... loading ...
افسانہ نگار: لوئزا ویلنزویلا (ارجنٹائن)
مترجم:افشاں نور
اس سے پہلے کہ بیچارہ ہُوان یہ سمجھ پاتاکہ جسے وہ خوش نصیبی سمجھا تھا وہ دراصل تقدیر کی ایک گندی چال تھی،ایک دن انہوں نے اسے اس کے محافظ کے ساتھ پکڑ لیا۔ایسی چیزیں تب ہوتی ہیں جب انسان لاپرواہ ہو جاتا ہے، جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے۔ہوان سیتو(بیچارے)کو جب ایک خفیہ ذریعے سے پیرس میں ماریانا کا پتہ موصول ہوااور اسے معلوم ہوا کہ وہ اسے بھولی نہیں ہے، تو وہ خوشی جیسے ناقابلِ بھروسہ احساس سے مغلوب ہوگیا۔دو بار سوچے بغیر وہ اپنی میزپر بیٹھ گیا اور اسے ایک خط لکھ دیا۔وہ خط جو دن کے وقت اس کا ذہن اس کی نوکری سے ہٹائے رکھتا ہے اور رات کو اسے سونے نہیں دیتا(اس نے ماریانا کو بھیجے گئے کاغذ کے ٹکڑے پر کیا لکھ بھیجا تھا؟)
ہُوان جانتاتھا کہ خط کے مندرجات کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا کیونکہ وہ بے داغ اور بے ضرر تھے۔ لیکن باقی باتوں کا کیا ہوگا؟وہ جانتا تھاکہ وہ ہر خط کو سونگھتے، محسوس کرتے اور اس کے پوشیدہ معانی پڑھتے ہیں یہاں تک کہ چھوٹے سے چھوٹے سکتے اور حادثاتی طور پر لگنے والے داغ کو بھی جانچتے ہیں۔وہ جانتا تھا کہ تمام خطوط، ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ تک گزرتے ہیں اور احتساب کے بڑے بڑے دفاتر میں ہر طرح کے امتحان سے گزرتے ہیں اور ان میں سے بہت کم، اپنے راستے پر رواں دواں ہوتے ہیں۔ اگر اس میں پوشیدہ رکاوٹ نہ ہو، تو عام طور پر، اس میں مہینے، حتیٰ کہ سال بھی لگ جاتے ہیں؛اس تمام عرصے میں بھیجنے والے اور وصول کرنے والے، دونوں کی آزادی، یہاں تک کہ شاید جان بھی خطرے میں ہوتی ہے۔اور اسی وجہ سے ہُوان بہت پریشان تھا: یہ سوچ کر کہ اس کے خطوط کی وجہ سے ماریانا کو کچھ ہو سکتا ہے۔تمام لوگوں میں،ماریانا تھی جو آخرکاروہاں خود کو محفوظ محسوس کرتی،جہاں رہنے کا اس نے ہمیشہ خواب دیکھا تھا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ احتساب کی خفیہ کمان پوری دنیا میں کام کرتی ہے اور ہوائی کرایوں میں تخفیف سے فائدہ اٹھاتی ہے؛ انہیں پیرس کے اس پوشیدہ محلے تک جانے،ماریانا کو اغوا کرنے اوراپنے عظیم مشن کو پورا کرنے کا یقین کرتے ہوئے،اپنے آرام دہ گھروں میں واپس آنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔
خیر! آپ کو پہلے ہی انہیں قابو میں کرنا ہوگا، وہی کرنا ہوگا جو ہر کوئی کرنے کی کوشش کرتا ہے:تنظیم کو تباہ کر دیں، اس کے رنگ میں بھنگ ڈال دیں، مسئلے کی تہہ تک پہنچیں تاکہ اسے روکاجا سکے۔
یہی ہُوان کا درست منصوبہ تھا جب اس نے، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح،ایک محتسب کی نوکری کے لیے درخواست دی،اس لیے نہیں کہ اسے کوئی فون آیا تھا یا اسے نوکری کی ضرورت تھی:نہیں، اس نے محض اپنے خط کو روکنے کے لیے یہ درخواست دی تھی، یہ ایک تسلی بخش تاہم غیر حقیقی خیال تھا۔ اسے فوری طور پر ملازمت پر رکھ لیا گیا، کیونکہ ہر روز زیادہ سے زیادہ محتسبین کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی بھی اس کے حوالہ جات کی جانچ پڑتال نہیں کرتا۔
احتسابی محکمہ خفیہ مقاصد کو نظر انداز نہیں کر سکتا لیکن انہیں درخواست دینے والوں کے ساتھ زیادہ سختی سے پیش آنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جانتے تھے کہ ان بیچارے لڑکوں کے لیے اپنے مطلوبہ خط کو تلاش کرنا کتنا مشکل ہوگا اور اگر وہ ڈھوند بھی لیں تو ایک یا دو خطوط کی کیا بات ہے جب کہ نئے محتسب بہت سے دوسرے خطوط جھپٹ لیں گے۔اس طرح ہُوان، ایک خاص مقصد ذہن میں رکھتے ہوئے، ڈاک خانے کے احتسابی محکمے میں شامل ہونے میں کامیاب ہوگیا۔
عمارت کے باہر کی فضا پر مسرت تھی جو اس کے اندرونی سکوت اور سنجیدگی کے برعکس تھی۔آہستہ آہستہ ہُوان اپنی ملازمت میں مشغول ہوگیااور وہ پرسکون تھا کیونکہ وہ ماریانا کے لیے لکھا اپنا خط حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا تھا۔وہ اس وقت بھی پریشان نہیں ہوا جب،اس کے پہلے مہینے میں،اسے سیکشن‘کے ’میں بھیجا گیاجہاں لفافوں کی، دھماکہ خیز مواد کے لیے،بہت احتیاط سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔
یہ سچ ہے کہ تیسرے دن،ایک ساتھی کارکن کا دائیاں ہاتھ،ایک خط سے اڑا دیا گیا لیکن محکمے کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ یہ سراسرمتاثرہ فرد کی اپنی غفلت تھی۔ہُوان اور دیگر ملازمین کو واپس اپنے کام پر جانے کو کہا گیا حالانکہ وہ اسے غیر محفوظ سمجھ رہے تھے۔کام کے بعد، ان میں سے ایک نے، غیر صحت مند کام کے لیے زیادہ اجرت کا مطالبہ کرنے کی غرض سے ہڑتال کرنے کی کوشش کی لیکن ہُوان اس میں شامل نہیں ہوا: اس پر غور کرنے کے بعد،اس نے اپنے اعلیٰ افسران کو اس شخص کی اطلاع دی اور یوں ترقی پائی۔
”ایک بار کچھ کرنے سے عادت نہیں بنتی“۔اپنے باس کے دفتر سے نکلتے ہوئے اس نے خود سے کہا۔اور جب اسے سیکشن‘ایف’میں منتقل کیا گیا، جہاں زہریلے پاؤڈر کے لیے خطوط کی احتیاط سے جانچ پڑتا ل کی جاتی ہے،تو اسے محسوس ہوا جیسے وہ سیڑھی کا ایک پایا چڑھ گیا ہو۔
سخت محنت کرتے ہوئے، وہ تیزی سے سیکشن‘ ای’تک پہنچ گیا، جہاں کام مزید دلچسپ ہوگیا، کیونکہ اب وہ خطوط کے مندرجات کو پڑھ سکتا تھا اور ان کا تجزیہ کر سکتا تھا۔یہاں وہ اپنا خط حاصل کرنے کی امید بھی کر سکتا تھاجو، گزرے ہوئے وقت کے حساب سے، دوسرے حصوں سے گزر چکا تھا اور شاید اس حصے میں گھوم رہا تھا۔
جلد ہی اس کا کام اس قدر جاذبِ نظر ہوگیا کہ اس کا عظیم مشن اس کے ذہن میں دھندلا پڑ گیا۔دن بدن،وہ بہت سے خطوط کو بے رحمی سے احتسابی ٹوکری میں پھینکتے ہوئے، لال رنگ کی سیاہی کے ساتھ،پورے پیراگرافوں کو کالعدم کرتا رہا۔ یہ خوفناک دن تھے جب وہ لوگوں کی طرف سے تخریبی پیغامات پہنچانے کے لیے استعمال کیے گئے لطیف اور سازشی طریقوں سے حیران رہ گیا: اس کی جبلت اتنی تیز تھی کہ وہ‘موسم خراب ہے ’یا‘قیمتیں بڑھتی چلی جا رہی ہیں ’جیسے سادہ جملوں کے پیچھے، حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے خفیہ سازش کرنے والے کسی متحرک ہاتھ کو ڈھونڈ نکالتا۔
اس کی لگن نے اسے تیزی سے ترقی دلائی۔ہم نہیں جانتے کہ آیا اس سے اس کو خوشی ہوئی۔سیکشن‘بی’میں اس کے پاس بہت کم خطوط پہنچتے، صرف مٹھی بھرخطوط دوسری رکاوٹوں کو عبور کرتے اس لیے وہ انہیں بار بار پڑھتا، محدب عدسے سے انہیں دیکھتا، الیکٹرانک خوردبین سے ان کا مائیکروپرنٹ تلاش کرتا اور اپنی حسِ شامہ کو مرتب کرتاکیونکہ جب تک وہ گھر پہنچتا وہ تھک چکا ہوتا۔وہ بمشکل اپنا سوپ گرم کر پاتا، کچھ پھل کھاتا اوراپنا فرض پورا کرنے پر مطمئن ہو کر بستر پر ڈھے جاتا۔صرف اس کی پیاری ماں پریشان تھی لیکن وہ اسے صحیح راستے پر واپس نہیں لا سکی۔حالانکہ یہ ہمیشہ سچ نہیں ہوتا تھامگر وہ کہتی:“لولا نے فون کیا تھا،وہ لڑکیوں کے ساتھ بار میں ہے، وہ تمہیں یاد کرتی ہیں، وہ تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔”ورنہ وہ میز پر سرخ شراب کی بوتل چھوڑ دیتی لیکن وہ زیادہ مقدار نہ لیتا کہ کوئی بھی خلفشار اسے اس کے مقصد سے محروم کر سکتا ہے اور ایک کامل محتسب کو دھوکہ دہی کو پکڑنے کے لیے چوکنا، ہوشیار، متوجہ اور تیز ہونا پڑتا ہے۔اس کی ذمہ داری حقیقی معنوں میں وطن پرستانہ تھی جو اس کی ذاتی خواہشات اور ضروریات کی قربانی مانگتی تھی اور روح افزا تھی۔
سنسرشدہ خطوط کے لیے اس کی ٹوکری بہترین سراغ رساں کی ٹوکری ہونے کے ساتھ ساتھ احتسابی محکمے کے سب سے چالاک محتسب کی ٹوکری تھی۔وہ آخرکار اپنا اصل مشن دریافت کرنے پر خود کو مبارکباد دینے ہی والا تھاجب ماریانا کو لکھا اس کا خط اس کے ہاتھ لگا۔قدرتی طور پر، اس نے بنا افسوس کے اسے سنسرکیااو بالکل فطری طور پر، وہ اگلی صبح اپنے آپ کو پھانسی دینے سے نہیں روک سکا، جو اپنے کام سے اس کی لگن کا اگلا شکار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔
انگریزی میں عنوان: The Censors
مصنف کا تعارف:بہت سے دیگر اطالوی امریکی مصنفین کی طرح، لوئزا ویلنزویلا(Luisa Valenzuela)اپنی تحریروں میں اکثر سیاسی مسائل پر بات کرتی ہیں۔ان کے آبائی ملک ارجنٹائن،جو اب جمہوریت ہے،کی سنسرشپ اور انسانی حقوق کی دیگر خلاف ورزیوں کے حوالے سے سیاہ تاریخ رہی ہے۔ 1970 کی دہائی میں، ایک فوجی حکومت نے، مشتبہ سیاسی دشمنوں کا بے دردی سے شکار کرتے ہوئے اور خبروں اور میل کا احتساب کرتے ہوئے اقتدار سنبھالا۔ ’محتسب‘میں ویلنزویلا نے اسی طرح کے جبرکے مضحکہ خیز پہلوؤں کی کھوج لگائی ہے۔
٭٭٭