... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
برصغیر میںساڑھے تین ہزار سال قبل گپتا خاندان کی بادشاہت قائم تھی اور اس دور کا گپتا بادشاہ روایتی کھیلوں سے بیزار ہوچکا تھا۔ بادشاہ کی جانب سے منادی کرائی گئی کہ جو کوئی بھی بادشاہ کے لئے نیا ،دلچسپ اور مزیدار کھیل بنائے گا اسے بیش بہاانعام دیا جائے گا۔بادشاہ کے اعلان پر سیسا نامی ایک شخص جو ریاضی میں مہارت رکھتا تھا،نے کئی ہفتوں کی محنت کے بعد ایک کھیل ”شطرنج ”ایجاد کیا۔یہ کھیل چونکہ بادشاہ کے کھیلنے کے لیے تیار کیا گیا تھا اس لیے سیسا نے کھیل میں بادشاہ ،ملکہ،وزیراور پیادہ جیسے کردارشطرنج میں شامل کیے ۔ سیسا شطرنج کا کھیل لے کر بادشاہ کے پاس حاضر ہوا تو بادشاہ دلچسپ کھیل سے بہت خوش ہوا اور خوشی کے عالم میں سیسا سے پوچھا ”مانگو کیا مانگتے ہو؟”سیسا نے چند لمحے سوچا اور بادشاہ سے کہا کہ ”حضور چاول کے چند دانے” بادشاہ نے پوچھا ”کیا مطلب ؟”سیسا بولا”آپ شطرنج کے 64خانے میری ترتیب کے مطابق چاول سے بھر دیں،یہی میرا انعام ہوگا ”بادشاہ نے پوچھا ”کیا ہے یہ ترتیب”۔سیسا بولا”بادشاہ سلامت پہلے دن پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھ کر مجھے دے دیا جائے ،دوسرے دن دوسرے خانے میں پہلے خانے کے مقابلے میں دگنے چاول یعنی چاول کے دو دانے رکھ دیجیے، تیسرے دن تیسرے خانے میں دوسرے خانے کے مقابلے میں پھر دگنے چاول یعنی چار دانے رکھ دیں اور اسی طرح آپ ہر خانے میں چاولوں کی مقدار کودگنی کراتے چلے جائیںیہاں تک کہ چونسٹھ خانے پورے ہو جائیں”۔بادشاہ نے قہقہ لگایا اور سیسا کی شرط کو بے وقوفانہ تصور کرتے ہوئے اسے مان لیا۔
چنانچہ بادشاہ نے پہلے دن شطرنج کے پہلے خانے میں چاول کا ایک دانہ رکھا اور اسے اٹھا کر سیسا کو دے دیا، دوسرے دن دوسرے خانے میں چاول کے دو دانے رکھ دئیے گئے، تیسرے دن تیسرے خانے میں چاولوں کی تعداد چار ہو گئی، چوتھے روز آٹھ چاول ہو گئے، پانچویں دن ان کی تعداد 16ہو گئی،چھٹے دن یہ 32ہو گئے، ساتویں دن یہ 64ہو گئے، آٹھویں دن یعنی شطرنج کے بورڈ کی پہلی رو کے آخری خانے میں 128چاول ہو گئے، نویں دن ان کی تعداد 256ہو گئی ، دسویں دن یہ 512ہو گئے، گیارہوں دن ان کی تعداد 1024ہو گئی، بارہویں دن یہ 2048ہو گئے،تیرہویں دن ان کی تعداد 4096، چودہویں دن یہ 8192ہو گئے، پندرہویں دن یہ 16384ہو گئے۔سولہویں دن یہ 32768ہو گئے اور یہاں پہنچ کر شطرنج کی دو قطاریں مکمل ہو گئیں۔ بادشاہ اور اس کے سارے وزیر وں،مشیروں کا پورا دن چاول گننے میں گزر جاتا۔بادشاہ کواندازہ ہونے لگا کہ وہ کسی بڑی مشکل میں پھنس چکا ہے ۔
شطرنج کی تیسری قطار کے آخری خانے تک پہنچ کر چاولوں کی تعداد 80لاکھ تک پہنچ گئی اور بادشاہ کو چاولوں کو میدان تک لانے اور سیسا کو یہ چاول اٹھانے کیلئے درجنوں لوگوں کی ضرورت پڑ گئی۔جب شطرنج کی چوتھی رو یعنی 33واں خانہ شروع ہوا توپورے ملک سے چاول ختم ہو گئے۔ بادشاہ حیران پریشان ہو گیاکہ ابھی تو شطرنج کے خانے پورے بھی نہیں ہوئے اور چاول ختم ہوگئے۔ بادشاہ نے اسی وقت ریاضی دان بلائے اور ان سے پوچھا ”کہ شطرنج کے 64خانوں کو بھرنے کیلئے مزیدکتنے چاول درکار ہوں گے ا ور ان کیلئے کتنے دن چاہئیں؟ ” ریاضی دان کئی دنوں تک حساب کرتے رہے لیکن وہ وقت اور چاولوں کی تعداد کا اندازہ نہ لگا سکے بلکہ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بادشاہ کی ساری دولت ختم ہوجائے گی لیکن شطرنج کی چال ختم نہیں ہوگی ۔یہ سن کر بادشاہ شدیدغصے میں آگیااور سیساکا سرقلم کرنے کا حکم دے دیا۔شطرنج ایجاد کرنے کے بعدبادشاہ کو کنگال کردینے والی انوکھی چال کھیلنے پر سیسا کو موت مل گئی۔شاید سیسا کو بھی اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ انعام کے لالچ میں اس نے شطرنج کی جو چال چلی تھی وہ اس کی موت کا سبب بن جائے گی۔
سیسا کی موت سے لے کر آج تک شطرنج کے 64خانوں کو چاولوں سے بھرنے کا اندازہ ایک نہ حل ہونے والا معمہ بنا رہا۔آخر کارساڑھے تین ہزار سال بعد بل گیٹس نے اس معمہ کوحل کرکے بتایا کہ اگر ہم ایک کے ساتھ انیس19زیرو لگائیں تو شطرنج کے 64خانوں میں اتنے چاول آئیں گے، ایک بوری میں ایک ارب چاول بھریں تو ہمیں چاول پورے کرنے کیلئے 18ارب بوریاں درکار ہوں گی، ان چاولوں کو گننے ،شطرنج پر رکھنے اور اٹھانے کیلئے ڈیڑھ ارب سال چاہئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام حساب عام کلکولیٹر کی بجائے صرف کمپیوٹر کے ذریعے ہی کلکولیٹ کیا جا سکتا ہے۔تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ شطرنج کا آغاز چھٹی صدی قبل مسیح میں بھارت میں ہوا۔ بھارت سے یہ کھیل ایران پہنچا اور جب مسلمانوں نے ایران فتح کرنے کے بعد مغربی ممالک کا رُخ کیا تو یہ کھیل جنوبی یورپ تک پہنچ گیاجہاں شطرنج کی جدید شکل 18ویں صدی میں سامنے آئی۔اقوام متحدہ کی ثقافتی تنظیم یونیسکو کے فیصلے کے مطابق سن 1966 سے ہر سال20 جولائی کو شطرنج کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔شطرنج کے موجد”سیسا” نے بادشاہ کے ساتھ جو انوکھی چال کھیلی تھی اس کو آج تک بلکہ کبھی بھی ،کوئی بھی نہ کھیل سکتا ہے اور نہ ہی پورا کرسکتا ہے۔
٭٭٭