... loading ...
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مترجم قرآن ، مفسر ، کلام نبوت اور دیگر بہت سی کتابوں کے مصنف مولانا محمد فاروق خاں انتقال فرما گئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
مولانا فاروق خاں جماعت اسلامی ہند کے ان اکابر علوم اسلامیہ کے مصنفین میں سے تھے جنھوں نے اپنی پوری زندگی علوم اسلامیہ کی تصنیف، تالیف،ترویج،تبلیغ دین اور تحریک اسلامی کے لیے وقف کردی تھی ۔ وفات کے وقت ان کی عمر 90 برس تھی ۔ ان کا وطن ھندوستان کی ریاست اترپردیش کا ضلع سلطان پور تھا ۔وہ اپنی پیدائش کے تیئس سال بعد 1956 میں جماعت اسلامی ہند سے وابستہ ہوئے تھے۔ اس وقت سے لیکر زندگی کی آخری سانس تک وفاداری بشرط استواری اصل ایمان ہے کے مصداق انھوں نے اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ نچوڑ نچوڑ کر اس سے علوم اسلامیہ کی ترویج اورتحریک کی آبیاری کی ۔
مولانا کا ابتدائی میدان قرآنیات تھا ان کا اوّلین تعارف ‘شیدائے قرآن’ کا ہے۔ انھوں نے متعدد پہلوؤں سے قرآن مجید کی خدمت کی ہے۔ سب سے پہلے انھوں نے پہلے امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابو اللیث ندوی اصلاحی کے حکم پرقرآن مجید کا ہندی ترجمہ کیا ۔یہ کام انھوں نے ھندوستان کے مشہور عالم دین مولانا امانت اللہ اصلاحی اور مولانا صدر الدین اصلاحی کی نگرانی میں انجام دیا۔ یہ ترجمہ مولانا ابو سلیم عبد الحی کے مکتبہ الحسنات سے برابر شائع ہورہا ہے اور ہندی کے مقبول ترجموں میں سے ہے۔ انھوں نے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے اردو ترجمہ قرآن جس کو مولانا نے ترجمانی کانام دیاتھا,کا ہندی ترجمہ کیا۔ مولانا فاروق خان نے اردو زبان میں خود بھی اپنا ترجمہ قرآن کیا ہے جس کے کئی اڈیشن منظرعام پر آچکے ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے اردو زبان میں تفسیر بھی لکھی ہے جس کی کمپوزنگ ہوچکی ہے اور جلد شائع ہونے والی ہے۔
قرآنی موضوعات پر ان کی بہت سی کتابیں مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز اور دیگر مکتبوں سے طبع ہوئی ہیں جن میں سے چند کتابوں کے نام یہ ہیں : شاہ عبد القادر کی قرآن فہمی۔ انتخاب قرآن۔قرآن کے تدریسی مسائل ،قرآن کا صوتی اعجاز ، قرآن مجید کے ادبی محاسن ، ایمائے قرآن وغیرہ ۔ مولانا کا پرانی دہلی میں دو مقامات،جامع مسجد دہلی، مرکز جماعت اسلامی (چتلی قبر) میں درس قرآن کا برسوں معمول رہا ہے۔انھوں نے درس میں پورے قرآن کو پانچ مرتبہ ختم کیا ہے۔ ان کے دروس میں شرکت کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے۔ان کے درس قرآن کی اپنی شان ہوتی تھی ۔ قرآنی معارف و نکات اور ایمانی و روحانی اسرار و رموز کے ساتھ آواز کا زیر و بم سامعین کو مسلسل اپنی گرفت میں رکھتا تھا ۔
مولانا فاروق خاں کا علوم اسلامیہ میں دوسر میدان احادیث اور مطالعہ حدیث تھا ۔تشریحاتِ احادیث پر مشتمل ان کی کتاب’کلامِ نبوت’برصغیر کے تمام علمی حلقوں دیوبندی بریلوی اھلحدیث وغیرہ میں یکساں مقبول ہے ۔لاکھوں انسانوں نے اس سے فیض اٹھایا ہے۔اس کے علاوہ بھی ان کے متعدد احادیث کے مجموعے ، آثارِ صحابہ اور مسنون دعاؤں کے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز سے شائع ہوئے ہیں۔ مثلاً مطالعہ حدیث ، دعائیہ چہل حدیث ، آثار صحابہ ، انتخاب احادیث قدسیہ ، حکمت نبوی احادیث کی روشنی میں ، آں حضور کی دعائیں،علم حدیث ۔ ایک تعارف’کے نام سے ایک کتاب ہے جس میں حدیث کی اہمیت و مقام ، اصطلاحات حدیث اور محدثین کی سوانح بیان کی گئی ہے ۔
مولانا عرصہ تک جماعت اسلامی ہند کے شعبہ تصنیف وتالیف میں ہندی شعبہ کے انچارج رہے۔ انھوں نے خود بھی بہت سی کتابوں کا ہندی زبان میں ترجمہ کیا اور ان کی سربراہی میں دوسروں کے ذریعے بھی ترجمے کا خاصا کام ہوا۔ ان کے تربیت یافتگان میں مشہور داعی ، مصنف اور عالم مولانا نسیم غازی بھی ہیں ۔مولانا کا ہندو مت کا مطالعہ بہت وسیع تھا ۔ انھوں نے اردو اور ہندی دونوں زبانوں میں اس موضوع پر متعدد علمی اور تحقیقی کتابیں تصنیف کی ہیں ۔ اردو میں چند کتابوں کے نام یہ ہیں : خدا کا تصور ہندو دھرم کی کتابوں میں ، ہندو دھرم کی کچھ قدیم شخصیتیں ، چند ہندوستانی مذاہب ، رگ وید ایک تجزیاتی مطالعہ ،اسلام کی اہمیت ہندو دھرم کے پس منظر میں ۔
مولانا فاروق خان متصوفانہ اور روحانی شخصیت کے مالک تھے ۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ جماعت اسلامی والوں کا تصوف و روحانیت سے کیا واسطہ؟ لیکن مولانا فاروق خان کی تصوف و روحانیت سے وابستگی جماعت کے درمیان مسلّم تھی اور باہر کے لوگ بھی اس کا اعتراف کرتے تھے ۔ ان کی تقریریں ہوں یا نجی مجلسیں سب روحانیت اور تربیت و تزکیہ کی باتوں سے معمور ہوتی تھیں ۔بھارت میں ہندو مت کی مذہبی شخصیات بھی مولانا کی گفتگو سے بہت متاثر ہوتی تھیں۔
مولانا کی تصانیف سو سے متجاوز ہیں ، جن میں سے بیش تر مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوئی ہیں ۔ چند مزید کتابوں کے نام یہ ہیں : تزکیہ نفس اور اخلاق ، تزکیہ نفس اور ہم ، تکریم نفس اور اسلام ، تربیت کے فکری و عملی پہلو ، خدا کیا اور کہاں؟ ، خدا کی پْر اسرار ہستی کا تصور ، کلم سواء ، آخرت کے سایے میں ، آئین اسلام ، اسماء حسنی ، امت مسلمہ کا منصب و مقام ، توحید اور مسائل حیات ، علوم نبوت ، عرفانِ حقیقت ، کائنات آئین حقیقت ، کائنات میں اللہ کی نشانیاں ، فطری نظام معیشت ، ہندوستان میں اسلام کی اشاعت ، حقیقت نبوت ، حقیقی تصوف ، دعوت اسلام اور اس کے اصول و آداب ، دعوت دین اور اس کے کارکن ، دعوت دین کے مضمرات ، خواتین اسلام کی علمی خدمات ، وغیرہ ۔
مولانا شاعر بھی تھے ۔ وہ فراز سلطان پوری تخلّص رکھتے تھے ۔ ان کا کلام بہت پہلے ‘حرف و صدا’ کے نام سے شائع ہوا تھا ۔ کچھ عرصہ قبل اضافہ شدہ اڈیشن ‘کلیاتِ فراز’ کے نام سے طبع ہوا ہے ۔ عرصہ پہلے ایک غزل سنی تھی اس کا ایک شعر اب تک حافظہ میں محفوظ ہے :
یہ کس نے کہا مت خطا کیجیے
جب خطا کیجیے رو لیا کیجیے
مولانا فاروق خاں ہندوستان کے مشہور ادارہ تحقیق و تصنیف ِاسلامی دودھ نگر علی گڑھ کے بانیوں میں سے تھے۔ادارہ کا ایک معروف رسالہ تحقیقات اسلامی ابھی تک باقاعدگی سے شائع ہو رہاہے۔ 1981 میں ادارہ کی تشکیلِ نو کے وقت مولانا صدر الدین اصلاحی کو صدر اور مولانا سید جلال الدین عمری کو سکریٹری منتخب کیا گیا ـ مولانا فاروق خاں اس کی مجلس منتظمہ کے رکن تھے ۔ 1984 میں جب مولانا صدر الدین اصلاحی نے صدارت سے معذرت کردی تو مولانا فاروق خاں کو صدر بنایا گیا ۔ برسوں کے بعد جب مولانا جلال الدین عمری نئی دہلی سے منتقل ہوئے تو مولانا نے ادارہ کی صدارت ان کے حوالے کردی ۔ مولانا عہدوں اور مناصب سے بڑے بے نیاز رہتے تھے ۔ وہ آخر تک ادارہ کی مجلس منتظمہ کی نشستوں میں پابندی سے شرکت کرتے تھے۔
اب انہیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
اللہ تعالیٰ مولانا کی علمی اصلاحی، دینی ،تبلیغی خدمات کو قبول فرمائے ، ان لغزشوں سے درگزر کرے ، انہیں اعلیٰ علین میں مقام عطا کرے۔ پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے اور عالم اسلام اورخصوصا برصغیر کے مسلمانوں کو ان کے نعم البدل سے نوازے، آمین، یا رب العالمین!
خدا رحمت کنند ایں
عاشقان پاک طینت را
٭٭٭