وجود

... loading ...

وجود

موٹی۔ویشنل کالم ٹو

اتوار 23 جولائی 2023 موٹی۔ویشنل کالم ٹو

علی عمران جونیئر
دوستو، ممبئی کے ایک بڑے بینک کا سی ای او اپنے جوتے روزانہ اپنی گلی کے کونے پر جوتے پالش والے سے پالش کراتاتھا۔ جوتے پالش کرواتے ہوئے وہ کرسی پر بیٹھ کر عام طور پر اکنامک ٹائمز پڑھتا تھا۔ ایک صبح، پالش والے نے سی ای او سے پوچھا۔اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ سی ای او نے طنزیہ پوچھا، آپ کو اس موضوع میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟پالش والے نے جواب دیا۔ آپ کے بینک میں میرے 200 کروڑ روپے جمع ہیں اور میں اس رقم کا کچھ حصہ اسٹاک مارکیٹ میں لگانے کا سوچ رہا ہوں۔ سی ای او کو حیرت ہوئی، پالش والے کا نام پوچھا، اس نے اپنا نام آصف پالش والا بتایا۔بینک پہنچ کر اس نے سب سے پہلے اس نام کے اکاؤنٹ کا معلوم کیا تو تصدیق ہوگئی کہ آصف پالش والا کا نہ صرف اکاؤنٹ ہے بلکہ اس میں دوسوکروڑروپے بھی ہیں۔سی ای او حیرت میں ڈوب گیا۔ اگلے روزاس نے جوتے پالش کراتے وقت پالش والے سے کہا۔مسٹر پولش والا، میں آپ کو اگلے ہفتے ہماری بورڈ میٹنگ میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنا چاہتا ہوں۔ ہم آپکی زندگی کی کہانی سننا چاہتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ہم بہت کچھ سیکھیں گے۔اگلے ہفتے، بورڈ کی میٹنگ میں سی ای او نے بورڈ کے ممبران سے پالش والے کا تعارف کرایا۔ہم سب مسٹر آصف پولش والا کو جانتے ہیں، جو ہمارے جوتوں کو بے مثال چمکاتے ہیں۔ لیکن وہ ہمارے قابل قدر کسٹمر بھی ہیں جن کے اکاؤنٹ میں 200 کروڑ روپے ہیں۔ میں نے انہیں اپنی زندگی کی کہانی بتانے کے لیے مدعو کیاہے۔مہربانی کرکے مسٹر پولش والا بتائیں۔آصف پالش والا نے اپنی کہانی کچھ یوں بیان کی۔30 سال قبل،اپنی جوانی میں، میں نے کیرالہ سے ممبئی ہجرت کی ۔بھوک اور تھکن سے مجبور،میں نے کام کی تلاش شروع کی، اچانک، مجھے فٹ پاتھ پر ایک سکہ ملا اور میں نے کچھ سیب خریدے۔میرے پاس دو راستے تھے۔ اپنی بھوک مٹانے کے لیے سیب کھاؤں یا کوئی کاروبار شروع کروں۔میں نے سیب بیچے اور پیسوں سے مزید سیب خریدے۔اس طرح میں نے پیسہ جمع کرنا شروع کر دیا، پھر میں نے استعمال شدہ برش اور جوتوں کی پالش کا ایک سیٹ خرید لیا اور جوتے چمکانے کا کاروبار شروع کیا۔میں نے کفایت شعاری سے راہب جیسی زندگی گزاری، تفریح یا دنیاوی اشیا پر کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا اور ایک ایک روپیہ بچایا۔کچھ عرصے بعد، میں نے نئے برش، مختلف قسم کی پالشیں اور ایک کرسی خریدی تاکہ میرے کلائنٹ آرام سے بیٹھ سکیں۔میں نے کفایت شعاری سے جینا جاری رکھا اور اپنی ہر ممکن بچت کی۔پھر، چند سال پہلے، بازار میں یہ چھوٹی سی دُکان خالی ہوئی تو میں نے خرید لی اور کاروبار کو مزید بڑھایا۔ آخر کار، تقریباً تین ماہ قبل، میرا چھوٹا بھائی، جو کوچی میں منشیات فروش تھا، انتقال کر گیا اور میرے لیے 200 کروڑ چھوڑ کر چلا گیا۔یہ کہتے ہوئے آصف پالش والا کی آنکھیں بھائی کے غم میں بھیگ گئیں۔
ایک این جی او نے ایک بار ایک انوکھا تجربہ کیا۔ دو نوعمر بچوں کو لیا۔ ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجااور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا،شام کو بھکاری بچہ آٹھ سواور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا۔این جی او نے پھر ایک رپورٹ بنائی جس کے مطابق اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیںاور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں۔اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیںاور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں۔ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے۔اس کے برعکس اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تووہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا۔کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں۔مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں۔اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں۔صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے۔یاد رکھئے!بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھتی ہے۔خیرات دیں،منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ،اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی۔
ایک شخص اپنی بیوی کو لے کر مولوی صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ مولوی صاحب! یہ میری زوجہ ہیں، ان پر اچانک آسیب کا حملہ ہوا ہے،شاید جن چڑھا ہے۔مولوی صاحب نے دم درود کیا تو جن باتیں کرنے لگ گیا۔مولوی صاحب بولے۔ ابھی کے ابھی باہر نکلو، ورنہ میں۔! جن نے جواب دیا۔ میں نکلنے کے لئے تیار ہوں، لیکن میری ایک شرط ہے۔میں اس عورت سے نکل کر شوہر سے چمٹ جاؤں گا۔شوہر نے یہ سنا تو ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔مولوی صاحب نے کہا۔یہ نہیں ہوسکتا،لیکن آپ اس عورت کے شوہر سے کیوں چمٹ جانا چاہتے ہیں؟ جن نے جواب دیا۔ کیونکہ یہ نماز نہیں پڑھتا۔!!!مولوی صاحب بولے۔اچھا تم ایسا کرو کہ ان کی بیوی سے نکل جاؤ اور ان کے گھر کے قریب رہو، اگر اس عورت کا شوہر نماز نہ پڑھے تو پھر اس شخص سے چمٹ جانا۔جن بولا۔ ٹھیک ہے۔جن نکل جاتا ہے۔چند دن بعد وہ عورت مولوی صاحب کو فون کرکے شکریہ ادا کرتی ہے کہ اب نہ صرف ان کا شوہر صف اول میں نماز پڑھتا ہے، بلکہ اکثر مسجد کا دروازہ بھی وہی کھولتا اور اذان بھی دیتا ہے۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ اس خاتون کو جن ون کچھ نہیں چڑھا تھا، اس نے شوہر کو نماز کا پابند بنانے کے لیے یہ واردات کر ڈالی تھی۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اِس گرمی میں محبوب کوسرخ گلاب کے بجائے سرخ تربوز تحفے میں دیں،تاکہ تربوز کھا کر محبوب آپ کے بارے میں ٹھنڈے دماغ سے سوچ سکے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر