... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
عاپ جنرل سکریٹری (تنظیم) سندیپ پاٹھک نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کی پارٹی “اصولی طور پر یو سی سی کی حمایت کرتی ہے ۔ “دستور کا آرٹیکل 44 یہ کہتا ہے کہ ملک میں یو سی سی ہونا چاہیے ۔اپنی بات میں توازن قائم کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام مذہبی رہنماؤں، سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ وسیع تر مشاورت ہونی چاہیے اور اتفاق رائے پیدا کرنا چاہیے ۔ کچھ فیصلے نہیں پلٹے جا سکتے ، کچھ معاملات قوم کے لیے بنیادی ہوتے ہیں۔ آمرانہ فیصلے نہیں لیے جا سکتے ،” یہ ایک ایسا بیان ہے کہ جس کو پڑھ کر غالب کا مصرع یاد آتا ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی ‘۔ غیر بی جے پی وزرائے اعلیٰ میں اروند کیجریوال وہ واحد سی ایم ہیں جو ببانگ دہل اعلان فرماتے ہیں کہ آئین کے آرٹیکل 44 میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے ۔ حکومت کو یکساں سول کوڈاس طرح بنانا چاہیے کہ جس میں تمام برادریوں کی رضامندی شامل ہو۔ یہ اعلان انہوں نے پچھلے سال گجرات میں انتخابی مہم کے دوران دیا تھا ان کو اس بات کا افسوس تھا بی جے پی اپنی ذمہ داری نہیں ادا کررہی ہے۔
کیجریوال نے اپنی تقریر میں کہاتھا کہ اتراکھنڈ میں الیکشن سے پہلے ایک کمیٹی بنا دی گئی مگر انتخابی کامیابی کے بعد اب وہ اپنے گھر چلی گئی ۔ وقت نے ان کی اس بات غلط ثابت کردیا کیونکہ اتراکھنڈ کی کمیٹی نے اپنا مسودہ پیش کردیا ہے ۔کیجریوال نے یہ بھی کہا تھا گجرات انتخابات سے 3 روز قبل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ، اب وہ بھی انتخابات کے بعد اپنے گھر چلی جائے گی۔ انہوں نے سوال کیا تھا مدھیہ پردیش میں کیوں نہیں، اتر پردیش میں کیوں نہیں، اگر ان کا ارادہ یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنا ہے ، تو ملک بھر کے لئے کمیٹی تشکیل کیوں نہیں دیتے ۔اروند کیجریوال کا یہ سوال درست تھا کہ کیا وہ لوگ لوک سبھا انتخابات کا انتظار کر رہے ہیں؟اب وہ کمیٹی بھی بن گئی ہے اس لیے انہیں خوش ہونا چاہیے ۔ کیجریوال کا الزام تھا کہ بی جے پی کو یونیفارم سول کوڈ نافذ ہی نہیں کرنا اس کی نیت خراب ہے ! بی جے پی کی نیت جو بھی ہو مگر اب وہ اسے نافذکرنے پر تلی ہوئی ہے ۔
گجرات حکومت نے بھوپیندر پٹیل کی قیادت والی کابینہ کی آخری میٹنگ میں یونیفارم سول کوڈ (یو سی سی) کو نافذ کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے کے فیصلہ کیا تھا ۔ یہ کام چونکہ بہت تاخیر سے ہوا تھا اس لیے بی جے پی اس کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکی اس لیے پارلیمانی انتخاب سے ٩ ماہ قبل قومی سطح پر تماشا شروع کردیا گیا ۔گجرات اور دہلی کی حد تک اپنے ہندو رائے دہندگان کو خوش کرنے کے لیے کیجریوال نے یو سی سی کا خوب استعمال کیا مگر ان کی گاڑی پنجاب میں جاکر پھنس گئی۔ پنجاب کے اندر شرومنی اکالی دل نے مان سے پوچھا کہا کہ وہ اپنی پارٹی کو اپنا موقف صاف کرنے کے لیے کہے نیز عآپ دوہری باتیں کرنا بند کرے ۔ چیمہ نے کہا، “یہ چونکا دینے والی بات ہے کہ عآپ راجیہ سبھا میں یو سی سی کے حق میں ووٹ دینا چاہتی ہے حالانکہ مان پنجابیوں کو یہ کہہ کر بے وقوف بنا رہا ہے کہ پارٹی پنجاب میں اس کے خلاف ہے ۔ ایس اے ڈی کے ترجمان ڈاکٹر دلجیت سنگھ چیمہ نے مزید کہاکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عآپ ہائی کمان پنجاب میں اپنے وزیر اعلیٰ کے علاوہ ریاست میں مذہبی اداروں کی بھی کوئی عزت نہیں کرتا کیونکہ اس نے یو سی سی کو حمایت کرنے سے پہلے کسی سے مشاورت نہیں کی ۔
اکالی دل اور اس کے بعد شرومنی گرودوارہ پربندھک کے ذریعہ یکساں سیول کوڈ کی مخالفت کے دباو میں آکر وزیر اعلی بھگونت مان کو اپنی پارٹی کے موقف سے ہٹ کر کہنا پڑا کہ ہر مذہب کی اپنی ثقافت اور رسم و رواج ہے ، اس لیے ان کے عقائد سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے ۔ وہ بولے ہمارا ملک ایک گلدستے کی مانند ہے جس میں ہر رنگ کے پھول ہیں۔ باہمی اختلافات کی مثال دے کر انہوں نے پوچھالوگ کیوں چاہتے ہیں کہ یہ گلدستہ ایک ہی رنگ کا ہو؟ انہیں سب کے ساتھ بات کرنی چاہئے اور اتفاق رائے کی طرف کام کرنا چاہئے ، ۔وزیر اعلیٰ مان نے الزام لگایا کہ ”بی جے پی کا ایجنڈا انتخابات کے دوران تقسیم کرنا ہے ۔ عاپ ایک سیکولر پارٹی ہے ، ہم چاہتے ہیں کہ سب مل کر آئین کے مطابق کر ر ہیں۔ آئین سماجی مساوات پر زور دیتا ہے لیکن کیا ہم سب سماجی طور پر برابر ہیں؟ بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہیں تعلیم حاصل کرنے ، نوکری کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ یہ انفراسٹرکچر، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کا دور ہے ” ۔
وزیر اعلیٰ مان کے اس اختلاف سے پارٹی ہائی کمان کے لیے مشکل کھڑی ہوگئی مگر عآپ کے رہنما پاٹھک نے کہا کہ مان کا بیان پارٹی لائن کے خلاف نہیں ہے ۔ وزیراعلیٰ نے پارٹی کے موقف کو دہرایا ہے ۔ انہوں نے وکالت کی ہے کہ تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے، “پاٹھک نے قومی سطح پر پارٹی کے موقف کو یہ کہتے ہوئے واضح کیا کہ عآپ اصولی طور پر یوسی سی کے حق میں ہے ۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ پارٹی راجیہ سبھا میں منظوری کے لیے یو سی سی یعنی بی جے پی کی حمایت میں ووٹ کرے گی۔اس لیے وزیراعلیٰ پنجاب کا یو سی سی کے خلاف بیان بے معنی ہے ۔اروند کیجریوال اسی طرح کی غلطی جموں کشمیر سے دفع 370 ہٹائے جانے کے وقت بھی کر چکے ہیں مگر فی الحال انہیں دہلی کے سرکاری کام کاج میں مرکزی حکومت کی دخل اندازی سے پریشانی ہے ۔
جموں کشمیر میں مرکزی حکومت نے جودھاندلی کی اس کا موازنہ دہلی سے کیا ہی نہیں جاسکتا۔ دہلی میں سرکاری افسران کے تبادلہ کا حق وزیر اعلیٰ کے بجائے لیفٹیننٹ گورنر کو سونپ دیا گیا مگر دہلی کا ریاستی درجہ اور وزیر اعلیٰ کا عہدہ اب بھی محفوظ و مامون ہے ۔ اس کے برعکس جموں کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے لیے آئین کی دفع 370کو کالعدم کیا گیا۔ ایک ریاست کو عوام کی مرضی کے خلاف دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا یعنی لداخ کو الگ یونین ٹریٹری بنادیا گیا۔ وہاں کے باشندوں کو حاصل مراعات پر یکلخت بلڈوزر چلا دیا گیا۔ منتخب ریاستی حکومت کو برخواست کرکے وزیر اعلیٰ سمیت بے شمار رہنماوں کو نظر بند کردیا گیا ۔ ریاست میں دفع 144نافذ کردی گئی عرصۂ دراز تک انٹر نیٹ بند رہا اور ہنوز انتخابات نہیں ہوئے ۔ سوال یہ ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت جب یہ دھاندلی کررہی تھی تو اس وقت عام آدمی پارٹی کو
ملک دفاقی ڈھانچے کے تحفظ کا خیال کیوں نہیں آیا؟ اس نے بی جے پی کی مخالفت کیوں نہیں کی؟کیجریوال اس معاملے میں غیر جانبدار بھی نہیں تھے بلکہ زور و شور سے مرکزی حکومت کی تائید کررہی تھی۔ اس موقع پر بغلیں بجاتے ہوئے اروند کیجریوال نے ٹویٹ کیا تھا کہ ”ہم جموں و کشمیر پر حکومت کے فیصلوں کی حمایت کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ اس سے ریاست میں امن قائم ہوگا اور ترقی ہوگی۔”وہ امن و ترقی کہا ں ہے جس کی اروند کیجریوال نے چار سال قبل امید کی تھی؟ عآپ نے اس شام ایک اخباری بیان جاری کرکے مرکزی حکومت کی عوامی مفاد میں تائید کو جائز ٹھہرایا تھا۔ سوال یہ ہے کہ اگر عآپ کو یہ طے کرکے کیا مفادِ عامہ کے مطابق ہے اور کیا مخالف حمایت و مخالفت کا حق ہے تو دوسروں کو کیوں نہیں؟ یہ تو مودی جی والی بات ہے کہ جو چیز ہمارے لیے درست ہے وہ دوسروں کے لیے نہیں ہوسکتی ایسے میں اگر اروند کیجریوال پر بی جے پی کے چھوٹے ریچارج ہونے کا جو الزام لگتا ہے وہ درست ہے کیونکہ دونوں کا مزاج متشابہ ہے ۔اروند کیجریوال یہ بات بھول گئے ہوں گے مگر عمر عبداللہ اور پورے ملک کو یاد ہے کہ ایوان پارلیمان کے اندرعآپ کے رکن پارلیمان سشیل گپتا نے سینہ ٹھونک کر کہا تھا کہ اب آرٹیکل 370 ختم ہونے سے ملک بھر کے تاجر ریاست میں سرمایہ کاری کر سکیں گے ۔گپتا جی بتائیں کے کتنے سرمایہ کاروں نے یہ جرأت کی بلکہ جو سرمایہ دار دہلی میں شراب بیچنے کے لیے آئے تھے وہ اپنے میزبانوں کے ساتھ جیل کی چکی پیس رہے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا “یہ قومی مفاد کا معاملہ ہے ۔ ہم نے ہمیشہ دہشت گردی یا علیحدگی پسندی کی مخالفت کی ہے ۔ اسی لیے عام آدمی پارٹی اس بل کی حمایت کرتی ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ اب جموں و کشمیر میں امن قائم ہوگا اور حکومت وہاں ترقیاتی کام کرے گی۔ ہم ہمیشہ مکمل ریاست کے حق میں کھڑے رہے ہیں لیکن قوم کے اتحاد اور دہشت گردی کے انسداد کے لیے ہم اس بل کی حمایت کرتے ہیں”۔ عآپ اگر مخصوص حالات میں کچھ شرائط کے ساتھ اپنے اصولوں سے انحراف کرسکتی ہے تو دوسرے ایسا کیوں نہیں کرسکتے ؟ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی یہ شرط لگاتے کہ جہاں اروند کیجریوال ہوں گے وہ نہیں آئیں گے مگر یہاں تو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹ رہا ہے ۔یو سی سی کو لے کر عاپ کی ابن الوقتی پھر ایک بار کھل کر سامنے آگئی ہے ۔
٭٭٭