... loading ...
علی عمران جونیئر
دوستو، ممبئی کے ایک بڑے بینک کا سی ای او اپنے جوتے روزانہ اپنی گلی کے کونے پر جوتے پالش والے سے پالش کراتاتھا۔ جوتے پالش کرواتے ہوئے وہ کرسی پر بیٹھ کر عام طور پر اکنامک ٹائمز پڑھتا تھا۔ ایک صبح، پالش والے نے سی ای او سے پوچھا۔اسٹاک مارکیٹ کی صورتحال کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ سی ای او نے طنزیہ پوچھا، آپ کو اس موضوع میں اتنی دلچسپی کیوں ہے؟پالش والے نے جواب دیا۔ آپ کے بینک میں میرے 200 کروڑ روپے جمع ہیں اور میں اس رقم کا کچھ حصہ اسٹاک مارکیٹ میں لگانے کا سوچ رہا ہوں۔ سی ای او کو حیرت ہوئی، پالش والے کا نام پوچھا، اس نے اپنا نام آصف پالش والا بتایا۔بینک پہنچ کر اس نے سب سے پہلے اس نام کے اکاؤنٹ کا معلوم کیا تو تصدیق ہوگئی کہ آصف پالش والا کا نہ صرف اکاؤنٹ ہے بلکہ اس میں دوسوکروڑروپے بھی ہیں۔سی ای او حیرت میں ڈوب گیا۔ اگلے روزاس نے جوتے پالش کراتے وقت پالش والے سے کہا۔مسٹر پولش والا، میں آپ کو اگلے ہفتے ہماری بورڈ میٹنگ میں مہمان خصوصی کے طور پر مدعو کرنا چاہتا ہوں۔ ہم آپکی زندگی کی کہانی سننا چاہتے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ ہم بہت کچھ سیکھیں گے۔اگلے ہفتے، بورڈ کی میٹنگ میں سی ای او نے بورڈ کے ممبران سے پالش والے کا تعارف کرایا۔ہم سب مسٹر آصف پولش والا کو جانتے ہیں، جو ہمارے جوتوں کو بے مثال چمکاتے ہیں۔ لیکن وہ ہمارے قابل قدر کسٹمر بھی ہیں جن کے اکاؤنٹ میں 200 کروڑ روپے ہیں۔ میں نے انہیں اپنی زندگی کی کہانی بتانے کے لیے مدعو کیاہے۔مہربانی کرکے مسٹر پولش والا بتائیں۔آصف پالش والا نے اپنی کہانی کچھ یوں بیان کی۔30 سال قبل،اپنی جوانی میں، میں نے کیرالہ سے ممبئی ہجرت کی ۔بھوک اور تھکن سے مجبور،میں نے کام کی تلاش شروع کی، اچانک، مجھے فٹ پاتھ پر ایک سکہ ملا اور میں نے کچھ سیب خریدے۔میرے پاس دو راستے تھے۔ اپنی بھوک مٹانے کے لیے سیب کھاؤں یا کوئی کاروبار شروع کروں۔میں نے سیب بیچے اور پیسوں سے مزید سیب خریدے۔اس طرح میں نے پیسہ جمع کرنا شروع کر دیا، پھر میں نے استعمال شدہ برش اور جوتوں کی پالش کا ایک سیٹ خرید لیا اور جوتے چمکانے کا کاروبار شروع کیا۔میں نے کفایت شعاری سے راہب جیسی زندگی گزاری، تفریح یا دنیاوی اشیا پر کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا اور ایک ایک روپیہ بچایا۔کچھ عرصے بعد، میں نے نئے برش، مختلف قسم کی پالشیں اور ایک کرسی خریدی تاکہ میرے کلائنٹ آرام سے بیٹھ سکیں۔میں نے کفایت شعاری سے جینا جاری رکھا اور اپنی ہر ممکن بچت کی۔پھر، چند سال پہلے، بازار میں یہ چھوٹی سی دُکان خالی ہوئی تو میں نے خرید لی اور کاروبار کو مزید بڑھایا۔ آخر کار، تقریباً تین ماہ قبل، میرا چھوٹا بھائی، جو کوچی میں منشیات فروش تھا، انتقال کر گیا اور میرے لیے 200 کروڑ چھوڑ کر چلا گیا۔یہ کہتے ہوئے آصف پالش والا کی آنکھیں بھائی کے غم میں بھیگ گئیں۔
ایک این جی او نے ایک بار ایک انوکھا تجربہ کیا۔ دو نوعمر بچوں کو لیا۔ ایک کو پرانے کپڑے پہنا کر بھیک مانگنے بھیجااور دوسرے کو مختلف چیزیں دے کر فروخت کرنے بھیجا،شام کو بھکاری بچہ آٹھ سواور مزدور بچہ ڈیڑھ سو روپے کما کر لایا۔این جی او نے پھر ایک رپورٹ بنائی جس کے مطابق اس سماجی تجربے کا نتیجہ واضح ہے۔دراصل بحیثیت قوم، ہم بھیک کی حوصلہ افزائی کرتے ہیںاور محنت مزدوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ہوٹل کے ویٹر، سبزی فروش اور چھوٹی سطح کے محنت کشوں کے ساتھ ایک ایک پائی کا حساب کرتے ہیں۔اور بھکاریوں کو دس بیس بلکہ سو پچاس روپے دے کر سمجھتے ہیں کہ جنت واجب ہوگئی۔ہونا تو یہ چاہئے کہ مانگنے والوں کو صرف کھانا کھلائیںاور مزدوری کرنے والوں کو ان کے حق سے زیادہ دیں۔ بھکاری کو اگر آپ ایک لاکھ روپے نقد دے دیں تو وہ اس کو محفوظ مقام پر پہنچا کر اگلے دن پھر سے بھیک مانگنا شروع کر دیتا ہے۔اس کے برعکس اگر آپ کسی مزدور یا سفید پوش آدمی کی مدد کریں تووہ اپنی جائز ضرورت پوری کرکے زیادہ بہتر انداز سے اپنی مزدوری کرے گا۔کیوں نہ گھر میں ایک مرتبان رکھیں؟ بھیک کے لئے مختص سکے اس میں ڈالتے رہیں۔مناسب رقم جمع ہو جائے تو اس کے نوٹ بنا کر ایسے آدمی کو دیں جو بھکاری نہیں۔اس ملک میں لاکھوں طالب علم، مریض، مزدور اور خواتین ایک ایک ٹکے کے محتاج ہیں۔صحیح مستحق کی مدد کریں تو ایک روپیہ بھی آپ کو پل صراط پار کرنے کے لئے کافی ہو سکتا ہے۔یاد رکھئے!بھیک دینے سے گداگری ختم نہیں ہوتی،بلکہ بڑھتی ہے۔خیرات دیں،منصوبہ بندی اور احتیاط کے ساتھ،اس طرح دنیا بھی بدل سکتی ہے اور آخرت بھی۔
ایک شخص اپنی بیوی کو لے کر مولوی صاحب کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ مولوی صاحب! یہ میری زوجہ ہیں، ان پر اچانک آسیب کا حملہ ہوا ہے،شاید جن چڑھا ہے۔مولوی صاحب نے دم درود کیا تو جن باتیں کرنے لگ گیا۔مولوی صاحب بولے۔ ابھی کے ابھی باہر نکلو، ورنہ میں۔! جن نے جواب دیا۔ میں نکلنے کے لئے تیار ہوں، لیکن میری ایک شرط ہے۔میں اس عورت سے نکل کر شوہر سے چمٹ جاؤں گا۔شوہر نے یہ سنا تو ڈر کے مارے دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔مولوی صاحب نے کہا۔یہ نہیں ہوسکتا،لیکن آپ اس عورت کے شوہر سے کیوں چمٹ جانا چاہتے ہیں؟ جن نے جواب دیا۔ کیونکہ یہ نماز نہیں پڑھتا۔!!!مولوی صاحب بولے۔اچھا تم ایسا کرو کہ ان کی بیوی سے نکل جاؤ اور ان کے گھر کے قریب رہو، اگر اس عورت کا شوہر نماز نہ پڑھے تو پھر اس شخص سے چمٹ جانا۔جن بولا۔ ٹھیک ہے۔جن نکل جاتا ہے۔چند دن بعد وہ عورت مولوی صاحب کو فون کرکے شکریہ ادا کرتی ہے کہ اب نہ صرف ان کا شوہر صف اول میں نماز پڑھتا ہے، بلکہ اکثر مسجد کا دروازہ بھی وہی کھولتا اور اذان بھی دیتا ہے۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ اس خاتون کو جن ون کچھ نہیں چڑھا تھا، اس نے شوہر کو نماز کا پابند بنانے کے لیے یہ واردات کر ڈالی تھی۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اِس گرمی میں محبوب کوسرخ گلاب کے بجائے سرخ تربوز تحفے میں دیں،تاکہ تربوز کھا کر محبوب آپ کے بارے میں ٹھنڈے دماغ سے سوچ سکے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
٭٭٭