... loading ...
مفتی محمد وقاص رفیع
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام کے اندر تمام عبادتیں نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃوغیرہ عظیم الشان اور ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ہیں۔اور جس طرح دیگرعبادات کے انوار و برکات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ایک عبادت سے دوسری عبادت کی کمی پوری نہیں ہوسکتی، ا سی طرح حج کے بھی انوار و برکات دوسری تمام عبادات سے یکسر مختلف ہیں اور اس کی بھی ضرورت اور کمی دوسری کسی عبادت سے پوری نہیں ہوسکتی، بلکہ اس کے انوار و برکات کو حاصل کرنے کے لئے تو بیت اللہ شریف جاکر حاضری دینا اس کی اوّلیں شرط ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انسان خود حج کرنے نہ جائے، محض حج کے فوائد و ثمرات سننے سے وہ اس کو کما حقہ سمجھ ہی نہیں سکتا۔ انسان جب خود حج کرنے جاتا ہے، تب اسے اس کے حقیقی منافع او ر اس کی برکات سمجھ میں آنے لگتی ہیں اور پھر اس کا دل گواہی دیتا ہے کہ اس کے اندر انقلاب آرہا ہے، اس کے کردار میں تبدیلی آرہی ہے، اس کی سوچ تبدیل ہورہی ہے، اس کے جذبات بدل رہے ہیں۔ چنانچہ بیت اللہ شریف جاکر انسان خود محسوس کرنے لگتا ہے کہ میں وہ نہیں ہوں جو اپنے وطن میں تھا بلکہ یہاں آکر میں کچھ اور ہوگیا ہوں، یہ سب ”حج بیت اللہ“ کے حیرت انگیز اثرات کا نتیجہ ہیں۔
دُنیا میں اس وقت بھی سات بڑے عجائبات مشہور ہیں، لیکن ان سب کا حال یہ ہے کہ انسان اگر ان کو پانچ،دس مرتبہ بھی دیکھ لے تو ان سے اس کا جی بھر جاتا ہے اور مزید انہیں دیکھنے کا دل نہیں کرتا، لیکن ایک بیت اللہ شریف دُنیا میں ایسی مقناطیسی عمارت ہے کہ جس کو دیکھتے ہی انسان کا دل اس کی طرف کھنچا چلاتا ہے اور وہ انسان کے دل کو موہ لیتا ہے اور اس کو دیکھتے دیکھتے انسان کی آنکھیں سیر ہی نہیں ہوتیں۔ بہر حال ایک ہے حج کا قبول ہونا اور ایک ہے حج کا ادا ہونا، یہ دونوں الگ الگ باتیں ہیں۔ حج ادا تو اُسی وقت ہوجاتا ہے جب آدمی اس کے تمام اعمال و آداب قاعدے کے مطابق ادا کرلے۔ حج کے دو ہی رکن ہیں: ”ایک وقوف عرفہ، خواہ ایک منٹ کے لیے ہی ہو،اور دوسرے طواف زیارت“۔ باقی کچھ واجبات ہیں، کچھ شرائط ہیں اور کچھ سنن و مستحبات ہیں۔ لہٰذا اگر حج شرعی طریقہ کار کے مطابق ادا کیا جائے تووہ ادا تو ہوجاتا، لیکن کیا مقبول بھی ہوتا ہے یا نہیں؟ اس بات کو معلوم کرنے کے لئے علمائے کرام نے چند علامتیں لکھی ہیں:
۱ -پہلی علامت جو حدیث شریف میں آئی ہے وہ یہ ہے کہ: ”جن لوگوں کا حج قبول ہوجاتا ہے اُن کی کنکریاں اُٹھالی جاتی ہیں اور جو کنکریاں پڑی رہ جاتی ہیں یہ اُن لوگوں کی ہوتی ہیں جن کا حج مقبول نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے علماء نے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ وہاں کی کنکریاں اُٹھا کر رمی نہ کی جائے کیوں کہ یہ اُن لوگوں کی کنکریاں ہوتی ہیں جن کا حج مقبول نہیں ہوتا“۔
۲-دوسری علامت یہ ہے کہ: ”حج سے واپس آنے کے بعد آدمی کے اعمال میں بہتری پیدا ہوجائے، اس لئے کہ ایک حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ نیکی کے فوراً قبول ہونے کی علامت یہ ہے کہ اُس کے بعد آدمی کو دوسری نیکی کی توفیق مل جاتی ہے، اس لئے ہر آدمی کو اس بات کا محاسبہ کرنا چاہیے کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی میں پہلے وہ جتنا اہتمام کرتا تھا اب اس سے زیادہ کرنے لگا ہے یا نہیں؟ گناہوں سے بچنے کی پہلی جتنی کوشش کرتا تھا، اب اس سے زیادہ کرنے لگا ہے یا نہیں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ اس کا حج اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوگیا ہے، اور اگر جواب نفی میں ہے تو پھر سمجھ لینا چاہیے کہ حج قبول نہیں ہوا۔
ایک صاحب حج کرکے آئے اور ہم اُن کو حج کی مبارک باد دینے اُن کے گھر گئے، اُن صاحب کے منہ پر ڈاڑھی کے آثار نمودار ہونا شروع ہورہے تھے، مطلب جیسے انہوں نے حج سے واپسی پر ڈاڑھی رکھنی شروع کردی ہو، اس لئے ہم نے اُن سے اپنے حسن ظن کی بناء پر پوچھا کہ: ”ماشاء اللہ! اب تو آپ نے ڈاڑھی بھی رکھ لی ہے، اللہ مبارک کرے“! تو کہنے لگے کہ نہیں صاحب!”ڈاڑھی رکھ نہیں لی، بلکہ در اصل دورانِ حج ڈاڑھی شیو کرنے کا موقع ہی نہیں ملا جس کی وجہ سے یہ بڑھ گئی ہے، ابھی شیو کیے دیتا ہوں“۔ہمیں اُس کا یہ عجیب و غریب جواب سن بڑی حیرت و شرمندگی ہوئی، حالاں کہ اگر اُس نے ڈاڑھی نہیں ہی رکھنی تھی تو کم از کم ہمارے حسن ظن کی ہی لاج رکھ لیتااور کہہ دیتا کہ جی انشاء اللہ! ڈاڑھی رکھ لوں گا، کہ یہ ارادہ ہے وعدہ نہیں، پکڑ وعدہ خلافی پر ہوتی ہے، ارادہ خلافی پر نہیں۔
۳- تیسری علامت یہ ہے کہ وہاں کی محبت اور عقیدت اس قدر دل میں رچ بس جائے کہ گویا آدمی اپنا دل ہی وہاں چھوڑ کر آجائے اور بار بار وہاں جانے کا شوق اس کے دل کے آنگن میں انگڑائیاں لینا شروع کردے۔
اس میں شک نہیں کہ آدمی جب حج پر جاتا ہے تو اس کے ماحول کے نورانی اثرات و برکات اس پر لازمی پڑتے ہیں، اس لئے حاجی کو چاہیے کہ وہ اپنے اندر دیکھے کہ وہاں کے ماحول کے نورانی اثرات ابھی تک اس پر موجود ہیں یا نہیں؟ اگر موجود ہیں تو اُن کے ماند پڑجانے سے پہلے ان کی حفاظت کرے، اس لئے کہ ہمارا معاشرہ اور ماحول ہر قسم کے گناہوں سے بھرا ہوا ہے، اِدھر جاؤ گناہ کی دعوت، اُدھر جاؤ گناہ کی دعوت، نگاہوں کو گناہوں سے بچانا آسان نہیں، کانوں کو گناہوں سے بچانا آسان نہیں، کہیں گانوں اور باجوں کی آوازیں کانوں میں پڑتی ہیں تو کہیں غیبت، جھوٹ اور گالیاں زبان سے نکل جاتی ہیں،اسی طرح پیٹ کو حرام مال سے بچانا آسان نہیں، کہیں رشوت ہے تو کہیں تو سود، کہیں ناجائز ملازمتیں ہیں تو کہیں ناجائز ذرائع آمدن۔
حج کو بچانے کا ایک طریقہ یہ بھی علماء نے لکھا ہے کہ: ”حاجی کو چاہیے کہ وہ اپنا رُوحانی تعلق کسی اللہ والے کے ساتھ قائم کرلے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ حج سے حاجی آدمی جو نیک جذبات و خواہشات اور تاج دارِ دوعالم سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہئ اقدس کی مشک بار فضاؤں کے قیمتی ثمرات و برکات لے کر آتا ہے اُن کی اس سے حفاظت رہے گی اور اس طرح اُس کا حج ضائع ہونے سے محفوظ رہے گا۔
بہر حال یہ انسان کی ایک فطرت ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ماحول اور معاشرے سے ضرور متاثر ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پربھی ماحول کی کیفیت اسی طرح طاری ہوتی تھی۔ چنانچہ ایک صحابی نے عرض کیا: ”یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)! جب ہم آپ کی خدمت ہوتے ہیں تو ہمیں یوں محسوس ہونے لگتا ہے گویا ہم جنت اور جہنم کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، لیکن جب ہم اپنے گھر واپس چلے جاتے ہیں اور بیوی بچوں کے ساتھ ہنسی کھیل میں مشغول ہوجاتے ہیں تو پھر ہماری یہ کیفیت نہیں رہتی۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اطمینان دلایا اور تسلی دی۔
الغرض حج کا اصل مقصد یہ ہے کہ حاجی آدمی کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف اور اُس کاتقرب پیدا ہوجائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور اُن سے عقیدت پیدا ہوجائے، اورنیک اعمال کی طرف رغبت اور گناہوں سے نفرت اُس کے دل میں جگہ کرجائے۔