وجود

... loading ...

وجود

مہنگائی کا سیلاب اونچے درجے کا

منگل 25 جولائی 2023 مہنگائی کا سیلاب اونچے درجے کا

روہیل اکبر
۔۔۔۔
ایک طرف ملک میں حکومت کی آئینی مدت پوری ہورہی ہے تو دوسری طرف ملک میں مہنگائی کا طوفان اور سیلاب آیا ہوا ہے وہ بھی اونچے درجے کاجس پر کسی کی توجہ نہیں ہے بلکہ اس سے ہٹ کر آجکل جو نئی بات مارکیٹ میں پھیلائی جارہی ہے کہ یہ الیکشن اس وقت تک ہوتے نظر نہیں آرہے جب تک تحریک انصاف کے سربراہ کو سیاسی منظر نامے سے نہ ہٹا دیا جائے۔ ایک بات تو سب کو ماننی پڑے گی کہ ملک میں سیاسی استحکام کیلئے آئینی مدت کے اندر الیکشن کروانے پڑیں گے، خواہ جھرلو الیکشن ہی کیوں نہ ہوں۔ اس کے بغیر گزارا نہیں۔ رہی بات صاف اور شفاف الیکشن وہ ہماری تاریخ میں ہوئے ہیں نہ ہی ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں آج تک جتنے بھی الیکشن ہوئے سب پرسیاستدانوں کے تحفظات رہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے قائدین نے بھی انہیں تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا لیکن پھر جب کسی طرف سے اشارہ ہوتا توپھر وہی افراد اسمبلیوں میں بھی پہنچ جاتے اورحکومتی اقدامات کا حصہ بھی بنتے۔ لیکن الیکشن کبھی آگے پیچھے نہیں ہوئے ۔اس بار بھی پی ڈی ایم کی حکومت کو الیکشن ہر صورت کروانا ہی پڑیں گے۔
قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابی التواء کے لیے پنجاب اور کے پی کے کی طرح حربے استعمال کیے گئے تو بڑا سیاسی بحران جنم لے گا اورپھر حالات مزید خراب ہوجائیں گے اور ہم مزید بحرانوں کا شکار ہو جائیں گے۔ اس وقت بھی ہم شدید معاشی بحران کے شکار ہیں۔ غریب کی خودکشیوں نے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت کی یادیں تازہ کردی ہیں ۔آئے روز کوئی نہ کوئی شخص نہ صرف خود موت کو گلے لگا رہا ہے بلکہ اپنے بچوں کو بھی زہر دیکر انکی زندگیاں ختم کرکے اس بحران سے نکل رہا ہے۔ پچھلے چند دنوں سے سوشل میڈیا پر لوگوں کی خود کشیوں کی تصویریں وائرل ہورہی جنہیں دیکھ کر دکھ اور افسوس ہوتا ہے کہ یہ کیسے حکمران ہم پر مسلط کردیے گئے ہیں جو اپنے بچوں کا گرمیوں میں پسینہ بھی برداشت نہیں کرتے تو دوسری طرف قوم کے بچے بھوک سے سسک رہے اور علاج نہ ہونے پرمررہے ہیں۔ سیاستدانوں سمیت ہر طبقہ فکر کے لوگوں پر کرپشن کے ڈھیروں ڈھیر الزامات ہیں۔ لوٹ مار کی کہانیاں عام ہیں، پانی کی ٹینکیوں تک سے لوٹ مار کے کروڑوں روپے برآمد ہوچکے ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستانیوں کے پھیلے ہوئے اثاثے چیخ چیخ کر لٹیروں کی داستانیں سنارہے ہیں اور ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ عدالتیں اورادارے طاقتور کا احتساب نہیں کرسکے بلکہ ان اداروں میں بیٹھے ہوئے افراد نے بڑے سے بڑے کرپٹ کا ساتھ دیا وہ بھی اس لیے کہ ان سے مفادات حاصل کرسکیں یہی وجہ ہے آج تک کسی کی مہنگائی پر چیخ نکلی اور نہ ہی ٹیکسوں کی بھر مار پر کوئی ایکشن لیا گیا۔
ملک میں مہنگائی تو پہلے ہی عروج پر ہے اور اوپر سے حکومت نے جاتے جاتے بجلی کاٹیرف بڑھانے کے بعد آئی ایم ایف کے حکم پر گیس کی قیمتوں میں بھی 40فیصد اضافہ کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پربجلی مزید مہنگی کرنا حکومتی ناکامی اورمہنگائی بیروزگاری اورغربت وافلاس کے مارے عوام کے ساتھ سراسرظلم ہے۔ حکومت بجلی چوری اورلائن لاسز اورکرپشن کے خاتمے کی بجائے مسلسل بجلی مہنگی کرنے کے ساتھ بجلی صارفین کے بلوں میں نت نئے اوربھاری ٹیکسزلگاکر عوام سے زندہ رہنے کا حق بھی چھیننا چاہتی ہے بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ اوربھاری بلوں سے لوگ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ صرف ایک سال کے دوران عملے کی ملی بھگت سے 230ارب روپے کی بجلی چوری ہو چکی ہے۔ مٹھی بھر حکمران ٹولے اورکرپٹ اشرافیہ نے اپنی عیاشیاں بند کرنے کی بجائے غربت ،ظلم وناانصافیوں کی چکی میں پسنے والے عوام کو قربانی کا بکرا سمجھ رکھا ہے۔ کمرتوڑمہنگائی نے عوام کی زندگی اجیرن جبکہ حکمرانوں وبیوروکریسی کی عیاشیاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی ہیں۔ عوام دووقت کی روٹی کے لیے پریشان حال تو دوسری جانب حکمرانوں کے کتے وبلیاں بھی دووھ گوشت کھارہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکمران غریبوں کو لوٹنے کی بجائے اپنی مراعات اور غیرترقیاتی اخراجات ختم کرتے خاص کر پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت جن وعدوں پر قائم ہوئی تھی ان میں سے ایک بھی پورا کردیتے تو شائد عوام کو سکھ کا سانس آجاتا مگر مہنگائی کے خلاف ریلیاں نکالنے والوں نے اقتدار ملتے ہی مہنگائی کے جن کو بوتل سے نکال دیا اور سب ہی نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ملک میں چینی، آٹامافیا اربوں کما رہے ہیں اورغریب کو دووقت کا کھانا دستیاب نہیں۔ بیڈگورننس، کرپشن اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ دوفیصد حکمران اشرافیہ وسائل پر قابض ہیں۔ چند خاندان قوم کی تقدیر کا فیصلہ بند کمروں، واشنگٹن، دبئی اور لندن میں کرتے ہیں۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کو عوام کی مشکلات کا حقیقی معنوں میں ادراک نہیں ہے۔ مگر میں سمجھتا ہوں حکمران سیاسی لوگ ہیں۔ لوگوں سے ملنا جلنا بھی ہے انہیں ہر چیز کا علم ہے لیکن بے حس بنے ہوئے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام بدحال رہے اور مہنگائی کا نہ رکنے والے سلسلہ یونہی عوام کی چیخیں نکالتا رہے۔ تاکہ انہیں ہوش ہی نہ رہے عوام اپنی دال روٹی کے چکر میں رہے اور حکمران طبقہ اپنی موج مستیوں میں گم رہے۔ اس وقت غریب انسان جتنا گھر کا کرایہ دے رہا ہے۔ اس سے زیادہ تو بجلی کے بل آرہے ہیں خاص کر بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ نے غریب عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔ حکمرانوں سے لوڈ شیڈنگ کا عذاب تو ختم نہ ہو سکا۔ البتہ ہر پندرہ بیس دن بعد غریب عوام کو بجلی کا جھٹکا ضروردیاجاتا ہے جس سے بالواسطہ اور بلا واسطہ مہنگائی کا اونچے درجے کا سیلاب آیا ہے جس کی تندو تیز اور ظالم لہروں میں بے بس اور مجبور غریب عوام خس وخاشاک کی طرح بہتے جا رہے ہیں۔ حکمران اپنی عیاشیوں اور غلط حکمت عملی کے باعث ہونے والے خسارے کو عوام کا خون نچوڑ کر پورا کرتے ہیں۔ مہنگائی، بے روز گاری، رشوت ستانی اور جرائم کی شرح میں اضافہ اور امن وامان کی خوفناک صورتحال نے غریب عوام کا جینا پہلے ہی دوبھر کر رکھا ہے۔ ایسے میں ان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے مصائب اور تکالیف کم کرنے کی بجائے آئے روز بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا ظالمانہ عمل مسلسل جاری ہے جوکہ غریب عوام پر انتہائی ظلم ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ غریب عوام کے درد اور مسائل کو سمجھنے والا اور ان کے دکھوں کا مداوا کرنیوالا کوئی نہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر