... loading ...
روہیل اکبر
پاکستان ٹورازم پرموشن کونسل کے سربراہ بشیر اے شیخ نے ملک میں سیاحت کی ترقی کے لیے ایک خوبصورت پروگرام منعقد کیا جس میں گورنر پنجاب انجینئر بلیغ الرحمن مہمان خصوسی جبکہ چیمبر آف کامرس کے صدر ،مال روڈ ٹریڈرز ایسوسی ایشن کے صدر سہیل بٹ اورکشمیری رہنما فاروق آزادبھی مہمانوں میں شامل تھے ان سب ہی افراد نے نہ صرف پاکستان کا ہر علاقہ دیکھا ہوا ہے بلکہ دنیا بھی گھوم چکے ہیں اور میں حیران ہوں کہ اسکے باوجود ہم سیاحت میں بہت پیچھے ہیں حالانکہ پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے جہاں ہر موسم ملتا ہے۔ اس کے ریگستانوں ،ندی ،نالے دریائوں ،آبشاروںاور سمندر کا کسی سے مقابلہ ہے اور نہ ہی اس کے برف پوش چوٹیوں،لہلاتی فصلوں اور بادلوں سے اٹکھیلیاں کرتے ہوئے بلندوبالا پہاڑ وں کا کوئی مقابل ہے، کشمیر تو ہے ہی جنت نظیر جہاں کا حسن اس خطے کو دنیا سے ممتاز کردیتا ہے۔ سندھ تہذیبوں کا زندہ ثبوت آج بھی قائم دائم ہے۔ بلوچستان سونے کی چڑیا ،پنجاب داستانوں کی سرزمین اور گلگت بلتستان کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔ بلکہ اس کی کوئی مثال بھی نہیں۔ لیکن ان سب قدرت کی لازاوال اور لامحدود نعمتوں کا ہم کوئی فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ ان سب باتوں کا غیر جانب دار تجزیہ کیا جائے تو پھر مجھے بشیر اے شیخ کی باتیں بالکل درست لگتی ہیں جنکا گورنر کے سامنے یہ کہنا تھا کہ آج ہم قرضہ حاصل کرنے کے لیے آئی ایم ایف کی منتیں کر رہے ہیں اگر حکومت سیاحت پر توجہ دے تو اتنے ہی پیسے تین ماہ میں اکٹھے ہو سکتے ہیں جس کی واپسی بھی نہیں ہوگی لیکن حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے ۔ میں سمجھتاہوں کہ شیخ صاحب کی باتین سو فیصد درست ہیں۔ ان کے پاس بہت سے آئیڈیا زبھی ہونگے۔ اگر حکومت ان سے ملک میں سیاحت کی ترقی کے حوالے سے کوئی کام لے سکے تو اچھا ہوگا۔پاکستان کی سیاحت میں اگر کوئی سب سے آگے ہے تو وہ گلگت بلتستان ہے۔ جس کے لیے وہاں کے گورنر سید مہدی شاہ کا سب سے زیادہ حصہ ہے جو گلگت
بلتستان کے پہلے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے ہیں۔ انہوں گلگت بلتستان میں ریکارڈ ترقیاتی کام کروائے سڑکیں بنوائیں جس کے بعد کئی دنوں کا سفر گھنٹوں میں سکڑ گیااور پھر نہ صرف پاکستان سے بلکہ بیرونی دنیا کے سیاح بھی گلگت بلتستان پہنچے اور سکون پورے گلگت بلتستان میں ایسا کہ کہیں چوری اور ڈکیتی کا نام ونشان نہیں۔ 24گھنٹے جہاں مرضی گھومیں کوئی روک ٹوک نہیں ۔پولیس ایسی مثالی کہ پاکستان کے کسی شہر میں ان جیسا ایک بھی ڈھونڈ لیں نہیں ملے گا۔ لوگ اتنے پیار والے کہ راہ چلتے ہوئے سیاح گاڑی سے اتر کر کسی کے بھی چیری ،خوبانی اور آڑو کے باغ میں تازہ پھلوں کا مزہ لے رہے ہوں تو گھر والے پلیٹ میں رکھ کر مزید دے دیتے ہیں۔ یہ سب مہدی شاہ کی لیڈر شپ کا کمال ہے اور رہی سہی کسر گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹر محی الدین وانی نے پوری کردی ہے۔ اب گلگت بلتستان جانے والوں کو ایک خوشگوار تبدیلی بھی محسوس ہوتی ہوگی۔ پچھلے کئی سالوں سے رکے ہوئے کام تیزی سے اپنے اختتام کی طرف گامزن ہیں۔ بہت عرصہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں ایک مرتبہ پھر نئی بنا دی گئی ہیں ۔اگر یہ جوڑی اسی طرح کام کرتی رہی تو امید ہے کہ اکیلا گلگت بلتستان ہی قرضے جتنے پیسے کمانا شروع کردے گا اور اب تو حکومت کی تبدیلی سے ترقیاتی کاموں میں مزید تیزی بھی آئیگی۔
گلگت بلتستان کے نئے منتخب وزیر اعلی حاجی گلبر خان کا تعلق پی ٹی آئی فارورڈ بلاک سے ہے حاجی گلبرخان کو فاروڈ بلاک سمیت مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل تھی انہیں گلگت بلتستان اسمبلی کے گزشتہ روز( جمعرات کو) ہونے والے اجلاس میں موجود 19ارکان نے ووٹ دیے تھے ان سے پہلے جو وزیر اعلی تھے انہیں چیف کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے جعلی ڈگری کیس میں نا اہل قرار دیا تھا جس کے بعد نئے وزیر اعلی کے لیے پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے راجا اعظم، ن لیگ کی جانب سے انجینئر محمد انور کے علاوہ امجد ایڈووکیٹ نے بھی وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے ۔حاجی گلبرخان کا تعلق گلگت بلتستان کے ضلع دیامر سے ہے وہ نومبر 2009کے انتخابات میں جے یو آئی ف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے، 2009میں پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت میں وزیر صحت رہے۔ حاجی گلبرخان کو 2015میں ن لیگ کے امیدوار نے شکست بھی دی تھی جسکے بعدحاجی گلبر خان 2020کے انتخابات میں پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور وزیرصحت رہے۔ نو منتخب وزیراعلی گلگت بلتستان کے حلقہ 18دیامر 3تانگیر سے منتخب ہوئے تھے۔ گلگت بلتستان میں چائنا بھی بہت سے ترقیاتی کام کروا رہاہے۔ سی پیک کی تکمیل کے بعد سیاحت کا بھی ایک نیاباب کھلے گا۔ گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری جب تک لاہور میں رہے انہوں نے وہاں بھی بہت کام کیا۔ وہ ایک سمجھدار ،محنتی اور محب وطن شخصیت تو ہیں ہی ساتھ میں ملنسار بھی ہیں۔ اگر وہ بھی پنجاب حکومت کی طرح گلگت بلتستان میں یہاں کی اشیاء کو پروموٹ کرنے کے لیے میلوں کا ہتمام کریں جس طرح چیری کو انہوں نے دنیا تک رسائی دے دی۔
ابھی چند پہلے پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی کی ہدایت پر دستکاری میلے کا اہتمام کیا گیا جس سے دستکاریوں کو بین الاقوامی سطح پر فروغ دیکر ملک کے لئے کثیر زرمبادلہ حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ پاکستان، ایران، ترکی اور افغانستان کے دستکاروں کے ہاتھوں میں جادو ہے اور ان کی بنی ہوئی اشیا دنیا بھر میں مشہور اور پسند کی جاتی ہیں پاکستانی دستکار اجرک سے لیکر قالین، نمک، مٹی سے ایسی اشیا بنائی جاتی ہیں کہ انسان ورتہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے، دستکار میلے کے انعقاد سے ہنرمندوں اور دستکاروں کو اپنے فن کے جوہر دکھانے کا موقع بھی میسر آتا ہے دستکاریوں کے ذریعے دنیا میں پاکستان کا سافٹ بھی امیج بھی ابھرتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی اس قسم کے پروگرام منعقد کئے جائیں تاکہ پاکستانی دستکاریوں کو عالمی شناخت ملے لاہور میں یہ شاندار میلہ کروانے پر میں سیکرٹری صنعت وتجارت احسان بھٹہ، ایم ڈی پنجاب سمال انڈسٹریز کارپویشن عاصم جاوید ، ایران اور ترکی کے قونصل جنرلز، پنجاب سمال انڈسٹریز کے افسران کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور خاص کر اس میلے کو چار چاند لگانے والے دستکار خواتین اور مرد وں کی وجہ سے یہ ممکن ہوسکاآخر میں گورنر سید مہدی شاہ ،وزیر اعلی حاجی گلبر خان اور چیف سیکریٹری محی الدین وانی سے گزارش ہے کہ استور روڈ کی توسیع کا جو کام جاری تھا اسے عوامی فلاحی اور سیاحتی حوالے سے جاری رکھیں ۔
٭٭٭