... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جی نہیں، طاقت ور باقی نہیںرہتا، بآلاخر وہ بھی مر جاتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں انگریز فلسفی ہربرٹ اسپنسر نے جب فطری چناؤ کے اُصول پر غور کیا تو وہ خود نوامیسِ فطرت کی سرگوشی نہ سن سکا۔ کچھ بھی باقی نہیں رہتا۔ سلطنتیں باقی نہیں رہتیں، دولت مند بھکاری بن جاتے ہیں، پہلوان ہی دنگل ہارتے ہیں۔ پہلا ، ہمیشہ پہلے نمبر پر نہیں رہتا۔ چنانچہ طاقت ور کی فطرت کو طاقت کی دوامی حاصل نہیں، گراؤٹ دنیا کا مقدر ہے۔ دنیا کی ہر شے وقت کے ساتھ پرانے پن کی شکار ہونے لگتی ہے۔ جھریاں انسانوں کے چہروں پر نہیں ریاست ، اجتماعیت ، نظام، تمدن، تہذیب ، ترقی اور سماج کے چہروں پر بھی نمایاں ہوتی ہیں۔ ابن خلدون نے نظریۂ تاریخ میں انسانوں کی طرح اجتماعیت اورریاست کی بھی عمر کے اثرات کا جائزہ لیا۔دائمی کتابِ ہدایت نے اُصول واضح کردیا کہ
روئے زمیں پر ہر شے فانی ہے،باقی رہے گا پروردگار کا چہرہ، جو شان اور عظمت والا ہے(سورہ رحمن آیات 26، 27)۔
ہربرٹ اسپنسر کے” فطری چناؤ” یعنی طاقت ور باقی رہتا ہے، کے اُصول سے کیا برآمد ہوتا ہے۔ گاہے تجزیہ کیا جائے تو یہ غنڈوں کا مقابلہ غنڈوں سے کراتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے مقابل ایک جیسوں کو کھڑا کردیتا ہے۔ سماج جن سے عفریتوں کی منڈلی بن جاتا ہے۔ بستروں میں ہاتھی کودنے لگتے ہیں اور شیر شہروں کو بھی جنگل بنا دیتے ہیں۔ انگریز فلسفی کے فطری چناؤ کا اُصول دراصل ایک غیر فطری سماج کو تشکیل دیتا ہے۔ یہی اُصول دراصل جس کی ”لاٹھی اس کی بھینس ”کی تشریح کرتا ہے۔ اورسماج کو” جنگل کے قانون” کی بناؤٹ دیتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارا سماج اب اس کی ہو بہو تصویر بنتا جارہا ہے۔ جہاں طاقت ور کے باقی رہنے کا اُصول عام اخلاقی اقدارتو کجا مذہبی تعلیم کو بھی نگلتا جارہا ہے۔ بہت جلد یہ معاشرہ اپنے انسانی ہونے کا یقین دلانے کی سکت بھی کھو دے گا۔
وطن عزیز کو اب کم وبیش ٧٦ سال بیتتے ہیں۔ یہ تجربات کے تختۂ مشق پر مشقِ ستم بنا ہوا ہے۔آج تک یہاں جتنے بھی تجربات ہوئے وہ تمام کے تمام سماج کو جنگل بنا دینے کے قریب لے جانے والے ثابت ہوئے۔ جہاں انگریز فلسفی ہر برٹ اسپنسر کے” فطری چناؤ” کے قانون اور طاقت ور کی بقاکے ذہن نے ایک ایسا مصنوعی اور غیر فطری سیاسی سماج پیدا کردیا جہاں ہر چیز پر غالب قدر طاقت اور دولت کا حصول بن گیا ہے۔ ہر غنڈہ اسے اپنی بقا کا راز سمجھتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں ہی پاکستان میں کسی بھی مجرم کو ہر سزا سے بچا سکتی ہے۔ چنانچہ معاشرے میں جرائم سے بچنے کے بجائے طاقت اور دولت پانے کے مجرمانہ ذہن نے ہر سطح پر پرورش پانا شروع کردیا ہے۔ ایک افسر سے لے کر ایک عالم دین تک ایک عام شہری سے لے کر اشرافیہ کے خاندانوں تک، انگریزی ملبوس سے وردی پوش تک سب یکساں سوچ کے ساتھ طاقت اور دولت کے حصول میں مجرمانہ طریقوں کے ساتھ جُتے ہیں۔ اور یہ اب سماج میں کسی بھی سطح پر کوئی عیب نہیں رہا۔ ایسا کیوں کر ہوا؟ وہی غنڈوں کے چناؤ کی روش اس کا موجب بنی۔
سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور سماجی سطح پر کوئی بھی دائرہ ایسا نہیں، جہاں ہم نے کوئی فطری بہاؤ پیدا کیاہو۔ ایک مسلسل ناکامی کے باوجود پرانی روش اور عادتیں ابھی تک برقرار ہیں۔ریاست اور سماج کے تمام دائرے تنقیح طلب ہیں۔ مگر ذرا سیاست کو پہلے لے لیں۔ کوئی انکار نہیں کرتا کہ سیاست ، سیاست دانوں کا حق نہیں۔ مگر یہاں سیاست دان کہاں ہیں؟ سیاسی جماعتیں کہاں ہیں؟ سیاست اور سیاسی جماعتوں کے لیے درکار ضروری اور حقیقی ماحول کہاں ہے؟ درحقیقت ایک مصنوعی سیاسی ماحول میں سیاست دانوں سے لے کر سیاسی جماعتوں تک ہر چیز غیر حقیقی اور جعل سازی پر مبنی ہے۔ سیاست دان کسی حقیقی جمہوری مشق یا تجرباتی منہج سے نہیں اُبھرتے۔ یہ مخصوص ضرورتوں کے تحت پیدا کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ یہ کبھی حقیقی روپ نہیں دھار پاتے۔ سہاروں اور بے ساکھیوں پر قائم سیاست دانوں کی کوئی بھی اخلاقی بنیاد نہیں۔ وہ طاقت اور دولت کی اسی نفسیات کے ساتھ اُبھرتے ہیں۔ اور انہیں مخصوص ضرورتوں کے تحت چُنا جاتا ہے۔ ان کے چناؤ میں جمہوریت کے انتخابی طریقہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ درحقیقت پاکستان میں جمہوریتیں بھی ایسی ہی مسلط کی گئی ہیں جیسے مارشل لاء مسلط کیے گئے۔ دونوں ہی آئینی اور اخلاقی بنیادوں سے تہی دامن تھے۔ ہم جس جمہوریت کے شکار ہیں، وہ جمہوری ثقافت کی آئینہ دار نہیں۔ بلکہ غنڈوں کے چناؤ کا ذریعہ ہے۔ جنہیں چُناؤ سے بھی بہت پہلے چُن لیا جاتا ہے۔ یہ ماحول بتدریج پیدا ہوا اور اب ہماری سیاسی ثقافت کا حصہ بن چکا ہے۔ کراچی کی مثال لے لیں۔ جنرل ضیاء الحق نے یہاں پیپلزپارٹی کے لیے پہلے مذہبی جماعتوںکو اُبھارنے کی کوشش کی پھر خود ہی مذہبی جماعتوں کے خلاف لسانی جماعتوں کو پالنے لگے۔اس درمیان ایک فرقہ وارانہ دور بھی گزرا۔ لسانی جماعتیں جب عفریت کا روپ دھارنے لگیں تو ان کے اندر توڑ پھوڑ شروع کی گئی۔ یہ سب کیا تھا؟ پیپلز پارٹی کے خلاف مذہبی جماعتیں ایک ” توازن” پیدا کرنے کے لیے طاقت ور بنائی گئیں۔ تواز ن کی تشریح طاقت ور حلقوں کی خانہ ساز تھی۔یہ بجائے خود کوئی حقیقی تشریح نہیں تھی۔یہ دراصل غنڈے کے مقابل غنڈے کو پروان چڑھانے کا ایک منظم عمل تھا۔ پھر مذہبی جماعتوں کے خلاف لسانی قوتوں کو ایک توازن ساز قوت کے طور پر اُبھارا گیا۔یہ سوچنے والوں نے کسی بھی سطح پر نہیں سوچا کہ پاکستانی معاشرے کے اندر پائی جانے والی خلیجوںاور متنازع منطقوں میں اس روش نے وطن عزیز کا کتنا خانہ خراب کرنا ہے۔ اُصولی طور پر یہاں متنازع منطقوں اور متحارب فریقوں کے درمیان ربط قائم کرنے والے ٹھوس اور فطری محرکات پر دھیان دینے کی ضرورت تھی۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔ ذرا اس سوچ کی بہیمت کا اندازا تو لگائیں کہ جو مختلف قوموں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کو اُبھار کر سیاسی بساط بچھانے پر شاد کام رہتی ہو۔ جو معاشرہ کثیر اللسانی ، کثیرالقومی، کثیر الفکری اور کثیرالتہذیبی ہو وہاں ریاست کی مرکزی قوت کے لیے یہ قومی فریضہ بن جاتا ہے کہ وہ” مشترکات” کو مرکزی قوت بنانے کی کوشش کرے، نہ کہ مختلف النوع اور متنازع فیہ امور کے اندر اپنی بقا ڈھونڈے۔ مگر پاکستان میں اول روز سے مختلف قوموں یا متحارب قوتوں کے خلاف مختلف محاذوں کو گرما کر قوت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس خطرناک رجحان نے ہر فریق کے لیے پاکستان کی اہمیت کو دن بہ دن کم کیا۔ یہ مسئلہ قومی سطح پر زیر غور لانے کے بجائے اِسے غداری اور حب الوطنی کی دل دہلا دینے والی تشریحات کے ذریعے خوف پیدا کرنے کی مشق بنا دیا گیا۔ چنانچہ رفتہ رفتہ اس کا معکوس اثر قومی سطح پر مختلف گروہوں پر یہ پڑا کہ اُن کے اندر اِن الزامات کی سنگینی بھی ختم ہو کر رہ گئی۔ اب اس قسم کے الزامات کی کوئی بھی پروا نہیںکرتا۔
قومی سطح پر حساس معاملات کو برتنے کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اسے کم سے کم موضوع بنا کر متفقہ رکھا جاتا ہے۔ مگر ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اِسے ایک ہتھیار کے طور پر بار بار استعمال کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان حساس معاملات (جو واقعتا ہیں بھی) کی حساسیت ہی ختم ہو کررہ جاتی ہے۔ بحث کی یہ ایک ضمنی شاہراہ ہے۔ واپس پلٹ آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے لیے مذہبی جماعتیں، مذہبی جماعتوں کے لیے لسانی جماعتیں، لسانی جماعتوں کے لیے جماعتوں کے اندر جماعتیں قائم کرنے کے اس کھیل میں ریاست کا کبھی بھی یہ تناظر نہیں رہا کہ اس میں صحیح کیا ہے اور غلط کیا؟ اس کے بالکل برعکس طاقت ور حلقوں کا واحد تناظر یہ رہا ہے کہ ہمارے لیے ابھی فائدہ مند کیا ہے؟چنانچہ وقتی مفادات کے تحت پروان چڑھائی گئی جماعتیں اور شخصیات کچھ عرصے کے بعد غیر موثر ہی نہیں بوجھ بھی بن جاتی ہیں۔ یہ معاملہ آج عمران خان کے ساتھ نہیں ہو رہا۔ ماضی میں بے نظیر بھٹو دھڑلے سے ”سیکورٹی رسک” قرار دی گئی۔ نوازشریف کے بھارت کے ساتھ تعلقات کی سرگوشیاں سنائی دیں۔ زرداری کے خلاف بھی کوئی کم افسانے مشہور نہیںہوئے۔ الطاف حسین تو ابھی کل کی بات ہے، کیسے اثاثے سے بوجھ بنا۔ پھر الطاف حسین کی 22اگست کی تقریر کے بعد وہ ایک وطن دشمن کے طور پر تسلیم کیا گیا۔ مگر پھر بھی یہ دھڑکا ہمیشہ لگا رہتا ہے کہ کب کراچی کی سیاسی ضرورتوں میں اُس کا منہ کھول دیا جائے؟ مگر اسی ایم کیو ایم کو لے لیجیے! جب یہ قابو سے باہر ہوئی تو حقیقی اُبھری ۔ پھر حقیقی کے جڑ پکڑنے سے پہلے ہی ایم کیو ایم اور الطاف حسین سے معاملات طے ہوگئے تو اُسے اپنی موت آپ مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔ مگر الطاف حسین کے خلاف ہر چند سال کے بعد مایوسی کا ایک جھکڑ چلتا۔اور دوبارہ اس کے خلاف کسی قوت کو اُبھارنے پر غور کیا جاتا۔ پاک سرزمین پارٹی کے مصطفی کمال بھی ایسی ہی کسی ضرورت کے تحت اُبھارے گئے مگر اُنہیں تین کروڑ سے زائد کے شہر کراچی میں چند سو لوگوں کی بھی حقیقی حمایت نہیں مل سکی۔ مگر کھیل ابھی تک جاری ہے۔اس کھیل کی پیچیدگی یہ ہے کہ الطاف حسین کسی کے خلاف کھڑے کیے گئے، پھر الطاف حسین کے خلاف لوگ کھڑے کرنے پڑے۔ پھر جنہیں الطاف حسین کے خلاف کھڑا کیا گیا اُن کے خلاف بھی لوگ کھڑے کرنے پڑے۔ یہاں تک کہ تحریک انصاف نے کراچی کے دروبام کو ہلایا۔ اب تحریک انصاف کے خلاف کچھ قوتوں کو اُبھارنے کی ضرورت آ پڑی ہے۔ اگر اس میں کوئی مشکوک کامیابی ملی تو تاریخ کے اس منحوس چکر میں آج اُبھارے گئے لوگوں کے خلاف چند سال بعد ہمیں مزید کچھ لوگوں کی ضرورت پڑے گی جو ان کے خلاف بروئے کار آسکیں۔تاریخ کی یہ گھمن گھیری ہمیں غنڈوں میں سے غنڈوںکے چناؤ کے علاوہ کوئی اور راستا نہیں دیتی؟
یہی کچھ ملک کے باقی صوبوں میں بھی ہو رہا ہے۔ مگر تابکے؟؟نوازشریف کو چھوڑئیے، وہ کل ایسی ہی کسی ضرورت کے تحت پنجاب میں جنرل جیلانی کے پنگھوڑے میں پالے گئے، پھر جنرل ضیاء نے اُنہیںاپنی عمر دینے کی دعا کی۔ وہی نوازشریف بعد کے جرنیلوں سے جھگڑتے رہے اور اپنا ماضی فراموش کرکے خود کو ایک خود مختار سیاست دان سمجھنے لگے۔ عمران خان اُن کے مقابل اُبھارے گئے۔ اب عمران خان کے مقابل نوازشریف کی جماعت کی ضرورت ہے۔ دائرے کے اس کھیل میں کب نوازشریف کے خلاف پھر کسی کی ضرورت آ پڑے؟ سوال یہ ہے کہ یہ کھیل یوں ہی جاری رہا تو یہ ریاست کب تک اس بوجھ کو اُٹھاتی رہے گی؟ ابن خلدون کے مطابق تو ریاست کی بھی
ایک عمر ہوتی ہے اور وہ بھی بوڑھی ہو جاتی ہے۔
٭٭٭