وجود

... loading ...

وجود

وطن عزیز میں نفاذ اردو

جمعه 21 جولائی 2023 وطن عزیز میں نفاذ اردو

ریاض احمد چودھری

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے واضح طورپر کہا تھا ”میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو، اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے،پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔”
قلم کاروان کی ادبی نشست میں “وطن عزیزمیں نفاذاردو” کے عنوان سے شہزادمنیراحمدنے قائداعظم کے مشرقی پاکستان میں اعلان قومی زبان سے اپنے مقالے کاآغازکیا۔انہوں نے اردوزبان کی مختصرتاریخ بیان کی اوراس کے بعد دنیاکی بڑی بڑی جنگوں اور انقلابات میں زبان کے کردارپر روشنی ڈالی، فاضل مقالہ نویس نے بتایا کہ وطن عزیزکو کمزورکرنے کے لیے بھی لسانی تفرقات ابھارے جاتے رہے ہیں۔انہوں نے سقوط ڈھاکہ کی ایک وجہ لسانی تعصب کوبھی قراردیا۔اپنے مقالے میں انہوں نے تفصیل سے بتایاکہ باسیان وطن عزیزکو ایک ہی تسبیح میں پرونے والا سب سے مضبوط دھاگہ رابطے کی ایک زبان اردوہی ہوسکتی ہے۔ بدیسی زبان کے باعث ہم مسلسل پسماندگی کاشکارہیں اورترقی کاواحدراستہ اردوکوتعلیمی،عدالتی اوردفتری زبان بناناہے۔ عدالتی نظام میں صرف انگریزی زبان کی وجہ کس قدر وقت کاضیاع ہوتاہے اورانصاف میں تاخیرہوتی جاتی ہے۔ کروڑوں بچے نظم تعلیم سے باہر ہیں کیونکہ انگریزی انہیں سمجھ نہیں آتی۔ وطن عزیزکے بڑے بڑے سیاسی و انتظامی وعدالتی عہدوں پر انگریزی تعلیم یافتہ افرادبیٹھے ہیں اورانہوں نے ریاست کے نظام کوجمودکاشکارکیاہواہے۔ غلامی زدہ اشرافیہ نے انگریزی زبان کے ذریعے ملک کوترقی کرنے سے روک رکھاہے اورنوجوان مجبوراََ ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔
پانچ ہزار سالہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی قوم نے اس وقت تک ترقی نہیں کی جب تک اس نے اپنی زبان کو ہر شعبہ میں ذریعہ اظہار نہیں بنایا۔ نجانے ہم کس احساسِ کمتری اور غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اردو زبان کو بطور سرکاری اور دفتری زبان نافذ کرنے میں ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔مائیں بڑے پیار سے اپنے بچوں کو یہ زبان سکھاتی ہیں۔ اس میں ادبی، سیاسی، قومی، معاشی، معاشرتی، طبی، جغرافیائی، سائنسی اور مذہبی علوم کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ اس میں قرآن پاک کے تراجم، بے شمار تفاسیر اور احادیث شائع ہوچکی ہیں۔ گویا یہ نہ صرف پاکستانیوں بلکہ مسلمانوں کی ایک معتبر اور ثقہ بند زبان ہے۔ پاکستانی اور ہندوستانی پوری دنیا میں پھیل چکے ہیں۔ پاکستان کی تبلیغی جماعت پوری دنیا میں جاتی ہے جو تبلیغ کے ساتھ ساتھ اردو کی ترویج کا بھی سبب بنتی ہے۔ اس کی وسعت اور مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان، بنگلہ دیش، کشمیر، افغانستان اور بھارت کے کروڑوں انسان اردو بولتے، لکھتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ ان ملکوں سے اردو میں لاکھوں کتابیں چھپتی ہیں۔ بہت سے اخبارات، ماہنامے اور سالنامے شائع ہوتے ہیں۔ پاکستان اوربھارت میں اس کے فروغ کے لیے بہت سے ادارے سرگرم عمل ہیں۔ دستور پاکستان کے آرٹیکل 251 کے مطابق پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں گے۔ انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی جاسکے گی، جب تک کہ اس کے اردو سے تبدیل کرنے کے انتظامات نہ ہوجائیں۔ قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر، کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعہ قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم، ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی۔ لہٰذا اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے لحاظ سے مکمل طور پر نافذ کرنا پاکستان کے بیس بائیس کروڑ عوام کا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری اور قانونی استحقاق بھی ہے۔ یقین نہ آئے تو اردو کے حق میں رائے دہی کرا کے دیکھ لیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ عوام کی خواہشات و جذبات کا احترام کرتے ہوئے اور ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اردو کو فوری طور پر نافذ کیا جائے۔
اردو اپنے لب و لہجہ ، رکھ رکھاؤ، روز مرہ محاوروں، اندازِ بیان، موضوع و مواد اور مختلف الفاظ کے استعمال اور ایجاد کے لحاظ سے ایک مکمل زبان ہے۔ اس نے اپنی ساخت، مرکبات کے اصول اور قواعد میں ہر زبان سے فائدہ اٹھایا ہے لیکن بحیثیت مجموعی وہ کسی کی پابند نہیں ہوئی، بلکہ اس نے اپنی لغت، اپنا اسلوب، صرفی و نحوی قاعدے واحد جمع، تذکیر و تانیث کے اصول الگ بنا لیے ہیں اور انہی کی پابندی اردو کی فصاحت و بلاغت اور حسن کا معیار متعین کرتی ہے۔اپنی زبان کے علاوہ کوئی اور زبان سیکھنا جرم اور گناہ تو نہیں ہے، مگر اپنی زبان کا ترک ایسا جرمِ عظیم ہے جو پوری قوم کو تنزل میں دھکیل دیتا ہے۔ اپنی زبان کو چھوڑ کر دوسروں کی زبان کے پیچھے اس قدر پڑ جانا کہ رات دن اسی کو منہ مروڑ کر بولنے کی کوشش کی جائے کہ جیسے ساری کامیابی اسی میں ہے، حالانکہ معاملہ اس کے اْلٹ ہے۔ کسی دوسری زبان کی تحصیل بطور ثانوی زبان ہونی چاہیے اور بطور ثانوی زبان ہی اسے اہمیت دینی چاہیے، جبکہ اپنی زبان کو اولین حیثیت دینی چاہیے۔ دنیا میں کتنے چھوٹے بڑے ملک ہیں جنہوں نے ہماری طرح انگریزی کا سہارا بھی نہیں لیا، ترقی بھی ہم سے زیادہ کی ہے اور اپنی زبان کا دامن بھی مضبوطی سے تھاما ہوا ہے، اپنی زبانوں میں پی ایچ ڈی تک کروا رہے ہیں۔
اصل میں قومی زبان کا حق یہ ہوتا ہے کہ پوری قوم اسے بالاتفاق ذریعہ اظہار بنائے اور سرکاری سطح سے اسے ہر شعبے میں نافذ کیا جائے مگر ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ دونوں چیزیں ناپید ہیں، قوم مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کا رونا روتی رہتی ہے اور حکومتی سطح پر انگریزی کو اہمیت دی جاتی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج وجود جمعرات 21 نومبر 2024
پی ٹی آئی کے کارکنوں کو چیلنج

آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش وجود جمعرات 21 نومبر 2024
آسٹریلیا کا سکھوں کو نشانہ بنانے پر اظہار تشویش

بریک تھروکا امکان وجود جمعرات 21 نومبر 2024
بریک تھروکا امکان

انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی وجود بدھ 20 نومبر 2024
انڈس کوئن شاندار ماضی کی نشانی

ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ وجود منگل 19 نومبر 2024
ٹرمپ کی کابینہ کے اہم ارکان: نامزدگیوں کا تجزیہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر