... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی مجلس بیداری فکراقبال کی ادبی نشست میں”شعائراسلامیہ حالت دگرگوں”کے عنوان پر پروفیسرثاقب رضانورالحق نے علامہ ایک مکمل غزل سنائی جس میں ماضی کی نوحہ خوانی اور روشن مستقبل کی نویدسنائی گئی تھی۔انہوں نے بتایاکہ آج کااسلامی معاشرہ بہت مایوسی کاشکارہے کیونکہ ہرطرف مغربی کی تہذیب کی یلغارہے اورکل امت مغربیت کے سحرمیں بری طرح گرفتارہے اوربہت کم لوگ اس بچ سکے ہیں۔شعائراسلام کاذکرکرتے ہوئے انہوں نے آج نئے قمری سال کے آغازپر کہاکہ ہمیں اس تقویم کو اپنی ذاتی ،گھریلو ،تجارتی اور بین المعاملاتی ز ندگی میں اختیاکرناچاہیے جس سے نبیۖکے ساتھ ہماری نسبت جڑی رہے گی۔ شمسی تقویم بھی عین اسلامی ہے تاہم اسلامی تشخص ہجری تواریخ سے جڑاہے۔ قرآن مجیدمیں متعددمقامات پر سورج اورچانددونوں کاذکرموجودہے اور نمازکے اوقات سورج کے تحرک کے ساتھ طے ہوتے ہیں۔ علامہ کے نزدیک امت کے زوال کابہت بڑاسبب قرآن مجیدسے دوری ہے۔ نوں کی حالت زار کا نقشہ کھینچا تو اس وقت حالات اس لحاظ سے مزید بد تر تھے کہ بیشتر اسلامی ممالک براہ راست یورپی اقوام کے زیر تسلط تھے۔ خلافت کا قلع قمع ہو چکا تھا اور مسلم مرکزیت ختم کر دی گئی تھی۔ عالم اسلام غیروں کا غلام بن چکا تھا۔ یہ تمام حالات علامہ اقبال کے روبرو تھے۔ ان سے نالاں ہو کر اور خود مسلمانوں کے طرز عمل سے مایوس ہو کر انہوں نے لکھا:
یورپ کی غلامی پہ رضامند ہوا تو
مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
ان حالات میں علامہ نے مسلمان اور امت مسلمہ دونوں کو جگانے کا فریضہ ادا کیا اور انہیں آزادی کی قدر و قیمت کا احساس دلایا۔ مسلمانوں کی کھوئی ہوئی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے گزشتہ صدی کے عظیم فلسفی کا اضطراب ان کی شاعری سے عیاں ہے۔وہ مسلم امہ کو ان کے حقیقی تشخص سے روشناس کرا کے ان کے روایتی وقار و مرتبے کو بلند دیکھنے کے آرزومند تھے۔برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ریاست کے قیام کا نظریہ ان کے افکار کا ترجمان ہے۔انہوں نے مسلمانان برصغیر کی فکری سطح کو بلند کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔آج پوری دنیا کے مسلمان اس سچے عاشق رسول ۖ علامہ اقبال کی تعلیمات کو مشعل راہ بنا کر عزت و حمیت کے ساتھ زندگی بسر کر سکتے ہیں۔اقبال نے جس طرح کی ریاست کا خواب دیکھا تھا ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمیں ارض پاک کی صورت میں اس طرح کی ریاست نہیں ملی۔پاکستان کے بائیس کروڑ باسی یہ چاہتے ہیں کہ وطن عزیز کی تشکیل ایسی ریاست کی صورت میں ہو جہاں مساوات،بھائی چارے اور عدل وانصاف کی حکمرانی ہو۔جہاں ملک میں بسنے والے ہر فرد کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔جہاں دین کے نام پر بے گناہ لوگوں کا خون نہ بہایا جائے۔جہاں شدت پسند عناصر تکفیر و قتل کے فتوے نہ بانٹتے پھریں۔
علامہ اقبال نے صرف تصور پاکستان ہی نہیں دیا بلکہ یہ بھی سمجھا یا ہے کہ اسلام کے نام پر حاصل کرنے والے ملک میں ہم نے کیسا بن کر رہنا ہے؟ اس مقدس ارض پاک پر جاہلیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اس کے مکینوں نے صرف ایک دوسرے کے لئے ہی معاون و رہنمائی کا کام نہیں کرنا بلکہ پورے عالم اسلام کے لئے امامت کا ذمہ سنبھالنا ہے۔ انہوں نے اپنے وطن کی پہچان اور زینت بننا ہے۔ علم سے محبت کی شمع اپنے دلوں میں جلانی ہے۔ کیونکہ کوئی بھی قوم علم و عمل کے بغیر ترقی نہیں کرسکتی۔ اپنے دلوں کے اندر ایثار کی دولت پیدا کرکے معاشرے کے محروم لوگوں کو بھی اپنے ساتھ چلانا ہے اور ان کا معاون و مددگار بننا ہے۔ اپنے پیدا کرنے والے سے ہر پل صراط مستقیم کا طلبگار رہنا ہے۔امت مسلمہ کی بیداری کے لیے علامہ اقبال کے تصور خودی کو ہمیں اپنے اوپر لاگو کرنا ہو گا۔ وطن عزیز کی سالمیت و بقا کے لیے علامہ اقبال کے ان فرمودات پر عمل کرنا ہوگا جن میں وہ مسلمانوں کو باہم ہونے کا درس دیتے ہیں۔یہی حقیقی اسلام ہے جو لوگوں کو آپس میں جوڑتا ہے۔مسلمانوں کے مختلف مسالک کے درمیان نفرت اور دوریاں پیدا کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
علامہ اقبال عوامی شاعر تھے انہوں نے مسلمانوں کی بیداری کے لئے اپنی زندگی وقف کردی۔ عالمی سامراج کے چنگل میں فکری، نظری، ثقافتی اور سیاسی تسلط میں گرفتار امت مسلمہ کے لئے علامہ محمد اقبال نے جو چراغ روشن کئے، ان کی کرنیں آج بھی بآسانی محسوس کی جاسکتی ہیں۔ ہمیں علامہ اقبال کے کلام اور فکر کے پیغام پر عمل کرنے کے لئے رنگ، نسل، فرقے کی عصبیتوں کو ختم کرکے ایک ملت کے تصور کو عام کرنا ہوگا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم پاکستان کو علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر بنائیں۔ اسلام کی حقیقی تصویر علامہ اقبال کے کلام میں ملتی ہے۔اقبال نے غلام قوم کو انگریزوں اور ہندوئوں کی غلامی سے نکال کر اقوام عالم میں سرفراز کیا۔ فکر اقبال یہ ہے کہ پوری قوم کو مثبت مقاصد کے لئے تیار کیا جائے، حالات کا مقابلے کرنے کا عزم کیا جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک قوم بن جائیں۔ اقبال نے جو خواب دیکھا تھا آج پوری دنیا میں اس کی تکمیل ہورہی ہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کو ہتھیار بنایا اور عالمی طاغوت کے خلاف نوجوانوں کو سینہ سپر کردیا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اقبال کی شاعری سے نوجوانوں کو آشناکیا جائے۔اقبال کی نگاہیں دور رس تھیں۔ آج کے حالات میں بھی ہمیں افکار اقبال پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔