وجود

... loading ...

وجود

الیکشن کے واضح اعلان کے باوجود بے یقینی موجود

پیر 17 جولائی 2023 الیکشن کے واضح اعلان کے باوجود بے یقینی موجود

وزیراعظم شہباز شریف کے اس اعلان کے بعد کہ 14 اگست کو موجودہ مخلوط حکومت اختیارات نگراں حکومت کے حوالے کرکے سبکدوش ہوجائے گی اور عام انتخابات کی تیاریاں شروع کردی جائیں گی،یہ ظاہرہوتاہے کہ ملک کی سیاسی صورتحال ایک نئے دور میں داخل ہونے والی ہے۔ وفاقی وزراء اور دیگر سیاستدانوں کے حالیہ بیانات سے بھی یہی تاثر ملتا ہے کہ اب موجودہ وفاقی حکومت کی مدت اگلے ماہ کے آغاز میں ختم ہوجائے گی۔ اسمبلیاں تحلیل ہوجائیں گی اور انتخابات اسی سال اور بر وقت ہوں گے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے پہلی بار اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد نگران سیٹ اپ کی بات کی ہے، اس لیے اسے قابل بھروسہ تصور کیا جا رہا ہے۔وزیر اعظم نے اگست میں اقتدار چھوڑنے کی بات یقینا اپنے اتحادیوں کے ساتھ حالیہ عرصے میں ہونے والے مذاکرات کے بعد طے پانے والے اتفاق رائے کے بعد کی ہے۔ وزیراعظم کے اعلان کو پیش ِ نظر رکھا جائے تو اب ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں اقتدار کا منظرنامہ تبدیل ہو جائے گا۔ نگران حکومتیں آ جائیں گی اور الیکشن کا کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوگا،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ انتخابات کے بارے میں وزیراعظم کے دو ٹوک اعلان اور موجودہ کابینہ کے اہم وزرا کے بیانات کے باوجود ملک میں کہیں بھی ایسی کوئی سرگرمی نظر نہیں آتی جس سے اندازہ ہوسکے کہ ملک میں انتخابات اتنے قریب ہیں، ایک مبہم سی فضا ہے جس نے سارے ماحول کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔یہاں یہ سوال بھی بار بار اٹھایاجارہاہے کہ کیا الیکشن کمیشن اکیلا انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے؟ کیا وہ واقعی اتنا بااختیار ہے۔یہی وہ سوال ہے جس کی بنا پروزیراعظم کے واضح اعلان کے باوجود غیر یقینی موجود ہے۔ اس صورت حال کا بنیادی سبب وزیراعظم کی جانب سے عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کیا جانا ہے۔ اس وقت جو 13جماعتیں اقتدار میں موجود ہیں، اگر وہ اس حوالے سے یکسو ہو جائیں اور انتخابات کے حوالے سے ابہام زدہ کیفیت سے نکل آئیں تو پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انتخابات اکتوبر یا نومبر میں ہو جائیں گے، ابھی تو خود ان جماعتوں کے اندر سے مختلف آوازیں سامنے آ رہی ہیں۔ کوئی کہتاہے کہ انتخابات وقت پر ہونے چاہئیں کوئی اس سیٹ اپ کی مدت بڑھانے پر مُصر ہے۔ اس سیٹ اپ کی مدت بڑھانے کی سب سے زیادہ مخالف پیپلزپارٹی ہے کیونکہ وہ سمجھتی ہے کہ ایک بار انتخابات مقررہ وقت سے آگے گیا تو پھر انتخابات کی امید بہت دور چلی جائے گی۔ تاہم حیران کن امر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اس حوالے سے دوٹوک موقف اختیار نہیں کر رہی۔ وزیراعظم شہبازشریف نے یہ تو کہہ دیا ہے کہ 14اگست کو حکومت کی مدت ختم ہو رہی ہے، یہ نہیں کہا کہ اس کے بعد 60دن کے اندر انتخابات ہوں گے۔ یہ معاملہ الیکشن کمیشن پر چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ انتخابات مقررہ وقت کے اندر ہونے چاہئیں اور اس حوالے سے کوئی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔ جب نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے کئے جاتے ہیں تو سیاست اصولوں اور روایات سے ہٹ کر کسی اور سمت چلی جاتی ہے۔ کسی خاص جماعت کی مقبولیت کا ہوا کھڑا کرکے جمہوری روایات سے انحراف کرنا یا کوئی چور راستہ اختیار کرنا ملک کو نئی سیاسی بے یقینی سے تو دوچار کر سکتا ہے، مستحکم نظام کی طرف نہیں لے جا سکتا۔ اگر وزیراعظم شہبازشریف یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ماہ بعداس سیٹ اپ کی مدت ختم ہونی والی ہے تو انہیں فوراً اپنی اتحادی جماعتوں کا اجلاس بلا کر اس یک نکاتی ایجنڈے پر مشاورت کرنی چاہیے کہ اسمبلیاں کب توڑی جائیں اور الیکشن کمیشن کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے کیا تجویز بھیجی جائے۔یہ بات واضح ہے کہ اگر انتخابات وقت پر اور شفاف ہوئے تو پاکستان کئی بحرانوں سے نکل آئے گا، جن میں معاشی بحران بھی شامل ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں کا امتحان ہے کہ وہ تاریخ کے اس دوراہے پر دانشمندانہ فیصلے کرکے ملک کو استحکام اور ترقی کی راہ پر ڈال دیں۔یہ بات خوش آئند ہے کہ اب خود حکومتی حلقے اور مقتدر وزرا نے یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے سے نہیں روکنا چاہیے۔سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما ایاز صادق نے دوٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ الیکشن میں کسی سیاسی جماعت پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ جبکہ اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) کے ہی چند وزراء جن میں رانا ثنا اللہ بھی شامل ہیں 9مئی کے واقعات کو بنیاد بنا کر تحریک انصاف پر پابندی لگانے اور الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے کی بات کرتے رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ بات زبان زدِ عام تھی کہ تحریک انصاف کو روکنے کیلئے پوری تیاری کر لی گئی ہے، اگرچہ حکومتی حلقوں سے کسی بھی سیاسی پارٹی کو الیکشن میں حصہ لینے سے نہ روکنے کا مطالبہ کیاجارہاہے لیکن حکومتی سطح پر تحریک انصاف کو دیوار سے لگانے کا عمل اب بھی زور شور سے جاری ہے اور حکومت کی جانب سے عمران خان کو الیکشن کے عمل سے باہررکھنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے، جس طرح تحریکِ انصاف کو پابندیوں کا سامنا ہے، اسے دیکھتے ہوئے یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ اسے الیکشن میں فری ہینڈ دیا جائے گا۔ تاہم تحریک انصاف یا عمران خان کو انتخابات سے باہر رکھنے کی کوشش کرنے والی تمام طاقتوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ پاکستان میں جب بھی انتخابات ہوں گے، دنیا بھر کے میڈیا اور مبصرین کی نظریں اُن پر ہوں گی، اُنہیں نظرانداز کرنا غلطی ہو گی کیونکہ پہلے ہی پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔مسئلہ پی ڈی ایم حکومت کے رخصت ہونے سے حل نہیں ہو سکتا۔ عوام کا مطالبہ عام انتخابات ہیں۔ لوگ چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابات میں شرکت کے یکساں مواقع ملیں۔کسی جماعت کو انتخابی عمل سے نکالنے کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ ووٹروں کی ایک بڑی تعداد کو حق رائے دہی کے استعمال سے روک دیا جائے یا ان کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں نئی حکومت عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر سکے گی۔ پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے۔مشکل سے نمٹنے کے لئے تصادم کے بجائے سیاسی سطح پر مشاورت اور اتفاق کے ساتھ قومی ایجنڈا ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ آئین پاکستان انتخابی طریقہ کار، ذمہ داریوں،نگران حکومتوں اور سیاسی نمائندگی کے متعلق واضح رہنمائی کرتا ہے۔یہ امر مبنی بر بدنیتی تصور کیا جا سکتا ہے کہ آئین میں موجود بعض خامیوں کو قانونی آڑ بنا کر کسی کو بھی انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی روش اختیار کر لی جائے، یہ سلسلہ اب ترک ہونا چاہئے اور الیکشن کو زیادہ صاف،شفاف اور منصفانہ بنانے کیلئے تحریک انصاف کے ان ہزاروں کارکنوں کو فوری طورپر غیرمشروط طورپر رہا کیاجانا چاہئے جنھیں گزشتہ کئی ماہ سے مسلسل پابند سلاسل رکھ کر ان کی برداشت کی حد کی آزمائش کی جارہی ہے تاکہ وہ رہائی حاصل کرکے ملک میں اپنی پسند کی حکومت کے قیام کیلئے آزادانہ طورپر اپنا حق رائے دہی استعمال کرسکیں۔نگران حکومت کو غیر جانبدار ہونا چاہیے۔پنجاب جیسا انتظام مرکز میں کیا گیا تو آئندہ انتخابات مشکوک ہو سکتے ہیں، اور ملک کبھی نہ ختم ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی جانب جا سکتا ہے۔ سیاسی مفاد اور ذاتی اغراض جب ریاست کے مفاد سے بلند ہو جائیں تو ریاست کیلئے روز مرہ کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے۔ریاست کو یہ خرابی فوری طور پر دور کرنے پر توجہ دینا ہو گی جو عوام کے بھروسے کو مجروح کر رہی ہے۔ملک میں موجودہ غیر یقینی کی کئی وجوہات موجود ہیں۔ یہ وجوہات خود پی ڈی ایم جماعتوں نے پیدا کی ہیں اس لئے ان کا رفع کرنا بھی حکمران اتحاد اور اس کے قائدین کی ذمہ داری ہے۔
اس وقت بظاہر صورت حال یہ ہے کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) حکومت کی مدت ختم ہونے سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ تاحال حکومت کی اتحادی پارٹیوں میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ یا ایک ہی بینر تلے الیکشن لڑنے کا کوئی معاہدہ نہیں ہوسکاہے اور تمام پارٹیاں آزادانہ طور پر عام انتخابات کے میدان میں اترنے کیلئے منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔حکومت کی مدت ختم ہونے کے قریب ہے اور اسی دوران دبئی میں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے مابین ملاقاتیں اہمیت اختیار کرچکی ہیں جن میں اطلاعات کے مطابق نئے عبوری سیٹ اپ اور عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے مستقبل کے سیاسی منظر نامے پر تبادلہ خیال کیا جاچکا ہے لیکن کسی بات پر اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تفصیلات منظر عام پر لانے سے گریز کیا جارہا ہے۔
امیدکی جاتی ہے کہ الیکشن رواں برس ہوں گے اور لوگوں کو اپنے حکمرانوں کو خود چننے کا اختیار دیا جائے گا۔ہوسکتا ہے کہ مشکلات کا شکار پی ٹی آئی جیتنے کی پوزیشن میں نہ ہو لیکن اپنے مخالفین کا بھرپور مقابلہ ضرور کرسکتی ہے۔دوسری جانب جہانگیر ترین کی پارٹی استحکام پاکستان شاید ملک کی آئندہ کی سیاسی صورتحال میں کوئی فیصلہ کن کردار ادا نہ کرسکے، پھر بھی یہ امید اپنی جگہ قائم رہے گی کہ آئندہ آنے والے دور میں ملک سیاسی بحران سے نکلے اور معاشی صورتحال بھی بہتری کی جانب لوٹ آئے تاہم انتخابات کی حتمی تاریخ کے اعلان تک پی ڈی ایم جماعتوں کے مابین مزید بڑے اختلافات کے خدشات بھی جنم لیتے رہیں گے۔


متعلقہ خبریں


امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود - پیر 08 جولائی 2024

مولانا محمد سلمان عثمانی حضرت سیدناعمربن خطاب ؓاپنی بہادری، پر کشش شخصیت اوراعلیٰ اوصاف کی بناء پر اہل عرب میں ایک نمایاں کردار تھے، آپ ؓکی فطرت میں حیا ء کا بڑا عمل دخل تھا،آپ ؓ کی ذات مبارکہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ نبی مکرم ﷺ خوداللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا مانگی تھی ”...

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

مضامین
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر