... loading ...
حمید اللہ بھٹی
زندہ قومیں خود مختاری کے لیے جانی و مالی قربانیوں سے بھی دریغ نہیں کرتیں تاکہ فیصلے بیرونی ہدایات کی بجائے آزادانہ اور بغیر کسی دبائو کے کر سکیں افغانستان بھی دودہائیوں پر محیط ایک طویل جدوجہد کے بعد آزادی وخود مختاری کی منزل حاصل کر چکا ہے اِس منزل کو حاصل کرنے میں اگر افغانوں کی قربانیوں اور جدوجہد کاعمل دخل ہے تویہ بھی حقیقت ہے کہ اِس منزل کے حصول میں پاکستانی دلچسپی کا بھی کلیدی قردار ہے اگر پاکستان اپنے ہمسایہ ملک کی آزادی وخود مختاری میں دلچسپی نہ لیتا تو آج بھی غیر ملکی افواج دندناتی پھر رہی ہوتیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ افغان قوم اگلے ماہ آزادی کی پھر سالگرہ منانے جارہی ہے اب وقت ہے کہ طالبان قیادت بلوغت کا مظاہرہ کرے اور نہ صرف علاقائی سلامتی کے لیے دہشت گردوں کا خاتمہ ناگزیر سمجھے بلکہ اِس کے لیے عملی طور پرکوشش بھی کرے مگرامن کولاحق خطرات کے خاتمے کے لیے جب طالبان کاطرزِ عمل دیکھتے ہیں توخاصی مایوسی ہوتی ہے۔ وہ اقتدارمیں آنے کے باوجوداب تک نہ تو ملک میں امن کا قیام یقینی بنا سکے ہیں اورنہ ہی اپنی سرزمین ہمسایہ ممالک کی سلامتی کو خطرہ بننے والے عناصر سے پاک کر سکے ہیں جس سے اُن کی ناکامی کا تاثر جنم لینے لگا ہے ۔
دوحہ معاہدے کے مطابق طالبان اپنی سرزمین کسی ہمسایہ ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اب بھی اِس کا اقرارتو کرتے اور اپنی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی ایسی خبروں کو جھٹلاتے ہیں کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی نے پناہ گاہیں بنارکھی ہیں مگر ایسے شواہد منظرِ عام پر آچکے ہیں کہ افغانستان آج بھی دہشت گرد عناصر کاایسا محفوظ مرکز ہے جہاں ایسے کیمپ ہیں جو آزادانہ اور بلا خوف وخطر تربیتی کام کرنے سمیت سرحد پار اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔ کوئی راز نہیں رہا کہ مفتی احمدشاہ کی نگرانی میں خودکش بمباروں کاایک تربیتی کیمپ خوست میں مصروفِ عمل ہے۔ حافظ گل بہادر جیسے سرحد پار کارروائیوں میں مصروف شخص سے مفتی احمد شاہ کے مراسم ہیں۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے قریبی اور بااعتماد دوست اور ایک دوسرے کی کارروائیوں کے سہولت کار ہیں۔ کنٹرجیسا علاقہ جو پاکستان کی سرحد سے محض سواتین کلومیٹر دورہے، میں بھی ایک سے زائد خود کش بمبار وں کوتربیت دینے کے مراکزموجود ہیں۔ جہاں اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنانے کی تکنیک سکھائی جاتی ہیں۔ اِس کا سرپرست دہشت گرد کمانڈرمولا صابر عرف سنگین جیسا بدنام زمانہ شخص ہے۔ ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ نورولی محسود ٹی ٹی پی سربراہ نے برمل میں دہشت گردوں کے ایک بڑے تربیتی کیمپ کا دورہ کیا جہاں اُن والہانہ خرمقدم کیا گیا۔
پاکستان نے ہمیشہ برادر ہمسایہ کی آزادی ،خودمختاری اور خوشحالی میں تعاون کیا ہے لیکن ہمسائے کی طرف سے ایسے پیغامات کی توقعات ہنوز پوری نہیں ہو سکیں۔ اب تو پاکستان کی عسکری وسیاسی قیادت کی طرف سے صاف کہا جا نے لگا ہے کہ علاقائی سلامتی کو لاحق خطرات میں ملوث عناصر افغان سرزمین استعمال کرتے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ ہر بار تردید کرنے کی بجائے طالبان جائزہ لیں کہ خرابی کہاں ہے ؟اور پھر فیصلہ کُن کارروائی بھی کریں اِس طرح نہ صرف پاک افغان تعلقات میں بداعتمادی کا خاتمہ ہو گا بلکہ افغان امن کی بحالی میں بھی مدد مل سکتی ہے ۔
فاٹا،کے پی کے اور بلوچستان میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ کے دوران کئی ایسے واقعات ہوئے جن میں پاکستان کی عسکری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ اِس دوران کئی شہادتیں ہوئیںپھر بھی پاکستان نے صبروتحمل کا مظاہرہ کیااور افغان قیادت کی توجہ امن دشمن عناصر کی طرف مبذول کرائی ہے لیکن افغان قیادت کا رویہ ہمدرددانہ اور دوستانہ نہیں۔ حالانکہ پاکستان کئی عشروں سے لاکھوں افغانوں کی بے لوث میزبانی کررہا ہے۔ اِس دوران نقل و حمل پرکوئی پابندی نہیں لگائی نہ ہی وہ مہاجرکیمپوں میں قیدہیں، بلکہ پورے ملک میں جہاں چاہیں وہ آزادانہ آجا سکتے ہیں۔ میزبانی کے ایسے پُرخلوص مظاہرے کی دنیا کے کسی اور ملک میں نظیر نہیں ملتی۔ مگراحسانات کے جواب میں یہی مہاجرپاک سرزمین پر نہ صرف پاکستان کے پرچم کے بے حُرمتی کے واقعات میں ملوث ہیں بلکہ پاکستان اور پاکستان سے باہر کھیل کے میدانوں میں بھی پاکستانیوں کو نفرت کا نشانہ بناتے ہیں ۔یہ درست ہے کہ بھارت نے افغانوں کی ذہن سازی پرکافی کام کیا ہے لیکن اپنے اور بیگانے میں افغانوں کوخود تفریق کرنی چاہیے کیونکہ پاک افغان قُربت میں کمی کے خدشات حقیقت کا روپ دھارنے لگے ہیں جس کاطالبان قیادت کوبروقت ادراک کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کمانڈروں کو سرحدپارحملوں روکناچاہیے ۔یہ عیاں حقیقت ہے کہ پاکستان کے سیکورٹی اِداروں پر حملوں میں ملوث یاسر پرکے کو کابل میں بطورمہمان لایا اور پھر پُرجوش خاطر مدارت کی گئی ایسے واقعات بدگمانیوں کاباعث بنتے ہیں۔ نامی گرامی دہشت گرد یاسرپرکے کوخصوصی پرواز کے ذریعے کابل لانا اور صدارتی محل کا دورہ کرانا ٹی ٹی پی اورافغان طالبان قریبی تعلقات کاعکاس ہے ۔ٹی ٹی پی کے بدنام لوگ حافظ گل بہادر،مفتی نورولی محسود،علیم خان خوشحال کی افغان علاقوں خوست،برمل وغیرہ میں رہائشیں ہیں ۔افغان قیادت کی طرف سے مہمان کادرجہ دیے بنا ایسا ممکن نہیں ۔اِس کے باوجود کہنا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی پناہ گاہیں نہیں بھلا کون ایسی کسی یقین دہانی پراعتبار کر سکتاہے؟
پاکستان کی امن پسندی ہے کہ خطے میںکسی ملک کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں رکھتا اور اُس کی تیاریاں دفاعی نوعیت کی ہیں مگر صبر وتحمل اور برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ کسی بھی ملک کی عسکری قیادت باربار نقصان اُٹھانے کے باوجود خاموش نہیں رہ سکتی۔ بارہ جولائی کو ژوب میںنو جبکہ سوئی میں تین فوجیوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ سوموار کو پھر ژوب چھائونی میں گھسنے کی کوشش ہوئی جسے بروقت کارروائی سے ناکام بنا دیا گیا۔ پشاور خودکش دھماکے میں آٹھ سیکورٹی اہلکار شدید زخمی ہوئے ۔یہ خاصی تشویشناک صورتحال ہے ۔چودہ جولائی کو ژوب میں دہشت گردی کے حملے میں زخمی ہونے والے اہلکاروں کی عیادت کرتے ہوئے آرمی چیف عاصم منیر نے افغانستان میں ٹی ٹی پی کودستیاب دہشت گردی کے مواقع پر تشویش کا اظہار کیا ۔اُن کی سربراہی میں 258ویں کورکمانڈر کانفرنس میں بھی کہا گیا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سمیت دیگر دہشت گردوں کو ہمسایہ ملک میں پناہ گاہیں حاصل ہیں ۔اِن دہشت گردوں کو جدید ہتھیار دستیاب ہونا پاکستان کی اندرونی سلامتی کو متاثر کرنے والی وجہ ہے ۔پندرہ جولائی کو وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا کہ افغانستان ہمسایہ اور برادر ملک ہونے کا نہ حق ادا کررہا
ہے اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کررہا ہے۔ چارپانچ دہائیوں سے پچاس سے ساٹھ لاکھ افغان شہریوں کو تمام تر حقوق کے ساتھ رہنے کی اجازت دینے کے باوجود پاکستانیوں کا خون بہانے میں ملوث دہشت گردوںکوافغانستان میں پناہ گاہیں حاصل ہیں۔ اعلیٰ عسکری اور سویلین قیادت کی طرف سے تواتر سے دہشت گردوں کی نشاندہی اور افغان کردار کی طرف اشارہ کرنا خاصا غیر معمولی ہے جس کا طالبان نے ادراک نہیں کیا اور بہتری لانے کی کوشش نہ کی تو نہ صر ف علاقائی سلامتی کو متاثر کرنے والے دہشت گرد تقویت حاصل کریں گے بلکہ افغانستان بھی اندرونی طورپر غیر مستحکم ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں جب دنیا طالبان حکومت تسلیم کرنے سے گریزاں ہے اور ایران سے چپقلش بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ،خطے میں افغانوں کے بڑے وکیل پاکستان کی طرف سے بداعتمادی اور بدگمانی طالبان کے بارے میں موجود خدشات میں اضافے کا باعث بنے گی۔ ایسی صورتحال سے پاکستان کے بجائے افغانستان کا داخلی طورپر عدمِ استحکام کا شکارہونے کا امکان ہی بڑھے گا ۔
٭٭٭