... loading ...
مولانا ابوبکرحنفی شیخوپوری
مصائب و آلام اور تکالیف و حوادث انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں،اس فانی دنیا میں عمرِ عزیز کی چند ساعتیں عیش کی گھنی چھاؤں میں بڑے سکون سے گذرتی ہیں اور کچھ گھڑیاں رنج کی جھلساتی ہوئی دھوپ میں کٹ جاتی ہیں، حیاتِ مستعار کے آنگن میں کبھی مسرتیں ڈیرے ڈال کر لمحات کو خوشگوار بنا دیتی ہیں تو کبھی غم و اندوہ کے جھکڑ خوشیوں کے آشیانے کو تنکا تنکا کر دیتے ہیں،رنج و الم سے عبارت یہ زندگی کی ہچکولے کھاتی ہوئی کشتی اپنے دامن میں زمانے کی تلخ وشیریں یادیں لیے ہوئے آخرموت کے ساحل پر لنگر انداز ہو جاتی ہے۔یہ سفرِ حیات اتنا کٹھن کیوں ہے؟ مصیبتیں کیوں انسان کو گھیر لیتی ہیں؟خدا تو اپنے بندے سے ماؤں سے ہزاروں گنا بڑھ کر پیار کرتا ہے پھر انھیں آزمائش کی چکی میں کیوں پیستا ہے؟ اس سوال کا جواب پانے کے لیے بنیادی طور پر یہ ذہن نشین کر لیں کہ اللہ تعالی نے قرآنِ کریم میں جا بجا اپنی صفت حکیم ذکر فرمائی ہے اور حکیم ایسی ذات کو کہا جاتا ہے جس کا کوئی فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا لہٰذا آفات و بلیات کے نازل ہونے میں بھی اس کے حکیمانہ فیصلے اور دانشمندانہ امر کو دخل ہوتا ہے۔اب وہ کون سے اسباب و وجوہات اور کیامصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے بلائیں اترتی ہیں؟تو قرآن وسنت کے علوم کی روشنی میں اہلِ علم نے پانچ وجوہات کا تعین کیا ہے۔
نزولِ مصائب کی پہلی وجہ مومن بندے کی آزمائش ہوتی ہے،اللہ کی ذات علام الغیوب ہے لیکن اہلِ دنیا پر واضح کرنے کے لیے کہ میرا بندہ مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے یا بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے،مختلف طریقوں سے آزماتا رہتا ہے، ارشادِ باری تعالی ہے وَلَنَبْلُوَنَّکُم بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٖ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ (البقرۃ: ۵۵۱)“ اور ہم تمہیں کچھ خوف اور بھوک سے دوچار کر کے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں میں نقصان کرکے ضرور آزمائیں گے ”۔ آفات کے نازل ہونے کادوسرا سبب مسلمان کے گناہوں کا کفارہ ہے، اللہ تعالی مصیبت میں مبتلا فرماکر گناہوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور آخرت کی سزا سے بچا لیتے ہیں، صحیحین میں حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مَا یُصِیْبُ المسلمُ من نَصَبٍ وَلَا وَصَبٍ وَلَا ھَمٍّ وَلَا حُزْنٍ حتٰی الشوکۃِ یُشَاکُہَا إلاَّ کَفَّرَ اللّٰہُ بھا مِنْ خَطایاہُ“ مومن مرد کو جو بھی دکھ اور جو بھی بیماری اور جو بھی پریشانی اور جو بھی اذیت پہنچتی ہے یہاں تک کہ اس کو کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کے گناہوں کی صفائی کر دیتا ہے ”حضرت عبد اللہ بن مسعودؓسے مروی ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاظ منقول ہیں حَطَّ عنہ من سَیِّآتِہٖ کما تُحَطُّ الشجرۃُ وَرَقَھا“ اللہ تعالی(اس مصیبت کی وجہ سے) اس کے گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے خزاں رسیدہ درخت اپنے پتے جھاڑ دیتا ہے ”۔حوادث و آلام پیش آنے کی تیسری علت نیک اور متقی لوگوں کے درجات کو بلند کرنا ہے،انبیاء، اولیاء اور سلفِ صالحین کی سوانح پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں بڑے کٹھن حالات اور دشوار گذار مراحل آئے،سننِ ترمذی میں حضرت سعدؓ بن ابی وقاص ؓسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا أیُّ الناسِ أشَدُّ بَلَاءً؟ سب سے سخت تکلیفیں کن لوگوں پر آئیں؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا الانبیاء ثم الامثل فالامثل“ سب سے زیادہ مصیبتیں انبیاء پر آئیں،پھر وہ جو ان کے طریقے کے زیادہ قریب ہیں اور پھر وہ جوان کے طریقے کے زیادہ قریب ہیں ”۔ان جلیل القدر شخصیات کے اللہ تعالی کے مقرب و محبوب ہونے کے باوجود ان پر تکالیف اس لیے آئیں تاکہ اللہ تعالی انھیں اپنے ہاں مزید بلندی درجات سے نوازے، مسندِ احمد میں محمد بن خالد اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إنَّ العبدَ إذا سَبَقَتْ لَہ مِنَ اللّٰہِ منزلۃً لَمْ یَبْلُغْھَا بِعملہ ابتلاہُ اللّٰہُ فی جسدِہٖ أوْ فِی مالِہٖ أوْ فِی وَلدِہٖ ثم صَبَرَہٗ علی ذلک حتی یُبْلِغَہٗ المنزلۃَ التی سَبَقَتْ لہ مِنَ اللّٰہِ“ کسی مومن بندے کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے ایسا بلند مقام طے ہو جاتا ہے جس تک وہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتا تو اللہ تعالی اس کو کسی جسمانی یامالی تکلیف میں یا اولاد کی طرف سے کسی صدمہ اور پریشانی میں مبتلا کر دیتا ہے،پھر اس کو صبر کی توفیق دیتا ہے؛ یہاں تک کہ بندہ (ان مصائب اور تکالیف پر صبر کرنے کی وجہ سے) اس بلند درجہ تک پہنچ جاتا ہے جو اس کے لیے پہلے سے طے ہو چکا تھا”۔ناموافق حالات کے درپیش ہونے کی چوتھی وجہ غافل انسان کو متنبہ اور خبردار کرناہے،اللہ تعالی بندے سے غفلت کی چادر کو اتارنے اور اسے اپنی بندی اور اطاعت کی طرف متوجہ کرنے کے لیے اس پرمصائب اتارتے ہیں،فرمانِ خداوندی ہے وَلَنُذِیقَنَّہُم مِّنَ الْعَذَابِ الْأَدْنَیٰ دُونَ الْعَذَابِ الْأَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُونَ(احزاب:۲۴)“اور ہم ان (نافرمانوں) کو بڑے عذاب سے پہلے چھوٹا عذاب چکھاتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں“۔
زندگی کی الجھنوں،مشقتوں اور مصیبتوں کا آخری اور عمومی سبب انسان کی بد عملی، فسق و فجور،خدا کی حکم عدولی اورشریعت کے احکام سے روگردانی ہے۔اللہ تعالی جب گناہوں کی وجہ سے اپنے بندے پرناراض ہوتاہے تو اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دیتا ہے اوراس کی زندگی سے راحت و سکون ختم کر دیتا ہے جس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مسرت و شادمانی کے تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی دل بے چین رہتا ہے۔ خلاقِ عالم نے اپنے مقدس کلام میں بارہا اس حقیقت کو آشکار کیا ہے؛چنانچہ ارشادِ خداوندی ہے وَمَآ أَصَابَکُم مِّن مُّصِیبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْدِیکُمْ (شوری:۰۳)“ اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ ان اعمال کی وجہ سے ہوتی ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائے ہیں ”دوسری جگہ ارشاد ہے وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِکْرِی فَإِنَّ لَہُ مَعِیشَۃ ضَنکا وَنَحْشُرُہُ یَوْمَ الْقِیَٰمَۃِ أَعْمَیٰ (طہ:۲۴۱)“ اور جس شخص نے میری یاد سے منہ موڑا تو بلاشبہ اس کی زندگی تنگ ہوجاتی ہے اور قیامت کے دن ہم اسے اندھاکر کے اٹھائیں گے ”قرانِ کریم میں گذشتہ ہلاک شدہ اقوام و امم کا متعدد مقامات پر تذکرہ ہے اس کاسبب بھی ان کی سرکشی،نافرمانی اور اور وقت کے نبی کی تعلیمات سے انحراف کو بیان کیا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے ارشادات میں مختلف گناہوں کو مختلف مصیبتوں کے نازل ہونے کا سبب بتایا ہے، سنن ابنِ ماجہ میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:اے مہاجرین!پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جب تم ان میں مبتلا ہو جاؤ گے اور میں اللہ سے پناہ چاہتا ہوں اس بات سے کہ تم ان کا ارتکاب کرو (۱)جب کسی قوم میں اعلانیہ بے حیائی ہو گی تو اس میں طاعون اور ایسی ایسی بیماریاں جنم لیں گی جو انھوں نے اور ان کے آباء و اجداد نے بھی نہیں سنی ہوں گی۔(۲)جو قوم زکوۃ ادا نہیں کرے گی وہ بارش سے محروم ہو جائے گی اور اگر جانور نہ ہوتے تو پانی کی ایک بوند نہ برستی (۳)جو قوم ناپ تول میں کمی کرے گی وہ قحط سالی،رزق کی تنگی اور بادشاہوں کے ظلم میں گرفتار ہو جائے گی (۴)جب امراء اللہ کے نازل کردہ احکام کے خلاف فیصلے کریں گے تو دشمن ان پر مسلط ہو جائے گا جو ان کی چیزیں ان سے چھین لے گا (۵) جب لوگ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت کو چھوڑ بیٹھیں گے تو باہمی خانہ جنگی میں پڑ جائیں گے۔
مسائل کے حل اور مصائب کو رفع کرنے کے سلسلہ میں شریعت نے چار اعمال کرنے کی ترغیب دی ہے جو غم کو ہلکا کرنے اور دل کی تسلی میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔سب سے پہلا کام یہ ہے کہ غم کی خبر سنتے ہی استرجاع یعنی“انا للہ وانا الیہ راجعون ”پڑھے جس کی حقیقت اللہ تعالی کے اس فیصلے کو برضاء و رغبت قبول کرنے کا اعلان ہے۔دوسرا کام اپنے آپ پر ضبط کرنا اور خدا تعالی کے بارے میں کسی بھی فاسد خیال یا زبان سے کسی نامناسب جملہ کے ادا کرنے سے بچنا ہے،اس کو صبر کہا جاتا ہے۔تیسرے نمبر پرمبتلاء بہ شخص کے کرنے کا کام یہ ہے کہ صلوۃ الحاجت ادا کرکے تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگے۔آخری ہدایت یہ ہے کہ حسبِ استطاعت صدقہ ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر فی الوقت دینے کے لیے کچھ نہ ہو تو بعد کے لیے نذر مان لے۔اس سب کے بعد بھی اگر مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہ آئے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اس کا اجر آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا ہے یا چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے، ترمذی میں حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یَوَدُّ أھْلُ العافیۃِ یومَ القیامۃِ حینَ یُعْطیٰ أھْلُ البلاءِ الثوابَ لو أنَّ جلودَھم کانت قُرِضَتْ فی الدنیا بالمقاریض“ جب اہلِ بلاء کو قیامت کے دن بدلہ دیا جائے گا تو تو اہل ِعافیت یہ خواہش کریں گے کہ کاش! دنیا میں ان کی کھالوں کو قینچیوں سے کاٹ دیا جاتا“۔
٭٭٭