وجود

... loading ...

وجود

انسانی جانیں لینے والی ڈیجیٹل ایپس

پیر 24 جولائی 2023 انسانی جانیں لینے والی ڈیجیٹل ایپس

ڈاکٹر جمشید نظر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مہنگائی بڑھتی ہے تو اخراجات کو پورا کرنے کے لئے عام لوگوں کو قرضے کا سہارا لینا پڑتا ہے۔قرض لینے والے کو یہ امید ہوتی ہے کہ شاید آنے والے وقت میں اس کے لیے آسانی ہوجائے گی اور وہ قرض کی رقم اتار لے گالیکن وقت گزرنے کے بعد اس کو احساس ہوتا ہے کہ وہ قرض کی ایک چھوٹی رقم سے بڑے قرض کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔پرانے وقتوں میں رشتہ دار، عزیزواقارب یا دوست جہاں تک ممکن ہوتا تھا ایک دوسرے کی مالی مدد کردیا کرتے تھے لیکن جوں جوں دور جدید ہوتا جارہا ہے ،ہر کسی کو دوسرے کے دکھ درد کا احساس کم ہوتا جارہا ہے ،شاید مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے سے قاصر ہوچکے ہیں ۔عام لوگوں کی انہی مشکلات اور مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آج کل سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل قرضے فراہم کرنے کا کاروبار تیزی سے پھیل رہا ہے۔ کسی بھی سوشل میڈیا پیچ کا وزٹ کرکے دیکھ لیں ،قرضے فراہم کرنے والی ڈیجیٹل ایپس کے کچھ ایسے دلفریب اشتہار ات باربارسامنے آجاتے ہیں جنھیںصارفین کے لیے نظر انداز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔
گزشتہ سال سے سوشل میڈیا پر بڑی تیزی سے آن لائن قرضے فراہم کرنے والی ایپس کے اشتہارات متعارف کرائے جارہے ہیں جن میں ضرورت مندوں کوضمانتی اوردستاویزی کارروائی کے بغیر فوری اور آسان طریقہ کار کے تحت ایک لاکھ روپے تک کا قرضہ گھر بیٹھے فراہم کرنے کی پیشکش کی جاتی ہے۔ویسے تو انٹرنیٹ استعمال کرنے والا کوئی بھی فرداب سادہ لوح نہیں کہلاسکتا لیکن کہتے ہیں نہ کہ ضرورت مند اپنے مسائل کی وجہ سے سوچنے سمجھنے سے محروم ہوجاتا ہے ایسے افراد اپنی گھریلو ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ڈیجیٹل قرضے دینے والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اورجب وہ ایک مرتبہ آن لائن ایپ کے ذریعے قرضے لے لیتے ہیں توپھر بعد میں انھیں پتہ چلتا ہے کہ 50ہزار کا قرض لے کر وہ لاکھوں روپے کے مقروض ہوچکے ہیں۔ عام طور پر بینک جو قرضے صارفین کو فراہم کرتے ہیں ان پر شرح سود سالانہ کے حساب سے لی جاتی ہے اور ایسے قرضے اسٹیٹ بینک کے طے کردہ قواعدوضوابط کے تحت بینک صارفین کو فراہم کیے جاتے ہیں لیکن آن لائن یا ڈیجیٹل ایپس کے ذریعے فراہم کیے جانے والے قرضوں پراپنی مرضی کے قواعد وضوابط لاگو کیے جاتے ہیں اور قرض لینے والے صارفین سے سالانہ کے بجائے شرح سود روزانہ کی بنیاد پر وصول کی جاتی ہے اس طرح اگر دیکھا جائے تو سودکی سالانہ شرح 200سے300گنا تک بن جاتی ہے۔
آن لائن یا ڈیجیٹل ایپس کے ذریعے قرض لینے والا صارف اس وقت خون کے آنسو روتا ہے جب اس کا قرض ختم ہونے کی بجائے بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ پرانے وقتوں میں گاؤں میں ایک امیر بنیا ہوا کرتا تھا جوغریب کسانوں کو قرض دینے کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا لیکن بدلے میں وہ ان سے ان کی زمینیں رہن رکھوالیتا تھا ۔کسان یہ سوچ کر قرض لے لیتے تھے کہ اگلی فصل پر وہ بنیے کا قرض ادا کرکے اپنی زمین چھڑوا لیں گے لیکن بنیئے کا قرض چکاتے چکاتے کسانوں کی زمینیں بک جاتیںتھیں لیکن قرض ادا نہ ہوپاتا تھا جس کی وجہ سے مقروض کسانوں کو اپنے بچے بنیئے کے آگے گروی رکھنے پڑتے تھے۔بنیا گروی رکھے بچوں سے مفت محنت مزدوری کروا کر پیسہ کماتا اور یہ سلسلہ نسل در نسل یونہی چلتا رہتا لیکن غریب کسانوں کاقرض ادا نہ ہوپاتا تھا۔آن لائن یا ڈیجیٹل قرض فراہم کرنے والے جدید دور کے وہی بنیئے ہیں جو لوگوں کی ضرورتوں اورمجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر انھیں ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں جس میں سے مر کرہی نکلا جاسکتاہے۔حال ہی میں انہی ڈیجیٹل قرضوں کی وجہ سے راولپنڈی کے ایک شخص نے خودکشی کرلی تھی۔دو بچوں کے بے روزگار باپ مسعود نے گھریلو اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایک کمپنی سے 13ہزار قرض لیا تومقررہ تاریخ پر قرض نہ چکانے پر کمپنی نے سود سمیت 50ہزار رقم کی واپسی کا مطالبہ شروع کردیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق جب کمپنی کی جانب سے مسعود کودھمکیاں ملنے لگیں تواس نے قرض چکانے کے لیے ایک دوسری ڈیجیٹل کمپنی سے قرض لے لیا اس طرح مسعود لاکھوں روپے کا مقروض ہوگیا لیکن قرض کی رقم کم ہونے کی بجائے روزانہ کی بنیاد پر بڑھنے لگی۔آخرڈیجیٹل ایپس کمپنیوں کی جانب سے گھریلو تصاویراور موبائل ڈیٹا لیک کرنے کے دھمکیوں سے تنگ آکر مسعود نے خودکشی کرلی ۔مسعود کی طرح نہ جانے کتنے افراد ابھی بھی ایسے ہیں جو ان ڈیجیٹل کمپنیوں کے ہتھے چڑھنے کے بعد خود کشی کا سوچ رہے ہوں گے۔اس لیے لوگوں کی جانیں لینے والی ان ڈیجیٹل ایپس کا فوری سدباب نہ کیا گیا تونہ جانے کتنے افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر