وجود

... loading ...

وجود

مہاراشٹرکی مہابھارت :آگ دل میں لگی ہے میرے پاس تو نہ آ

منگل 25 جولائی 2023 مہاراشٹرکی مہابھارت :آگ دل میں لگی ہے میرے پاس تو نہ آ

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔

بالی ووڈ میں یوں تو ہر طرح کی فلمیں بنتی ہیں مگر ان کی دو بڑی قسمیں ایکشن اور فیملی ڈرامہ ہیں ۔ مہاراشٹر کی سیاست میں پچھلا سال ایکشن کا تھا ۔ ایکناتھ شندے کی غداری کے بعد مار دھاڑ، بھاگ دوڑ ،گالی گلوچ اور الزام تراشی وغیرہ کا دور دورہ تھا لیکن این سی پی کی بغاوت کے بعد ایک فیملی ڈرامہ شروع ہوگیا ہے ۔ محبت ہو یا سیاست دونوں میں بغاوت تو ہوتی ہے مگر اس کا انداز مختلف ہوتا ہے ۔ فیملی ڈرامہ میں رونا دھونا اور ملنا بچھڑنا چھایا رہتا ہے ۔ اجیت پوار کو نہ جانے کس جیوتشی نے اتوار کا مہورت نکال کردے دیا ۔ انہوں نے اپنی تازہ حلف برداری کے لیے اسی دن کا انتخاب کیا۔ تازہ اس لیے کہ پہلے چار مرتبہ وہ نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لے چکے ہیں ۔ ہر بار اس امید میں حلف برداری کی جاتی ہے کہ جلد ہی اچھے دن آجائیں اور وزارتِ اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہونے کا موقع مل جائے گا مگر مودی جی کے اچھے دن کی مانند وہ آکر نہیں دیتے اور ‘دل کے ارماں آنسووں میں بہہ جاتے ہیں۔پہلے یہ باتیں دل کے اندر یا نجی محفلوں تک محدود رہتی تھیں لیکن اب پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور عوامی جلسوں میں اس کا اظہار ہونے لگا ہے ۔
ہندی فلموں کے اندر والدین کی خواہش کے مطابق طے ہونے والی شادی میں بھی تنازع پیدا کیا جاتا ہے تاکہ تین گھنٹوں تک ناظرین کو پیسے وصول کرنے کا موقع دے کر آخر میں ہیپی اینڈ کردیا جائے لیکن ماں باپ کی مرضی کے خلاف ہونے والی شادی میں اچانک گھر سے فرار لازمی ہوتا ہے چاہے اس کے لیے سورت سے گوہاٹی جانا پڑے یا یہ دوڑ راج بھون تک محدود ہو۔ اتوار کی حلف برداری کا یہ جواز پیش کیا گیا کہ شکونی چاچا شرد پوار کو بھنک لگ گئی تھی۔ اس لیے انہیں قلعہ بندی کے موقع سے محروم رکھنے کی خاطر چھٹی کے دن گورنر کو زحمت دی گئی۔ ویسے گورنر حضرات کے پاس اواخر زندگی کی تعطیلات گزارنے کے سواکام ہی کیا ہوتا ہے ؟ ان کو تو اتوار اور پیر کے درمیان کا فرق بھی کم ہی معلوم ہوتا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ مرکز جب کسی سازش میں انہیں شامل کرتا ہے تو ایک مصروفیت ان کے ہاتھ آجاتی ہے ۔ وہ اس میں جوش و خروش کے ساتھ جٹ کر وقت گزاری کرنے لگتے ہیں ۔ مہاراشٹر کے سابق گورنر بھگت سنگھ کوشیاری تو چونکہ سیاست کی دنیا سے آئے تھے اس لیے ان کی مضحکہ خیز بیانات سے بھی عوام لطف اندوز ہوتے تھے ۔ اب وہ سلسلہ تورک گیا ہے مگر سازشوں جال ہنوز بنا جارہا ہے اور اس میں اجیت پوار پھر ایک بار بصد شوق گرفتار ہو گئے ہیں۔
اجیت پوار نے حلف برداری کے بعد اپنی من پسند وزارت کے لیے ہاتھ پیر مارنے لگے ۔ یہ بات ان کے دوست اور دشمن سب جانتے تھے کہ وزارت داخلہ میں انہیں کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے ورنہ مہا وکاس اگاڑھی کی سرکار میں چاچا کے آشیرواد سے وہ قلمدان حاصل کرنا مشکل نہیں تھا ۔ این سی پی کووہ اہم عہد ہ انیل دیشمکھ کو سونپ دینا پڑا ۔ یہ مودی راج کا کمال ہے کہ مہا وکاس اگھاڑی سرکار کے دوران گلے تک بدعنوانی میں غرق اجیت پوار تو جیل جانے سے محفوظ و مامون رہے مگر بے قصور انیل دیشمکھ کو اور ان کے بعد بدعنوانی کے خلاف لڑنے والے نواب ملک کو ‘نہ کھاوں گا نہ کھانے دوں گا’ کا نعرہ لگانے والوں نے جیل بھیج دیا۔ ان میں ایک ضمانت پر رہا ہوگیا ہے اور دوسرا ہنوز اسپتال میں نظر بند ہے ۔ اجیت پوار کو نظم و نسق جیسے جھنجھٹ کے کاموں میں دلچسپی نہیں ہے اس لیے ان کی پہلی پسند وزارتِ خزانہ ہے ۔ وہ اپنی دریا دلی کے لیے خاصے مشہور ہیں ۔ اجیت پوار ‘ خوب کھاوں گا اور جی بھر کے کھانے دوں گا’کے نعرے پرعمل کرتے ہیں لیکن خزانہ صرف اپنے خاص خاص لوگوں پر ہی لٹاتے ہیں۔
ایکناتھ شندے کی بغاوت کا ایک جواز یہ پیش کیا گیا تھا کہ اجیت پوار صرف اپنے حامیوں کو سرکاری خزانے سے نوازتے تھے ۔ اس کی وجہ سے دیگر سیاسی جماعتوں کے لوگ محروم رہ جاتے تھے اور اپنے حلقۂ انتخاب میں عوامی فلاح و بہبود کا کام نہیں کرپاتے تھے ۔ ویسے عوام میں کسے دلچسپی ہے اصل بات یہ ہے کہ اپنی جیب نہیں بھرپاتے تھے لیکن یہ اعتراف کرتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے ۔ ایکناتھ شندے اور ان کے حامی اجیت پوار کو وزیر خزانہ بنائے جانے کے مخالف اسی لیے تھے کہ وہ انہیں بھگتنا پڑا تھا۔ اجیت پوار ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جن کو دبایا جاسکے اس لیے وہ کالو بالو کا تماشہ کرنے والے شندے اور فڈنویس کو چھوڑ کر سیدھے دہلی پہنچ گئے اور امیت شاہ کو رام کرلیا۔ ایکناتھ شندے کی ناراضی سے متعلق سنجے راوت نے ایک بیان میں کہا ہے چونکہ ان کی ضرورت ختم ہوگئی ہے اس لیے بی جے پی نے کہہ دیا ہے رہنا ہے تو رہو ورنہ راستہ ناپو۔ ایکناتھ شندے کو استعمال کرنے کے بعد کوڑے دان میں ڈالنے کی تیاری چل رہی ہے لیکن اگر بی جے پی اگلا انتخاب اپنے بل بوتے پر جیت جائے تو یہی سلوک اجیت پوار کے ساتھ بھی ہوگا۔ موجودہ دور کے ابن الوقت سیاستداں چونکہ قریبی فائدے کو سب کچھ سمجھتے ہیں اس لیے دوسروں کے انجام سے عبرت نہیں ۔
انتظارِ بسیار کے بعد امسال مئی میں ایکناتھ شندے اور ان کے ساتھ پارٹی سے نکلنے والے 16ارکان کی رکنیت سے متعلق فیصلہ کرنے کا اختیار عدالت عظمیٰ نے اسپیکر راہل نارویکر کو سونپ دیا۔ وہ گزشتہ تین ماہ سے اس پر چپیّ سادھے ہوئے ہیں۔ اس کے خلاف ادھو ٹھاکرے کے ساتھی پربھو نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو اس نے دو ہفتوں کے اندر فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس سے بھی کھلبلی مچ گئی ہے ۔ اس طرح بی جے پی کے پاس ایکناتھ شندے سے گلو خلاصی کا ایک نادر موقع ہاتھ آگیا ہے ۔ وہ اپنی پارٹی اسپیکر کے ذریعہ ایکناتھ شندے کو گھر بھیج کر اس بوجھ سے چھٹکارہ حاصل کر سکتی ہے ۔اپنی من پسند وزارت کو حاصل کرنے کے ایک ہفتہ بعد اجیت پوار اپنی چاچی سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئے ۔ اس پر لوگوں نے تعجب کا اظہار کیا تو کہا گیا کہ وہ بیمار ہیں اس لیے عیادت کی خاطر گئے تھے اور خاندانی رشتوں کے درمیان سیاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے ۔
یہ معاملہ ابھی رفع دفع بھی نہیں ہوا تھا کہ اگلے دن اجیت پوار اپنی پارٹی کے تمام ساتھی وزراء کے ساتھ شرد پوار کے دفتر بن بلائے پہنچ گئے اور ان کے پیر چھو کر آشیرواد حاصل کیا۔ شرد پوار خاموشی سے ان کی چکنی چپڑی باتیں سنتے رہے اور ایک لفظ نہیں کہا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سی چیز اجیت پوار کو اپنے چاچا کے چرنوں میں لے گئی ۔ اس دوران پچھلے اتوار کو اگر اجیت پوار کا عوامی جلسہ نہ ہوا ہوتا تو وہی نورا کشتی والی سازشی تھیوری چل پڑتی کہ شردپوار نے اپنی مرضی سے اجیت پوار کو بی جے پی میں بھیجا ہے ۔ممبئی میں باندرہ کے اندر منعقد ہونے والے خطاب عام میں اجیت پوار نے اپنے چاچا کو جو کھری کھوٹی سنائی ویسا تو کوئی اپنے دشمن سے بھی نہیں کہتا۔ اس لیے وہ امکان تو خارج ہوگیا۔ اب یہی وجہ رہ گئی چونکہ مطلوبہ تعداد میں ارکان اسمبلی ساتھ نہیں آسکے ۔ 36کے بجائے 29 ہی آئے اس لیے فی ا؛حال جو شندے کے ساتھ ہورہا وہی کل ان کے ساتھ بھی ہوگا اس لیے کچھ اور ارکان کو رجھا کر ساتھ لانے کی یہ ایک سعی تھی ۔ بظاہریہ توکامیاب نہیں ہوگی مگر اب اجیت پوار کے ساتھیوں کی گھر واپسی کا امکان پیدا ہوگیا ہے ۔اجیت پوار کی گہار اور شرد پوار کے انکار پر’ میں سندر ہوں’ نامی فلم کا یہ نغمہ صادق آتا ہے
مجھ کو ٹھنڈ لگ رہی ہے مجھ سے دور تو نہ جا
آگ دل میں لگی ہے میرے پاس تو نہ آ
اجیت پوار کو سرکار کے گرنے کا ڈر ستا رہا ہے ۔ ان کا دل بیٹھ رہا ہے اور پیر ٹھنڈے ہورہے ہیں۔ اس لیے وہ چاچا کے چرن چھو رہے ہیں جبکہ شرد پوار کے دل میں اپوزیشن اتحاد کی آگ لگی ہوئی ہے ۔ انہیں محسوس ہوگیا ہے کہ 2024کے اندر انڈیا کے اقتدار میں آنے کا امکان روشن ہوگیا ہے اس لیے وہ اجیت پوار سے دوری بنا رہے ہیں۔ اسٹیج کے اوپر تو اس کالو بالو کے تماشے سے عوام کو بہلایا جارہا ہے مگر پردے کے پیچھے ہاوسنگ منسٹر کے طور اپنی مدت کار کے خاتمہ پر دیویندر فڈنویس نے اڈانی کے دھاراوی پروجکٹ کو منظوری دے کر بڑا ہاتھ مارلیا۔ اس فیصلے سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یاتو انہیں یقین نہیں تھا کہ ان کے بعدقلمدان سنبھالنے والے وزیر مکانات اس پروجکٹ کو منظوری دیں گے یا وہ اس سے ملنے والی ملائی میں کسی کو شریک نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ وجہ جو بھی ہو پردے پیچھے ایک بڑا کھیلا ہوگیا۔ عوام کو بہلانے پھسلانے کے لیے بہت سارے تماشے ہیں مثلاً یونیفارم سول کوڈ وغیرہ وغیرہ ۔ عام لوگوں پر تو غالب کا یہ شعر صادق آتا ہے
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں


متعلقہ خبریں


مضامین
خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر