... loading ...
میرافسر امان
حضرت عبیدہ بن جراح کا تعلق قبیلہ فہر سے تھے۔ حضرت عبیدہ کا نسب پانچویں پشت میں رسول اللہۖ سے جا ملتا ہے۔ابتدائی زمانے میں ہی اسلام لائے تھے۔ دوسرے ایمان لانے والوں کی طرح یہ بھی سرداران قریش کے مظالم کا شکار ہوئے تھے۔ حضور ۖ کی اجازت سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔رسول اللہ ۖ کی ہجرت مدینہ سے پہلے مدینہ ہجرت کی۔ مواخاتِ مدینہ میں حضرت طلحہ انصاری کے بھائی بنائے گئے۔ اسلام کی بے مثال خدمات پر رسول اللہۖ نے جنت کی بشارت دی ۔ یہ عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔رسول اللہ نے اِنہیں امین الامت کا خطاب دیا۔حضرت عبیدہ حضرت ابو بکر صدیق کی محنت سے اسلام لائے تھے۔ حضرت عبیدہ رسول اللہ ۖ کے ساتھ سارے غزوات میں شریک ہوئے تھے۔ غزوہ بدر میں اپنے کافر والد عبدللہ کو قتل کیا تھا۔ غزوہ اُحد میں جب رسول اللہ ۖ کو زرہ کی دو کڑیاں چبھ جانے سے چہرہ مبارک زخمی ہو،ا اور دو دانت شہید ہو گئے تھے، حضرت عبیدہ نے اپنے دانتوں سے رسول اللہۖ کے چہرے سے زرہ کی کڑیاں نکالیں جس سے ان کے بھی دو دانت شہید ہوئے تھے۔ غزہ خندق اور اس کے بعد بنو قریظہ (یہودی قبیلہ) کی سرکوبی میں بھی سرگرم تھے۔6 ہجری میں قبیلہ ثعلیہ اور انجار نے قحط زدہ ہو کر اطراف مدینہ میں غارت گری شروع کی تو رسول اللہۖ نے ان کی سرکوبی کے لیے عبیدہ کو مامور کیا۔ چنانچہ حضرت عبیدہ نے ان کو شکست دی اور وہ پہاڑوں میں تتر بتر ہو گئے۔اسی سال بیعت رضوان میں شریک تھے۔ قریش مکہ اور رسول اللہۖ کے درمیان جو معاہدہ ہو اس میں ان کی شہادت تھی۔غزوہ خبیر میں رسول اللہۖ کے ساتھ شریک ہوئے۔ ایک مہم پر رسول اللہۖ نے حضرت عمرو بن العاص کو روانہ کیا۔ ان کے مقابلے میں دشمن کی تعداد زیادہ تھی۔ رسول اللہۖ نے حضرت عبیدہ کو دو سو جنگی بہادروں کے ساتھ اُن کی مدد کے لیے روانہ کیا۔ اس فوج میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر بھی شریک تھے۔8 ہجری کو ایک دستہ کا سردار بنا کر قریش کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے حضرت عبیدہ کو ساحل کی طرف روانہ کیا۔ ٨ ہجری کو فتح مکہ ہوا جس میں حضرت عبیدہ بھی شریک تھے۔ اس کے بعد حنین اور طائف کی جنگیں میں بھی پیش پیش تھے۔ حضرت عبیدہ نے دین کی دیگر خدمات بھی انجام دیں۔9 ہجری کو اہل نجران کی درخواست پر رسول اللہۖ نے امین الامت حضرت عبیدہ کو معلم بنا کر بھیجا۔ اہل نجران کے آپس کے جھگڑے بھی طے کیے۔ اہل بحرین سے جزیہ وصول کرنے بھی گئے۔10 ہجری رسول اللہۖ خطبہ حج الوداع کے لیے گئے تو حضرت عبیدہ ساتھ تھے۔
سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت کا جھگڑا پیدا ہوا تا ہم ان کی حکمت سے طے ہوا۔حضرت عمر نے ابوبکر صدیق کا نام پیش کیا تو مہاجرین اور انصار سب نے حضرت ابوبکر کے نام پر اتفاق کیا۔حضرت بو بکر کے دور خلافت میں اسلامی فوجوں کا سپہ سالار بنا کر روم کے طرف روانہ کیا گیا۔ اس میں خالد بن ولید بھی شامل تھے۔ اس فوج نے بصرہ،فحل،اور اجنادین کو فتح کر کے دمشق کا محاصرہ کر لیا۔جو بعد میں حضڑت عمر کے دور میں فتح ہوا۔اس کے بعد حمص کو فتح کیا۔ یر موک کی فتح سے پہلے ہرقل شہنشاہ روم نے اپنی تمام فوجوں کو جمع کیا۔عین جنگ کے موقعہ پر ہرقل کا کمانڈر عبیدہ کی کوشش سے اسلام لے آیا اور مسلمان فوجوں میں شامل ہو کر شہید ہوا۔حضرت عبیدہ نے جنگ سے پہلے رومیوںکو اسلام کی دعوت دی ۔ کہا کہ اسلام لے آئیں۔ ہم بھائی بھائی بن جائیں گے۔ یہ قبول نہیں تو جزیہ دو۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو جنگ کے لیے تیار ہو جائو۔ رومیوں نے جنگ کو ترجیح دی ۔ سخت مقابلہ ہوا۔ رومیوں کے ستر ہزارو سپاہی اس جنگ میں مارے گئے۔ مسلمانوں کی طرف سے صرف تین ہزار شہید ہوئے۔اس جنگ کے بعد تمام شام پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا۔حضرت عمرو بن العاص بیت المقدس کا محاصرہ کیے ہوئے تھے۔ حضرت عبیدہ بھی ان کے ساتھ جا ملے۔ طویل محاصرے کے بعد عیسائی ہار مان گئے۔ ایک شرط رکھی کہ ہم امیر المومنین حضرت عمر کے ساتھ معاہدہ کریں گے اور شہر کی چابیاں اُن ہی کے حوالے کریں گے۔ حضرت عبیدہ نے قاصد مدینہ دارالخلافہ بھیجا۔ حضرت عمر بیت المقدس تشریف لائے۔ جب بیت المقدس پہنچے تو اونٹ کی مہار تھامے ہوئے تھے۔ غلام اونٹ پر سوار تھا۔یہ نظارہ عیسائیوں نے دیکھا تو حیرت زدہ ہو گئے۔ معاہدہ طے پایا اور بیت المقدس مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔ اس کے بعد بھی رومیوں نے سازش جاری رکھی۔ رومی اپنی فوجوں کے ساتھ حمص کی طرف بڑھ گئے۔ حضرت عبیدہ نے اس آخری معرکہ میں بھی رومیوںکو شکست فاش دی۔شام میں تھے کہ طاعون کی بیماری پھیلی۔حضرت عمر خود شام کی طرف گئے ۔ حضرت عبیدہ کو شام سے نکل جانے کا کہا۔ مگر حضرت عبیدہ نے ایمانی قوت سے وہیں رہنے کا فیصلہ کیا ۔ طاعون کی بیماری میں مبتلا ہوئے اور وہاں پر وفات پائی۔حضرت عبیدہ خدا ترس،متبع سنت،،متقی، زاہد، متواضع اور رحم دل تھے۔ قد لمبا تھا۔ حدیث شریف میں ان کے عشرہ مبشرہ میں شامل ہونے کا ذکر ہے۔
٭٭٭