... loading ...
محمد اُبو سفیان حسینی
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا نظریہ دینِ اسلام ہے اس کی بنیاد علاقائیت، وطنیت، نسل پرستی یا زبان نہیں ہے، بلکہ ہمارا دین اسلام یہ نہ صرف مذہب ہے بلکہ ضابطہ حیات ہے، ہر قوم کا کوئی نہ کوئی کیلنڈر رہا ہے۔ یہودیوں کا سن ۰۰۷۳ق م سے شروع ہوتا ہے، عیسوی سن کی ابتداء حضرت عیسیٰ کے یوم ولادت سے ہوتی ہے، اس طرح بکرمی سن کی ابتداء مہاراجہ بکر ما جیت کو ساکھا قوم پر فتح حاصل ہونے کے واقعے سے ہوتی ہے، اس طرح سن ہجری حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے سفرِ ہجرتِ مدینہ کی یاد دلاتا ہے۔ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کا یہ سفر آٹھ ربیع الاول کو ہوا۔ جو عیسوی سن کے مطابق ۰۲ستمبر /۲۲۶ کا واقعہ ہے، یہیں سے اسلامی سال کی ابتداء ہوتی ہے، جس کو سیدنا فاروق اعظم نے اپنے دورِ خلافت میں نافذ کیا اور اسی سال یکم محرم الحرام سے اسلامی سن کی ابتداء کی گئی۔گو یا پہلے اسلام صدی کی ابتداء اور آغاز ۶۱جولائی /۲۲۶ کو ہوا۔ اس امر میں بھی ایک عجیب حکمت پنہاں ہے کہ جب پہلی اسلامی صدی کی ابتداء ہوئی تو یکم محرم الحرام کو جمعہ کا دن تھا۔
قمری تقویم اور اس کے فوائد
اگر ہم سن ہجر ی کا دوسرے مروجہ سنین سے تقابل کر کے دیکھیں۔ تو یہ سن بہت سی باتوں میں دوسروں سے منفرد و ممتاز نظر آتا ہے۔ سن ہجری کی ابتداء چاند کو بنایا گیا۔اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑا گیا۔ یہ تقدیم خالق کی بنائی چیزسے تعلق رکھتی ہے۔ اس میں کسی پیوند کاری کی کوئی ضرورت نہیں۔ اسلام چونکہ سادہ، عجزوانکساری والا آسان مذہب ہے (لاکراہ فی الدین)… لہٰذا چاند کے ذریعے ہر علاقہ کے لوگ خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا کہ جنگلوں میں… خواہ جزیرو ں میں۔ ان کے لئے آسان ہے کہ اپنے معاملات چاند کے مطابق طے کریں۔ اس میں کوئی مشکل و پیچیدگی نہیں۔پڑھے لکھے اور اَن پڑھ سب آسانی سے حساب کر سکتے ہیں۔ اس کے برعکس دیگر تقویمیں ہر آدمی آسانی سے معلوم نہیں کر سکتا۔ جبکہ چاند ہر جگہ نکلتا ہے۔کسی مشکل حساب کتاب کی ضرورت نہیں۔ جبکہ دوسری تاریخوں میں یہ بات نہیں۔ اسلام چوں کہ دینِ فطرت اور عدل و انصاف کا دین ہے۔ اس میں مساوات و ہمہ گیری ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہی پسند فرمایا۔کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے آیا کریں۔ لہٰذا قمری تقویم کو بنیاد قرار دیا گیا۔اگر اسلام دیگر اقوام کے طریق کواپنا لیتا یا گوارہ کر لیتا جیسے شمسی(عیسوی) تقویم توماہ صیام کسی ایک مقام پر ہمیشہ ایک ہی موسم میں آیا کرتا جس کا لازمی نتیجہ یہی نکلتا کہ نصف دنیا کے مسلمان جہاں موسم سرد اور دن چھوٹے ہوتے ہمیشہ آسانی میں رہتے۔ اسی طرح سفرِ حج کا بھی یہی حال رہتا۔
محرم الحرام اور تاریخ انسانیت
طلوع اسلام سے قبل بھی تاریخِ انسانیت کے بے شمار واقعات محرم الحرام میں رونما ہوئے۔ یہ واقعات محض اتفاقی یا حادثاتی نہ تھے۔ بلکہ قسام ِ ازل کا اٹل فیصلہ تھا جو ہونا تھا اور ہو کر رہا۔ ذیل میں چند اُن واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں جو محرم الحرام میں ظہور پذیر ہوئے:
(۱) اس ماہ میں کائنات کی تخلیق ہوئی۔
(۲) حضرت آدم پیدا ہوئے۔
(۳) حضرت آدم کی توبہ قبول ہوئی۔
(۴) حضرت آدم کو خلافت کا تاج پہنایا گیا (انی جاعل فی الارض خلیفہ)
(۵) سیدنا ادریس کو درجات عالیہ عطا ہوئے۔
(۶) کشتی نوح وادی جودی پہ ٹھہری۔
(۷) سیدنا ابراہیم کو منصب و مقام خلیل سے سرفراز فرمایا گیا۔
(۸) سیدنا یوسف صدیق اللہ کو جیل سے رہائی ملی۔
(۹) سیدنا یعقوب کی بینائی لوٹائی گئی۔
(۰۱) سیدنا یونس کو مچھلی کے پیٹ سے رہائی ملی۔
(۱۱) فرعون غرقِ نیل ہوا اور موسیٰ کلیم اللہ کو کامیابی عطا ہوئی۔
(۲۱) سیدنا عیسیٰ کو آسمان پر زندہ اُٹھایا گیا۔
(۳۱) اس روز قیامت آئے گی۔
(۴۱) اسی ماہ یوم عاشورہ کو اہلِ مکہ خانہ کعبہ پر غلاف چڑھاتے تھے اور اس دن کو یوم الزینتہ کہتے تھے۔
(۵۱) اسی ماہ امام الانبیاء خاتم المعصومین سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے چند سال قبل ابرہہ بیت اللہ پر حملہ کی نیت سے نکلا۔ تو اللہ نے ابا بیلوں کا لشکر بھیج کر اسے تباہ و برباد کر دیا۔
محرم الحرام اور تاریخ اسلام
ذیل میں ہم تاریخ اسلام کے اُن واقعات پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں جو محرم میں رونما ہوئے:
(۱) شعب ابی طالب کی محصوری جویکم محرم ۴ نبوی۔
(۲) نکاح سیدہ فاطمہ الزہرہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمراہ سیدنا علی ۲ ہجری۔
(۳) غزوہ غطفان ۳ ہجری۔
(۴) نکاح سیدہ اُم کلثوم بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمراہ سیدنا عثمان غنی۔
(۵) سلاطین عالم کو دعوت اسلام ۷ہجری۔
(۶) غزوہ خیبر ۷ ہجری۔
(۷) وفد اشعرین کا قبول اسلام ۷ ہجری۔
(۸) نکاح ام المومنین سیدہ صفیہ ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(۹) غزوہ وادی القریٰ ۷ ہجری۔
(۰۱) عام الوفود ۹ ہجری۔
(۱۱) تقرر عاملین زکوٰۃ۹ ہجری۔
(۲۱) طاعونِ عمواس ۸۱ہجری۔
(۳۱) امارتِ سیدنا امیر معاویہ ۹۱ہجری۔
(۴۱) خلافت سیدنا عثمان غنی یکم محرم ۴۲ہجری۔
(۵۱) فتح قبرص ۸۲ ہجری۔
(۶۱) خلافت سیدنا علی المرتضیٰ ۴۳ ہجری۔
(۷۱) جنگ صفین ۷۳ ہجری۔
(۸۱) فتوحات افریقہ ۵۴ہجری۔
(۹۱) ابو مسلم کاخراسان پر قبضہ۱۳۱ ہجری۔
(۰۲) بنو اُمیہ کا قتلِ عام ۳۳۱ہجری۔
(۱۲) قیصر روم کی شکست۸۳۱ ہجری۔
(۲۲) مسجد نبوی کی توسیع ۱۶۱ ہجری۔
(۳۲) مصر پر عیسائیوں کا قبضہ ۹۰۳ ہجری۔
(۴۲) نوحہ ماتم کی ابتداء ۲۵۳ ہجری۔
(۵۲) ہلاکو نے بغداد کو تاراج کیا۲۵۲ہجری۔
(۶۲) حکومت شیر شاہ سوری۷۴۹ہجری۔
(۷۲) دارالعلوم دیوبند کا قیام /۵۱ محرم ۳۸۲اہجری۔
(۸۲) کعبۃ اللہ پر بے ادب ٹولے کا حملہ ۰۰۴۱ہجری۔
(۹۲) صدر ضیا ء الحق کی شہادت اور حکومت کا خاتمہ ۹۰۴۱ھ۔
(۰۳) بے نظیر کی پہلی حکومت کا تختہ اُلٹا ۱۱۴ا ھ۔
(۱۳) نواز شریف کو حکومت سے فارغ کیا گیا۔
(۲۳) یوم فاروق اعظم کی چھٹی منظور کی گئی یکم محرم ۵۱۴۱ ھ
برصغیر کی ماہ محرم میں پیدا ہونے والی چند علمی شخصیات
(۱) امام انقلاب مولانا عبیدا للہ سندھی مدفون دین پور۔
(۲) شیخ الحدیث مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک۔
(۳) شیخ الادب مولانا محمد اعزاز علی مدرس دارلعلوم دیو بند۔
(۴) حافظ الحدیث مولانا عبداللہ درخواستی مدفون دین پور۔
(۵) مفتی عبدالحکیم سکھروی۔
ماہ محرم الحرام میں وفات یا شہادت پانے والی چند شخصیات
(۱) سیدنا ابو عبیدہ بن الجراح۔
(۲) شہادتِ دامادِ علی سیدنا عمرفاروق۔
(۳) شہادت سیدنا ابو ایوب انصاری۔
(۴) سیدنا عبدالرحمن بن ابی بکرصدیق۔
(۵) سیدنا سعد بن ابی وقاص۔
(۶) اُم المومنین سیدہ جویریہ۔
(۷) سیدنا سمرہ بن جندب۔
(۸) شہادت ِسیدنا حسین ابن علی المرتضیٰ۔
(۹) سیدنا عبداللہ بن عمر فاروق۔
(۰۱) حضرت یوسف بن تاشقین۔
(۱۱) حضرت بابا فرید گنج شکر۔
(۲۱) مرزا مظہر جانِ جاناں۔
(۳۱) علامہ انور شاہ کشمیری۔
(۴۱) مولانا سید اصغیر حسین۔
(۵۱) شہید ملت لیاقت علی خان۔
(۶۱) مولانا محمد احمد تھانوی۔
(۷۱) سید منیر احمد شہید۔
(۸ا) شہادتِ سید منظور شاہ ہمدانی۔