... loading ...
میرافسرامان
سعد بن ابی وقاص فاتح ایران اور عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں،جنہیں دنیا میں ہی جنت کی بشارت دے دی گئی تھی۔ان کا تعلق قریش کے قبیلہ زہرہ سے تھا۔جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیالی خاندان ہے۔ سعد ؓبن وقاص اسلام کے شروع دنوں میں ہی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے تھے۔ان کے اسلام لانے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت خوشی ہوئی تھی۔سعد ؓبن وقاص میں شرافت،دیانت،امانت اور شجاعت کے جواہر کوٹ کوٹ کے بھرے ہوئے تھے۔سب سے بڑا، اعزاز یہ ہے کہ رسول اللہؐ کے ماموں زاد بھائی تھے۔ایک دفعہ ایک مجلس میں رسول اللہ ؐ تشریف فرما تھا کہ حضرت سعدؓ تشریف لائے، تو حضورؐ نے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا میرے ماموں آئے ہیں۔ کوئی ان جیسا ماموں ہے تو دکھائے۔ حضرت سعدؓ کے اسلام لانے پر ان کے والدہ بہت ہی ناراض ہوئیں تھیں۔ان کو واپس اپنے دین پر بلاتی رہتی تھیں۔ حتی کہ کھانا پینے سے ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ جب تک میرا بیٹا واپس میرے دین پر نہیں آتا،میں ایسے ہی زندگی گزار دوں گی۔حضرت سعدؓ کو اپنی والدہ سے بے انتہا پیار و محبت تھی۔ مگر اسلام اور رسول اللہؐ کا ساتھ چھوڑنے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں ہوئے۔ دین اسلام پر قائم رہے۔ ان ہی کے بارے میں آیت نازل ہوئیں کہ’’ اگر والدین تجھ کو میرے ساتھ شرک پر مجبور کریں جن کا علم و یقین تیرے پاس نہیں تو اس میں ان کی اطاعت نہ کر‘‘۔
حضرت سعدؓ غزوات میں رسول اللہؐ کے ساتھ شریک ہوئے۔اس میں بدر،اُحد، جنگ خندق،خبیر اور دیگر شامل ہیں۔غزوہ بدر میں اپنے بھائی کے ساتھ شریک ہوئے اور مردانگی کے جوہر دکھائے۔غزوہ اُحد میں درے کی جانب سے قریش کے لشکر نے اچانک حملہ کر دیا۔حضرت سعدؓ نے اس جرأت سے تیر اندازی کی کہ دشمنو ںمیں جس کسی کو تیرمارتے وہ وہیں ڈھیر ہو جاتا۔ جب رسول اللہؐ نے یہ تیر اندازی دیکھی تو حوصلہ دلاتے ہوئے ارشاد فرمایا’’ سعد تیر اندازی جاری رکھو میرے والدین تم پر قربان سعد تیر اندازی جاری رکھو‘‘۔حضرت سعدؓ ساری زندگی نبی کریم ؐ کی زبان سے نکلے جملہ پر فخر کرتے رہتے تھے۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ صحابہ کرامؓ میں مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ نبی کریم ؐنے میرے لیے ایسے فرمایا تھا۔ جب بت پرست ایران پر حملہ کرنے اور اسے فتح کرنے کا وقت آیا تو حضرت عمرؓ نے سارے اسلامی علاقوں سے فوجوں کو مدینہ آنے کے لیے خطوط لکھے تھے۔ جب سب جنگی قافلے حضرت عمرؓ کے پاس درالخلافہ مدینہ میں پہنچے تو حضرت عمرؓ نے مجاہدین اسلام سے رائے لی کہ ایران کو فتح کرنے کے لیے کس کو سپہ سالار بنایا جائے۔ سب جنگی قافلوں نے یک بارگی سے حضرت سعدؓ کا نام سپہ سالار کے لیے دیا۔حضرت عمرؓ نے انہیں بلایا اور لشکر اسلام کا جھنڈا اُنہیں سونپ دیا۔جب یہ لشکر مدینہ سے ایران فتح کرنے کے لیے نکلنے لگا تو حضرت عمرؓ لشکر اسلام کو الوداع کہنے کے لیے اُٹھے اور فرمایا’’اے سعدؓ کبھی غرور میں نہ مبتلا ہونا کہ میں رسول اللہؐ کا ماموں ہوں۔ میری بات ذہن میں رکھنا کہ اللہ برائی کو برائی سے نہیں ، بلکہ اچھائی سے ختم کرتاہے۔اے سعد ؓ یاد رکھنا رب العزت کی یہاں خاندانی برتری کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔وہاں اطاعت ہی برتری ہے۔ اللہ کے نزدیک دنیاوی کمزور اور طاقت ور ایک جیسے ہیں۔ اللہ سب کا رب ہے اور سب اس کے بندے ہیں۔ اللہ کے ہاں فضلیت تقویٰ کی بنیاد پر ملتی ہے۔جو اللہ کے رسول ؐ نے ہدایت دیں تھیں اُنہیں ہمیشہ یاد رکھنا۔ حضرت عمرؓ کی نصیحت سن کر لشکر ِاسلام تکبیر کے نعرے لگاتے میدان جہاد میںجنگ کی طرف روانہ ہوا۔ اس لشکر میں99 بدری صحابہ کرامؓ شریک تھے ۔ 319 بیعت رضوان والے صحابہؓ شریک ہوئے۔ 300 فتح مکہ میں شرکت کرنے والے صحابہؓ شریک تھے۔ اور تقریباً 700 صحابہؓ کرام کے نوجوان بیٹے شامل تھے۔حضرت سعدؓ نے سپہ سالار کی حیثیت سے قادسیہ کے مقام پر لشکر کو پڑائو ڈالنے کا حکم دیا تھا۔
یہاں پر ایک واقعہ جو تاریخ میں درج ہے بتانا ضروری ہے کہ دریائے دجلہ کے کنارے جب اسلامی لشکر پہنچا تو دریا طغیانی پر تھا۔ حضرت سعدؓ اور اُن کے سپاہیوں نے اپنے گھوڑے دریائے دجلہ کی طغیانی کی لہروں کا خوف دل سے نکالتے ہوئے دریا میں ڈال دیا تو ایرانی فوجوں نے کہا کہ دیو آمند۔ دیو آمند۔دشمن اسلام ایراینوں سے زور دار مقابلہ ہوا۔ لڑائی کے آخری دن مسلمانوں نے عزم کیا کہ آج فیصلہ کن معرکہ ہونا چاہیے۔ مسلم فوجوں نے دشمن کی فوجوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔مسلمان نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے دشمن کی صفوں میں گھس گئے۔ چشم زدن میں ایرانی لشکر کے سپہ سالار رستم کا سر قلم کر لیا۔ دشمن نے مسلمانوں کے نیزوں کی انیوں پر اپنے سردار کا سر دیکھ کر بھاگ نکلے۔ نوبت یہاں تک آئی کی مسلمان سپاہی ایرانی سپاہیوں سے اسلحہ چھین کر اُن کے سر قلم کرنے لگے۔ اس جنگ میں مسلمانوں کو وافر مقدار میں مال غنیمت حاصل ہوا۔ تیس ہزار ایرانی اس جنگ میں مارے گئے۔حضرت سعد فاتح ایران کہلائے۔حضرت سعدؓ نے لمبی عمر پائی تھی۔ اللہ نے مال و دولت سے بھی نوازا تھا۔ مرتے وقت اپنا ایک پرانا جبہ منگوایا اوروصیت کی کہ مجھے یہ جبہ پہنایا جائے۔ میں اسی جبہ کو پہن کر غزوہ بدر میں رسول اللہؐ کے ساتھ شریک ہوا تھا۔ میں نے اسی جبہ میں اللہ سے ملاقات کرنی ہے۔
٭٭٭