... loading ...
ڈاکٹر جمشید نظر
گزشتہ چند برسوں سے پاکستان جن بدترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے، اس کو دیکھتے ہوئے دنیا کے معاشی تجزیہ کاروں نے پیش گوئیاں شروع کردی تھیںکہ خدانخواستہ پاکستان بھی سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہونے جارہا ہے ۔معاشی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا نہیں کرپائے گا لیکن تمام تر پیش گوئیاں اس وقت غلط ثابت ہوگئیں جب پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تین ارب ڈالر کااسٹاف لیول کا اسٹینڈ بائی معاہدہ طے پاگیا ۔اس وقت پاکستان کے لئے آئی ایم ایف کے دو پروگرام اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ(ایس بی اے) اورایکسٹینڈڈ فنڈ فیسیلیٹی (ای ایف ایف)بہت اہم ہیں۔
اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ سے مراد قلیل مدتی فنانسنگ کے ذریعے کسی ملک کی بیرونی فنانسنگ کی ضروریات پوری کرنا ہے۔وہ ممالک جنھوں نے آئی ایم ایف سے اصلاحاتی قرضہ لیا لیکن اس کی شرائط میں طے کیے گئے ہدف پورے نہ کر سکے تو انھیں سہارے کے لیے ا سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مزید قرض دیا جاتا ہے۔قلیل مدتی فنانسنگ کے تحت حاصل کردہ قرض کی رقم ساڑھے تین سے پانچ سال میں واپس کرنی ہوتی ہے۔پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ہونے والا اسٹاف لیول معاہدہ بھی قلیل مدتی فناسنگ کے تحت کیا گیا ہے جو نو ماہ کے لئے ہے ،اس معاہدے کی حتمی منظوری آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ دے گا جس کااجلاس جولائی کے وسط میں ہونے کی توقع ہے، اسی منظوری کے بعد پاکستان کو تین ارب ڈالر کا قرض مل سکے گا تاہم سٹاف لیول معاہدے طے پانے کے بعد پاکستان کی معیشت پر اس کے مثبت اثرات ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ابھی معاہدے کو چند گھنٹے ہی گزرے تھے کہ عالمی سطح پر پاکستان کا یورو بانڈبہترہونے لگااور اس میں 16سینٹ سے لے کر 71سینٹ تک بہتری دیکھنے میں آئی۔آئی ایم ایف معاہدے سے پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم کرنے میں مدد ملے گی ، سماجی شعبے کے لئے فنڈز کی فراہمی میں بہتری آئے گی اور ٹیکسز کی آمدن بڑھانے میں مدد ملے گی اگرچہ اس معاہدے سے ملک ڈیفالٹ کا خطرہ تو ٹل گیا ہے لیکن آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد کرنے میں بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ماہرین کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے معاہدے کے تحت بجلی،گیس،پٹرول اورٹیکسز میں کئی گنا اضافہ کرنا ہوگا جبکہ شرح سود میں اضافہ کی وجہ سے مہنگائی مزید بڑھے گی جس سے نہ صرف غریب طبقہ بلکہ مڈل ا سٹینڈرڈ طبقہ بھی بری طرح متاثر ہوگا ۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں مئی کے مہینہ کے اختتام میں 38فیصد کی بلند شرح مہنگائی ریکارڈ کی گئی جو پاکستان کی تاریخ میں کسی ایک مہنیہ میں مہنگائی کی بلند شرح ہے۔
سن1940 کے آخر اور سن1950کی دہائی میں جبکہ برطانیہ،فرانس اور جرمنی کی معیشت ڈوب رہی تھی ایسے میں آئی ایم ایف نے اسے کافی سہارا دیاتھا لیکن اگرتاریخی اعتبار سے آئی ایم ایف کو دیکھا جائے توپتہ چلے گا کی جن ممالک نے آئی ایم ایف سے قرضے لئے اور ان کی طے کردہ شرائط پر عملدرآمد کیا وہ معاشی طور پر مکمل تباہ ہوگئے جس کا ثبوت سن1980کی دہائی میں لاطینی امریکہ کے ممالک اور سن1997میںجنوب مشرقی ایشیاء کا مالیاتی بحران ہے۔اسی وجہ سے ماہرین کا خیال ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے منصوبے افراط زر پیدا کرتے ہیں جو کسی بھی ملک کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد سے لے کر گیارہ سال تک آئی ایم ایف کی بارہا پیشکشوں کے باوجودکوئی قرضہ نہیں لیا گیاتھا لیکن سن1958کو پاکستان نے جب آئی ایم ایف کا پہلا قرضہ لیا تو آج تک ان قرضوں کو مکمل طور پر چکا نہیں پایا۔ اسی وجہ سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اپنے ایک حالیہ بیان میں اس عزم کا ظہار کیا تھا کہ پاکستان کی معیشت بحال کرتے ہی آئی ایم ایف کے پلان سے نکل جائیں گے ،ان کا کہنا تھا کہ جب پاکستان نے سن1999میں ایٹمی دھماکے کیے تھے تب بھی ملک پر بدترین پابندیاں لگائی گئی تھیں لیکن اس ہم اس مشکل دور سے نکل آئے تھے، اسی طرح اب بھی مشکل دور سے نکل جائیں گے۔ایک طرف آئی ایم ایف کا قرضہ اوراس کی شرائط اوردوسری طرف عوام کی بہتری اورغربت ومہنگائی میں کمی کے وعدے اس وقت موجودہ حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار ان چیلنجز کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔
٭٭٭