن رجب ؒ فرماتے ہیں کہ: اسلاف تین عشروں کی بہت عظمت ولحاظ کرتے تھے: 1-رمضان المبارک کا آخری عشرہ ،2-ذی الحجہ کا پہلا عشرہ ،3-محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔ (محرم الحرام کا مہینہ)
امام نسائی ؒ نے اس ماہِ مبارک کی فضیلت پر یہ روایت نقل فرمائی ہے:
’’ عن أبي ذرؓ قال: سألتُ النبي ﷺ أيُ الیل خیر؟ و أي الأشھر أفضل؟ فقال: خیر الیل جوفہ، وأفضل الأشھر شھر اللہ الذي تدعونہ المحرم۔‘‘
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: رات کا کونسا حصہ بہتر ہے؟ اور کونسا مہینہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کا درمیانی حصہ بہتر ہے، اور مہینوں میں افضل مہینہ اللہ کا مہینہ ہے، جس کو تم محرم کہتے ہو،لیکن ماہِ رمضان اس سے مستثنیٰ ہے۔‘‘ (خصوصیاتِ ماہِ محرم الحرام)
محر م الحرام میں روزوں کی فضیلت
ماہِ محرم الحرام میں نفلی روزوں کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ اس مہینہ کو اللہ سے نسبت حاصل ہے اور یہ نسبت ماہِ محرم کی فضیلت کو بتلاتی ہے، حدیث پاک میں ارشاد ہے:
’’أفضل الصیام بعد رمضان شھر اللہ المحرم۔‘‘(رواہ مسلم، بحوالہ مشکاۃ،رقم:۲۰۴۸)
’’رمضان کے روزے کے بعد بہترین روزے اللہ کا مہینہ محرم ہے۔‘‘
اس حدیث میں محرم کے عام نفلی روزے مراد ہیںاور یہی راجح قول ہے۔ (ماہِ محرم الحرام کے فضائل واحکام)
نیز فقہاء کرام اشہرِ حرم میں بطور خاص محرم کے مہینہ میں نفلی روزوں کے حسبِ حیثیت اور وسعت مستحب ہونے کے قائل ہیں۔ (حوالہ سابق)
ماہِ محرم کے چند اہم تاریخی واقعات
ماہِ محرم ۷ھ میں غزوۂ خیبر ہوا۔ ماہِ محرم ۱۴ھ میں جنگ قادسیہ ہوئی، اس جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت سعد بن ابی وقاصؓ تھے اور کفار کا سردارمشہور زمانہ رستم تھا ،تین دن کے سخت مقابلہ کے بعد چوتھے روز مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ ماہِ محرم ۱۸ھ شام اورعراق میں طاعونِ عمواس کی سخت جان لیوا وبا پھیلی تھی، اور حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ کا انتقال بھی اسی بیماری سے ہوا جو اس وقت مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ اس علاقہ میں مصروفِ جنگ تھے۔ اوراسی سن میں حضر ت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اپنے بھائی یزیدبن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعدحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے دمشق کے گورنر مقرر ہوئے۔ ماہِ محرم ۲۴ھ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ مصر میں فاتحانہ داخل ہوئے ، اور یہی وہ سن ہے جس میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تختِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ ماہِ محرم ۶۱ھ میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مع رفقاء جامِ شہادت نوش کیا۔ ماہِ محرم ۶۷ھ میں کوفہ کا گورنر عبیداللہ بن زیاد قتل ہوا۔ ماہِ محرم۷۴ھ میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی وفات ہوئی ۔ (ملخص از ماہِ محرم الحرام کے فضائل اور احکام)
یہ وہ چند تاریخی اشارے ہیں جو محرم الحرام میں واقع ہوئے ہیں، اس کے علاوہ بے شمار اور تاریخی حقائق کتبِ سیر میں مذکور ہیں ۔
صومِ عاشوراء کے فضائل
صوم عاشوراء کی فضیلت محرم الحرام کے دیگر ایام سے بڑھی ہوئی ہے،اوراحادیث میں اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں ،جمہور صحابہؓوتابعینؒ اور ائمہ مجتہدین کی رائے یہی ہے کہ عاشوراء سے دس محرم کا روزہ مرادہے،اور لُغت کی رُو سے بھی عاشور ہ کا لفظ دس محرم پر صادق آتا ہے:
’’عن عائشۃؓ قالت :کان رسول اللہ ﷺ أمر بصیام یوم عاشوراء، فلما فُرض رمضان کان من شاء صام ومن شاء أفطر۔‘‘ (بخاری: ۲۰۰۱)
’’حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا۔ جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے (اختیار دیا گیا) جو چاہے روزہ رکھے اور جو چاہے نہ رکھے۔‘‘
ایک حدیث میں اس دن کو اللہ رب العزت کا دن قرار دیا گیا، چنانچہ ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے حوالہ سے یہ روایت منقول ہے کہ:
’’قال رسول اللہ ﷺ: ھٰذا یوم من أیام اللہ، فمن شاء صامہ ومن شاء ترکہ۔‘‘ ( ابوداؤد: ۲۴۴۳)
اور اس دن روزہ رکھنے کاثواب یہ ہے کہ سال گزشتہ کے گناہ معاف کردئے جاتے ہیں۔ حضرت ابو قتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی ایک طویل حدیث میں ارشادِ نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہے :
’’ وسئل عن صوم یوم عاشوراء، فقال یکفر السنۃ الماضیۃ ۔‘‘ (مسلم: ۱۱۲۶)
اس حدیث کے ضمن میں یہ بات ملحوظ رہے کہ گناہوں سے صرف صغائر معاف ہوں گے، البتہ کبائرکے لیے توبہ شرط ہے۔
تنہا صوم عاشوراء اور مخالفتِ یہود
یہود اسلام کے ازلی دشمن ہیں، ان کی مخالفت سنتِ نبوی ہے ،اسی وجہ سے اسلام کے بیشتر احکامات میں ان کی مخالفت قولاً وعملاً کی گئی، ابتدا میں صرف ایک روزہ رکھا جاتا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو معلوم ہوا کہ یہود بھی روزہ رکھا کرتے ہیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مخالفت میں مزید ایک روزہ اضافہ کرنے کا حکم دیا، یا تو نو تاریخ کو روزہ رکھ لیا جائے، اس کی تائید ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک روایت سے ہوتی ہے:
’’قال رسول اللہ ﷺ: صوموا التاسع والعاشر وخالفوا الیہود۔‘‘ (ترمذی:۷۵۵)
یا نو تاریخ کے بجائے گیارہ تاریخ کو روزہ رکھ لیا جائے، اس کا ثبوت حضرت عباس رضی اللہ عنہما کی ایک دوسری روایت میں ہے:
’’ قال رسول اللہﷺ: صوموا یوم عاشوراء وخالفوا الیہود، صوموا قبلہ یوماً أو بعدہٗ یوماً۔‘‘ (مسند احمد)
فقہائے کرام نے ان ارشادات کی روشنی میں تنہا دس محرم کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولیٰ لکھا ہے، اور جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف عاشوراء کا روزہ رکھنا گناہ ہے، یہ بے اصل بات ہے۔ (ماہ محرم کے فضائل اور احکام )
بعض اہلِ علم کی رائے ہے کہ فی زمانہ اہلِ یہود کے روزہ نہ رکھنے کی وجہ سے تشبہ نہیں پایا جاتاہے،اس سلسلہ میں عرض یہ ہے کہ اول اس کاقطعی علم نہیں کہ وہ روزہ رکھتے ہیں یا نہیں۔(کذا فی فتاویٰ رحیمیہ، ج: ۵، ص: ۱۹۷) دوسرا یہ کہ نو اور گیارہ کا روزہ رکھنا منصوص ہے اور چودہ سو سال سے تعاملِ ناس ہے۔ (المغنی لابن قدامہ، بحوالہ حاشیہ ماہِ محرم کے فضائل اور احکام)
یومِ عاشوراء سے وابستہ تاریخ
حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اس دن ہوئی ،حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جبلِ جودی پر اس دن ہی آٹھہری، حضرت یونس علیہ السلام اسی دن مچھلی کے پیٹ سے باہر آئے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ سے خلاصی ملی وہ یہی دن تھا، حضرت یعقوب علیہ السلام کی ملاقات حضرت یوسف علیہ السلام سے اسی دن ہوئی ،اور حضرت یوسف علیہ السلام تختِ خلافت پر دس محرم ہی کو متمکن ہوئے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اسی دن اپنی قوم سمیت فرعون سے نجات پائی، اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوئے، اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو آزمائش کے بعد بادشاہت ملی ، اور حضرت ایوب علیہ السلام کو بھی بعد امتحان شفا اسی روز ملی، یہی وہ دن ہے جس میں حضرت ادریس علیہ السلام اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اُٹھالیا گیا ، اور یہی وہ دن ہے جس میں جگر گوشۂ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے باطل سے ٹکراکرجامِ شہادت گلے لگایا، اسی دن اس کائنات کی بساط لپیٹ کر قیامت برپا کر دی جائے گی۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر، بحوالہ خصوصیات ماہ محرم الحرام ویوم عاشوراء، و معارف القرآن[ملخصاً])
اس ماہ میں کرنے کے کام
اس ماہ میں چند کام ہیں جن کو ہمیں انجام دینا ہے: ۱- یوم عاشوراء کا روزہ رکھنا ، ۲-گھر والوں پر خرچ میں توسُّع کرنا، ۳- فرائض کا اہتمام اورنفلی عبادات بکثرت کرنا، ۴-گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا، ۵- اتباعِ سنت کا التزام کرنا۔
اس ماہ میں نہ کرنے کے کام
وہ امور جن سے اس ماہ میں بچنا ہے وہ یہ ہیں:۱-کالا لباس پہننا اور کالا جھنڈا لگانا ، ۲-نحوست اورغم کا مہینہ سمجھنا، ۳- سوگ وتعزیہ اور ماتم کرنا ، ۴-شربت وغیرہ کی سبیلیں لگانا ، ۵-دیگر من گھڑت رسموں کو اپنانا۔