وجود

... loading ...

وجود

معاشی مشکلات کا یہ حل نہیں

هفته 15 جولائی 2023 معاشی مشکلات کا یہ حل نہیں

حمیداللہ بھٹی

آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر منظور ہونے پر ایسے خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں جیسے یہ معاشی بحالی کا سنگ میل ہو، حالانکہ قابلِ افسوس پہلو یہ ہے کہ گزشتہ برس پاکستان کا بیرونی قرضہ 123.574 تھا رواں برس کے دوران تیرہ ارب ڈالر مزیداضافہ ہونے سے غیرملکی قرضہ 136ارب ڈالرکی ریکارڈ حدتک پہنچ جائے گا۔ علاوہ ازیں مارچ کے بعد اگلے آئی ایم ایف پروگرام میں شمولیت بھی ناگزیر ہے۔ حالانکہ معاشی مشکلات کایہ حل نہیں بلکہ اِس طرح تو قرض کا بوجھ مزید بڑھتا جائے گا ۔معاشی مشکلات کا حل یہ ہے کہ اپنی ضروریات کے حوالے سے خودکفیل ہوں درآمدی اور برآمدی فرق ختم کیا جائے مگر خود کفالت کی بجائے قرض ملناارباب ِاختیاراپنی کامیابی تصورکرتے ہیں یہ پالیسی کئی عشروں سے ملک میں رائج ہے ایسے طرزِ عمل سے نہ توملک کو معاشی استحکام مل سکتا ہے اور نہ ہی غربت میں تخفیف آ سکتی ہے ۔
یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ خام مال کی عدم دستیابی یا مہنگاہونا صنعتی ترقی میں اہم رکاوٹ ہے نیز ضروریات کے مطابق سستی ہُنر مند افرادی قوت کابھی فقدان ہے جو کارخانوں کی بند ش کی اہم وجوہات ہیں لوڈشیڈنگ کا مسلہ بھی نہ صرف برقرار ہے بلکہ آئے روز بجلی کی قیمت میں اضافہ الگ پریشان کُن ہے مذکورہ مسائل کا حل تلاش کرنے کی بجائے حکمرانوں کی تونائیاں قرض حاصل کرنے کے لیے وقف ہے جیسے جیسے بجلی کی قیمت بڑھ رہی ہے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اسی بناپر صنعتکار دیگر شعبوں مین سرمایہ کاری کی طرف راغب ہورہے ہیںاِس طرح برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافے ہوتاجارہاہے بجلی مہنگی کرنا معاشی مسائل کا حل نہیں بلکہ حل یہ ہے کہ صنعت وحرفت کے لیے سازگار ماحول یقینی بنایا جائے ۔
معاشی صورتحال پر نظر رکھنے والے عالمی اِدارے فچ نے آئی ایم ایف سے قرض کا نیا معاہدہ ہونے پر پاکستان کی منفی معاشی صورتحال کو تھری سی میں تبدیل کردیا ہے جس کا مطلب ہے کہ معمولی بہتری کے باوجود معیشت مسائل سے دوچار رہے گی ایسے ہی ایک اور عالمی اِدارے بلوم برگ کے مطابق عالمی مالیاتی اِدارے آئی ایم ایف سے قرض ملنا معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں یہ درست ہے کہ عارضی طورپرہی سہی ڈالربانڈ میں 27 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیاہے نیزآئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اِدارے کی طرف سے اعتماد کرنے پر فنڈنگ میں بہتری کارجحان ہے مگر ابھی تک ادائیگیوں جیسے مسائل کا مکمل طورپرخاتمہ نہیں ہو سکا پاکستان کی ادائیگیاں زرِ مبادلہ کے ذخائر سے چھ گنا زائد ہیں پھربھی حکمران خوش ہیں کہ ملک کو دیوالیہ نہیں ہونے دیا تعجب ہے ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سعودی عرب دو ارب ڈالر،متحدہ عرب امارات ایک ارب ڈالر،رواں برس چین سے تین ارب ڈالر جبکہ عالمی بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک سے ملنے والے پچاس پچاس کروڑڈالر کی بنیاد پر دعویٰ کیا جارہا ہے کہ پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 11.6ارب ڈالر ہو جائیں گے 2024 میں پاکستان نے 23ارب ڈالر کی ادائیگیاں کرنا ہیںجس کے لیے زرِ مبادلہ کے ذخائرقطعی طورپر ناکافی ہیں اس لیے معاشی استحکام کے خوش کن دعوے کو عارضی کہے بناچارہ نہیں اورنہ ہی مزید قرض ملنے کو عالمی برادری کے اعتماد کا عکاس کہہ سکتے ہیںحالیہ قرض بھی ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعدحاصل ہوا یہ قرض حاصل کرنے سے قبل بجلی کے نرخ بڑھائے گئے اور عوامی سہولتوں میں کمی کی گئی ایسے فیصلوں کا خمیازہ سیاسی طورپر بھگتنا پڑے گا۔
ماضی کے کئی عشروں سے سبھی حکمرانوں نے معاشی بحالی کو ترجیح بنانے کی بجائے عوام کو وقتی طور پربے نظیر انکم سپورٹ جیسی سہولتیں دیکر سیاسی کامیابیاں حاصل کیں مگر اِس طرح ملک معاشی گرداب میں دھنستاچلا گیا آج صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ قرض کی اقساط اور سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرض حاصل کرنے پر مجبورہیں جو مہنگائی میں اضافے کی بڑی وجہ ہے زرائع آمدن کم ہونے نیز حکومتی سبسڈی کی کم ترین سطح سے ملک میں غربت بڑھ رہی ہے بائیس کروڑکی آبادی میں سے سات کروڑ افراد غربت کی لکیر سے نیچے جا چکے ہیں حالانکہ ہمارے ہمسایہ ممالک بھارت اور چین اِس حوالے سے مسلسل کامیاب ہیں بھارت 415 ملین جبکہ چین 900ملین آبادی کو غربت سے نکال چکا ہے دور کیوں جائیں ہم سے الگ ہونے والا بنگلہ دیش بھی معاشی ترقی میں ہمیں پچھاڑ چکا ہے ضرورت اِس بات کی ہے کہ قیادت ایسا لائحہ عمل بنائے جس سے جوہری طاقت کے ساتھ ملک معاشی طاقت بن سکے اِس کے لیے لازم ہے کہ سیاسی رہنما ،قوم اور اِدارے سنجیدہ ہوکر معیشت پر توجہ دیں تاکہ ملک کی اقتصادی اور معاشی حالت مستحکم ہو ملک کی چھہتر سالہ تاریخ میں چند خاندانوں کی مالی حالت بہتر ہونے کا ملک کو کوئی فائدہ نہیں ہوا یہ خاندان باری باری اقتدار میں آتے اور ملک کو معاشی طاقت بنانے کے کھوکھلے نعرے لگا کر رخصت ہوجاتے ہیںستم ظریفی تو یہ کہ یہی خاندان دوبارہ اقتدار میں آنے کے لیے ایسے ہی کھوکھلے نعروں پر اکتفا کیے ہوئے ہیں جس کا عوام کوبھی ادراک کرنا چاہیے مگر حقیقت جان کر بھی عوام انھی کی طرف دیکھنے پر مجبورہے
میرکیا سادہ ہیں بیمارہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
میں کوئی مایوسی نہیں پھیلاناچاہتامگر حقائق کو جھٹلانا بھی دانشمندی نہیں ہمیں یہ تسلیم کرلینا چاہیے کہ ہماری سیاسی قیادت دوراندیش نہیں بلکہ ذہنی افلاس کا شکار ہے جو ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کی بجائے وقتی سیاسی کامیابی کو ترجیح دیتی ہے۔ گزشتہ ایک برس کے اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ حکمرانوں کی لاپرواہی سے پاکستان دنیا کی چوبیسویں بڑی معیشت سے آج سینتالیسویں نمبر پر جاچکا ہے۔ مزیدیہ کہ ابھی بھی ملک کی معاشی حالت سنبھلتی دکھائی نہیں دیتی کیونکہ حکمرانوں کی توجہ مسائل حل کرنے سے زیادہ سابق حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرانااور آئندہ اقتدارحاصل کرنے پر ہے۔ مختلف الخیال سیاسی جماعتوں نے ملک کا اقتدار تو حاصل کر لیا ہے لیکن اِس دوران ملک کی معاشی حالت اتنی پتلی ہو چکی ہے کہ عوام کو ریلیف دینے کے لیے خزانے میں کچھ نہیں بچا حالات اِتنے خراب ہوچکے ہیں کہ آئے روز بجلی اور تیل کے نرخوں اور ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ کرنا مجبوری ہے۔ اِس طرح زرعی اور صنعتی مسائل پر قابو نہیں پایا جا سکتا بلکہ مہنگائی اور غربت میں اضافہ ہوتا جا
رہا ہے حکران جتناجلد تسلیم کرلیں کہ قرضے معاشی مشکلات کا حل نہیں بلکہ حل یہ ہے کہ پیداواری عمل بڑھانے کی طرف توجہ دی جائے مہنگائی اوربے روزگاری سے دوچار عام افراد کوسہولتیں دی جائیں اِس طرح معاشی استحکام اور غربت میں تخفیف ممکن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر