وجود

... loading ...

وجود

''کراہ۔چی''

اتوار 16 جولائی 2023 ''کراہ۔چی''

علی عمران جونیئر
دوستو،تازہ خبر کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑے شہر کراچی رہائش کے اعتبار سے دنیا کے بدترین شہروں میں شامل ہوگیا۔عالمی جریدے دی اکانومسٹ کے اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (ای آئی یو) کی شہروں کے حوالے سے جاری انڈیکس 2023 کے مطابق کراچی کا شمار رہائش کے اعتبار سے دنیا کے بدترین شہروں میں ہوتا ہے۔ کراچی کے بعد فہرست میں صرف الجزائر، لاگوس، لیبیا کا دارالحکومت تریپولی اور شام کا دارالحکومت دمشق شامل ہیں۔ای آئی یو کے گلوبل لیوایبلٹی انڈیکس 2023 میں 173 شہروں میں کراچی کا نمبر 169 ہے۔ کراچی انڈیکس میں شامل پاکستان کا واحد شہر ہے۔شہروں کی رینکنگ استحکام، نظام صحت، کلچر، ماحولیات، تعلیم اور انفراسٹکچرکی بنیاد پر کی جاتی ہے اورشہروں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک سے 100 تک کا اسکور دیا جاتا ہے۔ ایک کو ناقابل برداشت جبکہ 100 کو مثالی سمجھا جاتا ہے۔شہروں میں رہنے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سے 100 تک کا اسکور دیا جاتا ہے۔ ایک کو ناقابل برداشت سمجھا جاتا ہے اور 100 کو مثالی سمجھا جاتا ہے۔کراچی کا 100 میں سے مجموعی اسکور 42.5 رہا جو ایک مثالی ا سکور سے کم ہے۔ کراچی کو سب سے کم 20 نمبر استحکام کے ملے جبکہ نظام صحت کے حوالے سے 50، کلچر اور ماحولیات پر 38.7، تعلیم پر 75 اور انفرا اسٹرکچر پر 51.8 اسکور ملا ہے۔دنیا کے سب سے زیادہ رہائش کے قابل شہروں میں آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا پہلا نمبر ہے جبکہ ڈنمارک کا دارالحکومت کوپن ہیگن دوسرے اور آسٹریلیا کا شہر میلبرن تیسرے نمبر پر ہے۔
ہمیں لگتا ہے یہ سروے والے گھر بیٹھے جو مرضی چاہے چھاپ دیتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے ایک جرمن ادارے کی ریسرچ نے پاکستانی قوم کو چونکا کررکھ دیا۔لیکن ہمیں اس پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔رپورٹ کے مطابق پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی دنیا میں سب سے زیادہ چرس استعمال کرنے والے شہروں کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ اس فہرست میں امریکہ کا شہر نیو یارک پہلے نمبر پر ہے۔جرمن کمپنی اے بی سی ڈی کی تحقیق کے مطابق نیو یارک میں سالانہ 77 ٹن سے زائد چرس استعمال کی جاتی ہے جبکہ دوسرے نمبر پر کراچی آتا ہے جہاں 42 ٹن چرس پھونکی جاتی ہے۔ انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں 38 ٹن سے زائد چرس پی جاتی ہے۔اے بی سی ڈی، دنیا میں چرس کو قانونی حیثیت دلانے کے حوالے سے جاری ایک مہم کا حصہ ہے۔کینابس درحقیقت پودوں کی ایک قسم ہے جسے دنیا کے مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ امریکہ میں اس کے پتوں کو جلا کر پھونکا جاتا ہے جبکہ برِصغیر میں اس کے پتوں سے چرس بنا کر استعمال کی جاتی ہے۔
کراچی، دلی کی طرح کئی بار اجڑا، اور بدستور اجاڑا جا رہا ہے۔ گو کہ کراچی کو بجا طور پر منی پاکستان کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ منی پاکستان اس قدر لاوارث ہے کہ اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کراچی کے قدیم باشندوں کی باتیں سنو تو دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ ہمارا شہر تو پاکستان کے ابتدائی برسوں ہی سے کمائوپوت رہا ہے، قومی آمدنی میں سب سے زیادہ پیسہ کراچی سے آتا ہے، بقول معاشی تجزیہ کاروں کے کہ، کراچی چلتا ہے تو پاکستان پلتا ہے۔اس شہر کی مردم شماری ہی ایمانداری سے نہیں کی گئی تو وسائل کی منصفانہ تقسیم کس طرح ممکن ہے۔ہمارا دعویٰ ہے کہ کراچی کی آبادی تین کروڑ سے کم نہیں، لیکن 2017کی آخری مردم شماری میں کراچی کی آبادی صرف 14.97ملین یعنی ڈیڑھ کروڑ کے قریب ظاہر کی گئی ہے۔ اب ظاہر ہے وفاق سے کراچی کو جو حصہ ملتا ہے وہ ڈیڑھ کروڑ لوگوں کے لیے ہی ہوتا ہے، جسے تین کروڑ لوگ استعمال کرتے ہیں۔ اسی لیے کراچی کے شہریوں کو بجلی پوری ملتی ہے، نہ پانی اور نہ گیس۔یہاں کے شہری پینے کا پینے خریدتے ہیں، ویسے ہی جیسے دودھ خریدتے ہیں، سارا سارا دن باہر جان مار کر گھر کو لوٹنے والے طویل راستوں سے ہو کر گزرتے ہیں تو یونہی ان کا سفر اتنا طے ہوجاتا ہے جتنا عموماً ایک سے دوسرے شہر تک کے لیے کوئی کرے۔ یہ وہ شہر ہے جہاں پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں آتے ہیں اور کہنے والے کہتے ہیں اس غریب پرور شہر میں کوئی بھوکا نہیں سوتا، یہاں کی ہوا مہربان ہے اور یہاں کے مکین کشادہ دل۔ملک میں بڑے خیراتی اداروں کی ابتدا کراچی سے ہوئی۔مولانا ایدھی نے کراچی سے ہی دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس کا آغاز کیا،پھر رمضان چھیپا میدان میں آئے، شہر میں کوئی حادثہ یا واقعہ ہوجائے، دس ایمبولینس موقع پر موجود ہوتی ہیں۔ سیلانی سمیت کئی مخیر اداروں کے دسترخوان روزانہ لاکھوں غریبوں کا پیٹ بھرتے ہیں، تین ٹائم کا کھانا بلاجھجک ان دسترخوانوں پر بغیر کسی روک ٹوک مل جاتا ہے۔رمضان المبارک میں مجال ہے کسی کا روزہ مکروہ ہوجائے، سڑکوں،چوراہوں پر دنیا بھر کی چیزیں افطار میں دستیاب ہوتی ہیںاور نوجوان لڑکے زبردستی افطار کی دعوت دے کر روکتے ہیں۔
کراچی میں کوئی سرکاری ٹرانسپورٹ سسٹم نہیں،جو بسیں،وین یا کوچز چلتی ہیں سب نجی بنیادوں پر۔اسی لیے ماضی میں جب بھی کوئی تنظیم ہڑتال کا اعلان کرتی ہے تو سب سے پہلے ٹرانسپورٹرز کو دھمکایاجاتا ہے کہ گاڑیاں سڑکوں پر نکالنے کی کوئی ضرورت نہیں۔اعلیٰ عدلیہ نے چنگ چی چلانے کی اجازت بھی دے دی ہے، جس سے جہاں بہت سے لوگوں کو شکایت ہے وہیں یہ سواری اکثریت کیلئے کسی نعمت سے کم نہیں۔ چنگ چی کے حوالے سے ایک واقعہ بھی سن لیجیے۔چنگ چی ایسی سواری ہے جس میں آگے موٹرسائیکل لگی ہوتی ہے پیچھے کیبن نما ڈھانچے میں چھ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہوتی ہے، چنگ چی کا ڈرائیور ساتویں سواری کو اپنے پیچھے بٹھالیتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ نوٹ کماسکے۔چنگ چی والے گاڑی کو بھگاتے بھی ”نائٹ رائیڈر” کی کار کی طرح ہوتے ہیں۔اندھادھند تیزرفتاری میں جب وہ کسی کھڈے میں چنگ چی کو مارتے ہیں تو پیچھے بیٹھی سواریوں کی چیخیں نکل جاتی ہیں، اور کبھی غلطی سے اچانک ڈرائیور بریک ماردے تو پھر ڈرائیور کی ”چیخ ” نکل جاتی ہے۔کیونکہ ساتویں سواری بالکل اس سے جڑ کے جو بیٹھی ہوتی ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔شکر ہے جانوروں میں کھانا پکانے کا رواج نہیں، ورنہ ہاتھیوں کے خاندان کی بہو تو روٹیاں پکا پکا کر مر جاتی۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟ وجود پیر 25 نومبر 2024
اسلحہ کی نمائش کتنی کامیاب رہی؟

کشمیری غربت کا شکار وجود پیر 25 نومبر 2024
کشمیری غربت کا شکار

کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر