وجود

... loading ...

وجود

لندن سے دبئی تک

جمعه 07 جولائی 2023 لندن سے دبئی تک

عطا محمد تبسم

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی قسمت کے فیصلے پہلے لندن میں ہوتے تھے ، اب دبئی میں ہورہے ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان فیصلوں میں عوام اور ان کی رائے کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ، انتخابات کیسے ہوں گے ، نگران حکومت میں کون کون حصہ دار ہوں گے ، یہ سب اب ایک معاہدے کی شکل اختیار کرگئے ہیں۔ اس عبوری سیٹ اپ کے تحت ہونے والے انتخابات کیسے ہوں گے ، اس کے بارے میں آپ ابھی سے اندازہ کرسکتے ہیں، جیت کے حصہ دار بہت ہوتے ہیں، چاہے یہ جیت طاقت ،اور پیسے کے بل بوتے پر حاصل کی ہو یا دھاندلی کے ذریعے ۔ ہار نے والوں کا کوئی ساتھ نہیں دیتا۔ یہ تجربہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی سے کرلیا ہے ۔ پاکستان میں خاندانی سیاست مستحکم ہے ، اور مستقبل میں بھی سیاست پر چند خاندانوں کی اجارہ داری قائم رہے گی۔ دبئی میں دو طاقتور سیاسی خاندانوں کے سربراہان اور خاندانوں کی ملاقات میں ملک میں آئندہ کی سیاست کے جو اہم فیصلے ہوئے ہیں،وہ اس امر کی تصدیق کرتے ہیں۔ فوج سے معاملات کرنے میں آصف زرداری نواز شریف سے دو ہاتھ آگے ہیں۔اس ملاقات میں مبینہ طور پر آئندہ نگراں سیٹ اپ کے ساتھ ساتھ مستقبل کے اتحاد کی تشکیل پر اتفاق رائے ہوا ہے ۔اس ملاقات میں دونوں بااثر خاندانوں نے اپنی جانب سے مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر مریم نواز، اور بلاول بھٹو زرداری کو بھی شریک رکھا۔ یہ ملاقات پاکستانی سیاست میں خاندانی غلبہ کی ایک جھلک پیش کرتی ہے ۔ نواز شریف اور آصف زرداری نے عملی طور پر انتخابات کے بعد طاقت کے حصول کے لیے ایک دوسرے کو گلے لگایا ہے ۔لیکن ملاپ اوردبئی ملاقات یقینی طور پر جمہوریت کے نئے چارٹر پر دستخط کرنے کے لیے نہیں تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد دونوں خاندانوں کے زیر تسلط موجودہ طاقت کے ڈھانچے کو مستحکم کرنے کی حکمت عملی تیار کرنا تھا۔ کسی تیسرے ملک میں جمہوریت کے سیاسی لیڈروں کی حصول اقتدار کے لیے ہونے والی ملاقات کی یہ ایک انوکھی مثال ہے ۔ سیاست خاندانی معاملہ بن جائے تو منتخب جمہوری فورمز غیر متعلقہ ہو جاتے ہیں۔ یہ سب ایک ہی خاندان ہے ۔ جس کے ممبران باری باری حکومت کرتے ہیں۔
عبوری انتظامیہ کی تشکیل پر دونوں خاندانوں کے بڑے افراد کے درمیان ہونے والا معاہدہ آئین پاکستان سے بھی متصادم ہے ، جس کی آئینی شق میں کہا گیا ہے کہ نگراں انتظامیہ کو غیر جانبدار ہونا چاہیے اور اس کے نام قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے درمیان مشاورت سے طے ہونا چاہیے ۔ لیکن اقتدار کے اس کھیل میں آئین کی پرواہ کسے ہے ؟
پی ٹی آئی کے خاتمے کے تمام مراحل کی تکمیل جاری ہے ، ورک ان پروگریس کا بورڈ لگا ہوا ہے ، لیکن اس کے باوجود عمران خان کا بھوت بہت سے لوگوں کی نیند اڑائے ہوئے ہے ۔ الیکٹرونک میڈیا پر عمران خان کی تصویر اور نام لینے پر بھی پابندی ہے ، اس سے پہلے الطاف حسین اور نواز شریف پر بھی ایسی پابندیاں عائد ہوئی تھیں، لیکن ان کے لیے عدالتی احکامات کا سہارا لیا گیا تھا۔ لیکن اس بار اس کا بھی تکلف نہیں رکھا گیا۔ پیمرا اور عدالتی احکامات اس بارے میں خاموش ہیں۔ لیکن یہ پابندی اتنی سختی سے جاری ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور مریم اورنگ زیب بھی اپنی پریس کانفرنس میں عمران خان کا نام لینے سے کتراتے ہیں، اور ان کا نام لیے بغیرسربراہ پی ٹی آئی کہہ کر کام چلایا جارہا ہے ۔ اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ انتخابات کے لیے راستہ صاف ہوگیا ہے ۔ لیکن ابھی تک ٹائم فریم کہیں نظر نہیں آتا ۔اس پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ کیا الیکشن سے پہلے عمران خان کی گرفتاری عمل میں لائی جائے گی۔ ریاستی جبرکے ذریعے پی ٹی آئی کے توڑنے کا عمل اور سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے نئی حکومتی پارٹی کے قیام نے پورے جمہوری عمل کو مذاق بنادیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکن جیلوں میں بند ہیں اور دہشت گردی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے خلاف فوجی عدالتوں میں بھی مقدمات کی تیاریاں ہیں۔ فوجی تنصیبات کی متعین تعریف میں کونسے مقامات آتے ہیں، اور کیا نو مئی کے واقعات میںجن مقامات پر حملے ہوئے وہ فوجی تنصیبات کی تعریف میں شمار ہوتی ہے ۔فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث افراد کو یقیناً سخت سزا ملنی چاہیے ، لیکن اس سے پہلے یہ بھی ثابت کرنا ہوگا کہ کونسی فوجی تنصیبات تھیں، جنہیں نشانہ بنایا گیا۔ موجودہ کریک ڈاؤن سے اس بیانیہ کو تقویت دی ہے کہ یہ تحریک انصاف کو انتخابی عمل سے دور رکھنے یا کم از کم اسے کمزور کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے ۔ ان مذاکرات میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی شرکت نے مسلم لیگ ن کی اس امید کو بڑھا دیا ہے کہ نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بن جائیں گے ۔ نواز شریف اب سعودی عرب کے دورے پر ہیں، جہاں وہ اعلیٰ سعودی رہنماؤں سے ملاقات کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جنہوں نے ہر مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا ، بلکہ ان کے ضامن بھی ہوئے ہیں۔
اس بار میدان جنگ پنجاب بنا ہے ، عمران خان پنجاب کے دل لاہور میں برا جمان ہیں، پی ٹی آئی کے سینکڑوں کارکنوں کو جیلوں اور مقدمات کا سامنا ہے ، جن کی بڑی اکثریت کا تعلق بھی پنجاب سے ہے ، اس طرح پنجاب میں سیاسی کارکنوں کو پولیس اور ریاستی چیرہ دستیوں کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے ، اس سے پہلے سندھ ، بلوچستان، سرحد ، کی سیاسی جماعتیں اس صورت حال سے گزر چکی ہیں۔ اے این پی،پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم ، مسلم لیگ ن ، بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ اس ٹوٹ پھوٹ اور کریک ڈاؤن کا شکار ہوچکی ہیں، ان میں سے بیشتر جماعتوں کی شجر کاری اسی نرسری میں ہوئی تھی، جس میں تحریک انصاف کی نشو نما ہوئی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کشمیری انصاف کے منتظر وجود اتوار 24 نومبر 2024
کشمیری انصاف کے منتظر

غموں کا پہاڑ وجود اتوار 24 نومبر 2024
غموں کا پہاڑ

منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں وجود اتوار 24 نومبر 2024
منافقت کے پردے اور مصلحت کی دُکانیں

کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟ وجود اتوار 24 نومبر 2024
کیا امریکا کے دن گزر چکے ہیں؟

33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر