... loading ...
امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کوئٹہ میں انتخابی کنونشن سے خطاب میں کہاہے کہ سود اللہ کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے، اس کی حرمت کے بارے میں قرآن پاک میں بار بار تاکید کی گئی ہے کہ اس کے قریب سے بھی نہیں گزرنا چاہیے مگر بدقسمتی سے پاکستان میں بینک کاری کا نظام سود پر مبنی ہے اور آئے روز سود کے لین دین میں اضافہ ہوتا جارہا ہے پی ڈی ایم کے امام مولانا فضل الرحمان ہیں، ان کے ہوتے ہوئے شرح سود میں اضافہ ہوا، اورحکومت نے شرح سود 17 سے بڑھ کر 22 فیصد کردیاہے۔حالانکہ وفاقی شریعت عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل پارلیمنٹ کو یہ سفارش بھی کر چکی ہے کہ ان قوانین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ڈھالا جائے،اور خود وزیرخزانہ اسحاق ڈار اس بات کاوعدہ کرچکے تھے کہ بینکوں سے سود کے نظام کو ختم کردیاجائے گا لیکن افسوس کہ پارلیمنٹ کو کبھی وقت ہی نہیں ملا کہ ایسے قوانین میں ترامیم کرکے انہیں درست کرے۔ یہ پارلیمنٹ کی آئینی ذمے داری ہے لیکن اس مسئلہ پر نہ حکمران بولتے ہیں اور نہ اپوزیشن کے نمائندے۔ حکمرانوں کے اس رویئے سے ایسا محسوس ہونے لگاہے کہ ہمارا اسلامی آئین صرف دکھاوے کے لیے ہے، اْس پر سنجیدگی سے عملدرآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ موجودہ آئین کو بنے تقریباً 50سال ہو گئے ہیں لیکن ہم آج تک سودی نظامِ معیشت سے جان نہیں چھڑا سکے۔ باوجود اس کے کہ سودی نظام نے ہماری معیشت کو تباہ کر دیا ہے 30 سال پہلے ہمارے سودی نظامِ معیشت کو وفاقی شریعت عدالت نے غیراسلامی، غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا لیکن بدقسمتی سے اْس فیصلہ پر عملدرآمد کرنے کے بجائے نواز شریف حکومت نے اسے عدالت عظمیٰ میں چیلنج کر دیا۔ عدالت عظمیٰ کے شریعت اپیلیٹ بنچ نے کئی سال بعد، 1999-2000 میں وفاقی شریعت عدالت کے فیصلہ کے حق میں حکم دیا لیکن پرویز مشرف کی حکومت نے اس پر عملدرآمد کے بجائے عدالت عظمیٰ سے اس فیصلے کو 2001-2002 میں
دوبارہ وفاقی شریعت عدالت کو واپس بھجوا دیا۔سودی نظام کے خاتمے میں حکمرانوں کی آناکانی سے ظاہرہوتاہے کہ ہمارے حکمران اس گناہ میں ملوث ہیں۔انھیں یہ سوچنا چاہئے کہ یہ اللہ کو کیا جواب دیں گے؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر ذمے دار کو اس مسئلے میں اپنے آپ سے ضرور کرنا چاہیے۔ یہ سوال نواز شریف کوبھی اپنے آپ سے کرنا چاہیے، یہ سوال اْن کے بعد آنے والے دوسرے حکمرانوں کو بھی اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے۔ پارلیمنٹ کے ارکان کو خود سے پوچھنا چاہیے۔ اور عوام کو یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ سیاستدان اور حکمران اللہ تعالیٰ سے جنگ کے مرتکب ہیں انہیں آنے والے انتخابات میں ان کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے۔