... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
ْْ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عام آدمی پارٹی فی الحال حزب اختلاف کے اتحاد پر جھاڑو پھیرنے میں بی جے پی سے زیادہ سرگرم عمل ہے ۔ گجرات انتخاب میں کانگریس کو بڑا جھٹکا دینے کے بعد وہ قومی جماعت تو بن گئی مگر کرناٹک کے انتخاب نے اس کی پھر سے قلعی کھول دی ۔ کرناٹک میں اس نے تمام 214 حلقۂ انتخاب میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ۔ اس میں ان کے سارے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہوگئی ۔ 72 حلقہ ہائے انتخاب تو ایسے تھے جہاں عاپ کے امیدوار ایک ہزار ووٹ بھی نہیں جٹا پائے ۔ عام آدمی پارٹی کا دعویٰ ہے کہ اس کے صوبے میں دولاکھ ممبرزہیں جبکہ اس کو جملہ صرف دولاکھ بیس ہزار ووٹ ملے ۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ پارٹی کے اگر سارے لوگوں نے ووٹ دے بھی دیا تھا تو ان کے اہل خانہ کی رائے سے وہ لوگ محروم رہے ۔ ان کے ووٹ کا تناسب اعشاریہ ترپن فیصد تھا جبکہ نوٹا یعنی سبھی کو نااہل قرار دینے والوں کی تعداد ان سے تین گنا تھی ۔ اس کارکردگی کے باوجود اگر اروند کیجریوال کو لگتا ہے کہ وہ کانگریس کو بلیک میل کرپائیں گے تو یہ ان کی بہت بڑی خوش فہمی ہے ۔
سیاست کی دنیا میں اروند کیجریوال اگر ذہین بنیا ہوتے تو یہ شرط نہیں لگاتے کہ کانگریس نے ان کے لیے دہلی اور پنجاب چھوڑ ا تب ہی وہ اتحاد کا حصہ بنیں گے ۔ عام آدمی پارٹی چاہتی ہے لوک سبھا کے انتخاب میں بھی دہلی اور پنجاب کو اس کے لیے چھوڑ دیا جائے۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ صوبائی اور قومی انتخاب میں عوام کے ووٹ دینے کا انداز مختلف ہوتا ہے نیز قومی سطح پر 2014کے مقابلے 2019 میں عاپ کا گراف نیچے گرا تھا ۔ 2014 میں بڑے زور و شور سے انتخاب لڑتے ہوئے اس نے چار سو سے زیادہ امیدوار کھڑے کیے تھے مگر ان میں سے بیشتر کی ضمانت ضبط ہوگئی۔ اس کے باوجود اس کے چار امیدوار کامیاب ہوگئے ۔عاپ کے ووٹ کا تناسب 2.05% تھا۔ 2019 میں اس کے ووٹ کا تناسب گھٹ کر 0.44% پر آگیا اور صرف ایک امیدوار کامیاب ہوسکا جبکہ کانگریس کے ارکان پارلیمان کی تعداد میں اضافہ ہواتھا۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ قومی سطح پر عام آدمی کی مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ۔
نشستوں کی تقسیم عام طور پر پچھلے الیکشن کی کارکردگی کو پیش نظر رکھ کر کی جاتی ہے یعنی پہلے جہاں سے جس پارٹی کا امیدوار کامیاب ہوا ہو اسے پھر سے موقع دیا جاتا ہے ۔ وہ اگر مخالف محاذ کا ہوتودوسرے نمبر آنے والی جماعت سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنا امیدوار کھڑا کرے ۔ اس لحاظ سے دیکھیں تو پچھلی بار اپنی صوبائی حکومت کے باوجود دہلی کے 7 میں سے 5مقامات پر کانگریس کے امیدوار دوسرے نمبر پر رہے جبکہ عام آدمی پارٹی کے امیدواروں کو صرف دو حلقوں میں یہ شرف حاصل ہوا۔ کانگریس کو عاپ سے چار فیصد زیادہ ووٹ ملے تھے ۔ کانگریس کے رہنما اجے ماکن نے پہلے کے مقابلے 7 فیصد زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ عاپ کے راگھو چڈھا کے ووٹ کا تناسب چار فیصد گھٹ گیا تھا۔ ان حقائق کے باوجود کانگریس سے مطالبہ کرنا کہ وہ دہلی عاپ کے لیے چھوڑ کر کنارے ہوجائے حماقت نہیں تو اور کیا ہے ۔ ایسے میں اجے ماکن کے ذریعہ کیجریوال کی مخالفت نظریاتی اعتبار سے غلط تو ہوسکتی ہے لیکن سیاسی سطح پر غلط نہیں ہے ، عاپ کا جہاں تک سوال ہے اس سے زیادہ نظریاتی دیوالیہ پن کسی سیاسی جماعت میں نہیں ہے ۔ اروند کیجریوال کا یہ بیان تاریخ میں رقم ہوچکا ہے کہ نوٹ پر لکشمی گنیش کی تصویر لگا دینے سے ملک میں خوشحالی آجائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کے اندر عام آدمی پارٹی نے کانگریس کو شکست فاش سے دوچار کرکے اقتدار سنبھالا ہے لیکن وہ بھی اسمبلی انتخاب تھا ۔ پارلیمانی انتخاب کے لیے پچھلے قومی الیکشن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس وقت پنجاب کے اندر کانگریس نے 8 نشستیں جیتی تھیں۔ اکالی دل اور اس کے طفیل بی جے پی کے دو جمع دو چار امیدوار کامیاب ہوئے تھے اور عام آدمی پارٹی کے ایک امیدوار کو کامیابی ملی تھی۔ اب یہ دعویٰ کیا جاسکتا ہے کہ حالات بدل گئے ہیں اور عام آدمی پارٹی کی مقبولیت میں زبردست اضافہ ہوگیا ہے ۔ اس نے حالیہ ضمنی انتخاب میں کانگریس کو شکست دے کر جالندھر کی سیٹ توجیت لی ہے مگر اس حقیقت کا کیا کیا جائے کہ اپنے پارلیمانی حلقۂ انتخاب سے استعفیٰ دے کر وزیر اعلیٰ بننے والے اپنی سنگرور کی سیٹ دوبارہ نہیں جیت سکے ۔ عام آدمی پارٹی کے امیدوار گرمیل سنگھ کو اکالی دل (امرتسر) کے رہنما سمرن جیت سنگھ نے شکست فاش دے دی ۔ یہ انتخاب اسی سال مئی میں ہوا تھا۔ اس کے بعد امرت پال سنگھ کے معاملے نے بھی بھگونت سنگھ مان کی مقبولیت کو کم کیا ہے ۔ اس لیے عام آدمی پارٹی کا کانگریس سے بالکل دستبردار ہوجانے کادعویٰ غیر معقول ہے ۔
عام آدمی پارٹی کا دوسرا مطالبہ بلکہ شرط یہ ہے کہ ایوان بالا میں مرکزی حکومت کے حالیہ حکمنامہ کی مخالفت ہے ۔ وہ ایوان زیریں میں یہ توقع نہیں کرتے کیونکہ وہاں بی جے پی کو واضح اکثریت حاصل ہے اور عام آدمی پارٹی کا صرف ایک رکن موجود ہے ۔ ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا میں اس کے دس ارکان اور کانگریس کے اکتیس ہیں ۔ وہ چاہتی ہے کہ کانگریس سرکاری آر ڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے ان کی پشت پناہی کرے ۔ کانگریس کو اس میں تکلف ہے جو نہیں ہونا چاہیے لیکن اگر کانگریس حکمنامہ کی مخالفت کردے تب بھی اس کی کامیابی یقینی ہے کیونکہ وہاں پر کل 245ارکان ہیں 7نشستیں خالی ہیں اس لیے یہ تعداد 238بنتی ہے ۔ مرکزی حکومت کو اسے جملہ 119ارکان کی حمایت درکار ہے ۔ بی جے پی کے اپنے ارکان 93 ہیں اس لیے اسے 26 باہری لوگوں کی حمایت چاہیے ۔ پٹنہ جو جماعتیں جمع ہوئی تھیں ان کے ارکان کی تعداد بھی صرف 93 ہی ہے ۔ اس طرح غیر این ڈی اے اور غیر پی ڈی اے ارکان 51ہیں۔ ان میں سے کچھ این ڈی اے میں شامل ہیں اور کچھ کو ساتھ لے لینا کوئی مشکل نہیں ہے ۔ اس لیے کیجریوال کی ساری اٹھاپٹخ کے باوجود ان کے پر کترنے والا قانون تو بن کر رہ گیا ہے ۔ اس سے نجات حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنا لازمی ہے اور اس کے لیے اروند کیجریوال کو اڑیل رویہ اختیار کرنے کے بجائے لچکدارانداز میں اپوزیشن اتحاد کو کمزر نہیں مضبوط کرنا چاہیے ۔
حزب اختلاف کے اتحاد کی نشست میں لالو یادو نے راہل گاندھی کو اشارے کنائے میں اپوزیشن کا دولہا تو بنادیا مگر روایتی ہندوستانی شادیوں میں اب بھی نوشہ سے زیادہ اہمیت اس کے والد اورپھر ناراض پھوپھا کی ہوتی ہے ۔ اس نشست کے حوالے سے والدکے مقام پر نتیش کمارفائز تھے لیکن ان کے ساتھ ناراض پھوپھا یعنی اروند کیجریوال کا ذکر شر بھی لازمی ہے ۔ ناراض پھوپھا باراتیوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرواکر اپنی اہمیت بڑھانے کے چکر میں ہر شادی کے موقع پر رنگ میں بھنگ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ یہی کام دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال نے کیا۔ میٹنگ میں ان کی شرکت کا مقصد اتحاد کو مضبوط کرنا نہیں بلکہ اپنے ایجنڈے کو سب پر تھوپنا تھا۔ اس نشست کا اہتمام کی غرض و غایت قومی سطح پر بی جے پی کو ہرانا تھی اس لیے کانگریس سمیت ساری علاقائی جماعتوں نے اپنے مسائل کو بالائے طاق رکھ دیا لیکن عام آدمی پارٹی ایسا نہیں کرسکی ۔ اس کے لیے سپریم کو رٹ کی تنبیہ کے باوجود مرکزی حکومت کے وضع کردہ فرمان کو قانون بننے سے روکنا اہم ترین مدعا تھا کیونکہ اس کے ذریعہ دہلی حکومت کے اختیارات کو کم کردیا گیا تھا۔
اس معاملے میں کانگریس کا موقف یہ ہے کہ جب قانون سازی کے لیے مسودہ ایوان میں لایا جائے گا تو اس وقت سارے لوگوں کے مشورے سے فیصلہ ہوگا۔ یہی پارلیمانی روایت ہے کہ ایوان کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے عام آدمی پارٹی سمیت کانگریس تمام حزب اختلاف کی جماعتوں کو بلاتی ہے اور سارے لوگوں کے مشورے سے فیصلہ ہوتا ہے ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن اروند کیجریوال اس روایت سے انحراف کرکے اتحاد کی کوشش کو اس سے مشروط کرنا چاہتے ہیں۔ عام زبان میں انہوں نے کانگریس کو بلیک میل کرنے کی کوشش کی اور رائتہ پھیلا دیا۔ اس معاملے میں جب انہوں نے دیکھا کہ دباؤکا طریقہ کارگر نہیں ہورہا ہے اور کانگریس کو اکسانے کے لیے یہاں تک کہہ دیا کہ کانگریس نے بی جے پی سے سانٹھ گانٹھ کرلی ہے ۔ ہاتھ اور کمل کی یہ مجبوری ہے کہ چاہ کر بھی وہ ساتھ نہیں آسکتے اس کے باوجود عام آدمی پارٹی نے یہ الزام لگایا تاکہ کانگریس کسی ردعمل کا اظہار کرے اور انہیں غیر حاضر رہنے کا بہانہ مل جائے لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ کانگریس نے خود کو قابو میں رکھا اور اروند کیجریوال کو کوئی موقع نہیں دیا۔ اس لیے دہلی وزیر اعلیٰ نشست میں تو شریک رہے مگر گودی میڈیا کو نشست کی ناکامی کا ڈھول پکڑا کر پریس کانفرنس سے غائب ہوگئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ کیجریوال نے اپنی اس حرکت سے اپوزیشن اتحاد کو غیر حاضر رہنے والے کے سی آر ، نوین پٹنائک اور جگن موہن ریڈی سے بڑا نقصان پہنچایا ۔اب یہ عوام پر ہے کہ وہ عاپ کا ساتھ دے کر اپوزیشن کے اتحاد پر پانی پھیرتے ہیں یا اسی جھاڑو سے کیجریوال کا دماغ درست کردیتے ہیں؟
٭٭٭