... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مہنگائی بڑھتی ہے تو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے عام لوگوں کو قرضے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔قرض لینے والے کو یہ امید ہوتی ہے کہ شاید آنے والے وقت میں اس کے لیے آسانی ہوجائے گی اور وہ قرض کی رقم اتار لے گالیکن وقت گزرنے کے بعد اس کو احساس ہوتا ہے کہ وہ قرض کی ایک چھوٹی رقم سے بڑے قرض کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔پرانے وقتوں میں رشتہ دار، عزیزواقارب یا دوست جہاں تک ممکن ہوتا تھا ایک دوسرے کی مالی مدد کردیا کرتے تھے لیکن جوں جوں دور جدید ہوتا جارہا ہے ،ہر کسی کو دوسرے کے دکھ درد کا احساس کم ہوتا جارہا ہے ،شاید مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں ۔عام لوگوں کی انہی مشکلات اور مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آج کل سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل قرضے فراہم کرنے کا کاروبار تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کسی بھی سوشل میڈیا پیچ کا وزٹ کرکے دیکھ لیں ،قرضے فراہم کرنے والی ڈیجیٹل ایپس کے کچھ ایسے دلفریب اشتہار ات باربارسامنے آجاتے ہیں جنھیںصارفین کے لیے نظر انداز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
گزشتہ سال سے سوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے آن لائن قرضے فراہم کرنے والی ایپس کے اشتہارات متعارف کرائے جارہے ہیں جن میں ضرورت مندوں کوضمانتی اوردستاویزی کارروائی کے بغیر فوری اور آسان طریقہ کار کے تحت ایک لاکھ روپے تک کا قرضہ گھر بیٹھے فراہم کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ویسے تو انٹرنیٹ استعمال کرنے والا کوئی بھی فرداب سادہ لوح نہیں کہلاسکتا لیکن کہتے ہیں نہ کہ ضرورت مند اپنے مسائل کی وجہ سے سوچنے سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے ایسے افراد اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ڈیجیٹل قرضے دینے والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اورجب وہ ایک مرتبہ آن لائن ایپ کے ذریعے قرضے لے لیتے ہیں توپھر بعد میں انھیں پتہ چلتا ہے کہ 50ہزار کا قرض لے کر وہ لاکھوں روپے کے مقروض ہوچکے ہیں۔ عام طور پر بینک جو قرضے صارفین کو فراہم کرتے ہیں ان پر شرح سود سالانہ کے حساب سے لی جاتی ہے اور ایسے قرضے اسٹیٹ بینک کے طے کردہ قواعدوضوابط کے تحت بینک صارفین کو فراہم کیے جاتے ہیں لیکن آن لائن یا ڈیجیٹل ایپس کے ذریعے فراہم کیے جانے والے قرضوں پراپنی مرضی کے قواعد وضوابط لاگو کیے جاتے ہیں اور قرض لینے والے صارفین سے سالانہ کے بجائے شرح سود روزانہ کی بنیاد پر وصول کی جاتی ہے اس طرح اگر دیکھا جائے تو سودکی سالانہ شرح 200سے300گنا تک بن جاتی ہے۔
آن لائن یا ڈیجیٹل ایپس کے ذریعے قرض لینے والا صارف اس وقت خون کے آنسو روتا ہے جب اس کا قرض ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں گاؤں میں ایک امیر بنیا ہوا کرتا تھا جوغریب کسانوں کو قرض دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا لیکن بدلے میں وہ ان سے ان کی زمینیں رہن رکھوالیتا تھا ۔کسان یہ سوچ کر قرض لے لیتے تھے کہ اگلی فصل پر وہ بنیے کا قرض ادا کرکے اپنی زمین چھڑوا لیں گے لیکن بنیئے کا قرض چکاتے چکاتے کسانوں کی زمینیں بک جاتیںتھیں لیکن قرض ادا نہ ہوپاتا تھا جس کی وجہ سے مقروض کسانوں کو اپنے بچے بنیئے کے آگے گروی رکھنے پڑتے تھے۔بنیا گروی رکھے بچوں سے مفت محنت مزدوری کروا کر پیسہ کماتا اور یہ سلسلہ نسل در نسل یونہی چلتا رہتا لیکن غریب کسانوں کاقرض ادا نہ ہوپاتا تھا۔آن لائن یا ڈیجیٹل قرض فراہم کرنے والے جدید دور کے وہی بنیئے ہیں جو لوگوں کی ضرورتوں اورمجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر انھیں ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں جس میں سے مر کرہی نکلا جاسکتاہے۔حال ہی میں انہی ڈیجیٹل قرضوں کی وجہ سے راولپنڈی کے ایک شخص نے خودکشی کرلی تھی۔دو بچوں کے بے روزگار باپ مسعود نے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایک کمپنی سے 13ہزار قرض لیا تومقررہ تاریخ پر قرض نہ چکانے پر کمپنی نے سود سمیت 50ہزار رقم کی واپسی کا مطالبہ شروع کردیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جب کمپنی کی جانب سے مسعود کودھمکیاں ملنے لگیں تواس نے قرض چکانے کے لیے ایک دوسری ڈیجیٹل کمپنی سے قرض لے لیا اس طرح مسعود لاکھوں روپے کا مقروض ہوگیا لیکن قرض کی رقم کم ہونے کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے لگی۔آخرڈیجیٹل ایپس کمپنیوں کی جانب سے گھریلو تصاویراور موبائل ڈیٹا لیک کرنے کے دھمکیوں سے تنگ آکر مسعود نے خودکشی کرلی ۔مسعود کی طرح نہ جانے کتنے افراد ابھی بھی ایسے ہیں جو ان ڈیجیٹل کمپنیوں کے ہتھے چڑھنے کے بعد خود کشی کا سوچ رہے ہوں گے۔اس لیے لوگوں کی جانیں لینے والی ان ڈیجیٹل ایپس کا فوری سدباب نہ کیا گیا تونہ جانے کتنے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
٭٭٭