وجود

... loading ...

وجود

ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

اتوار 25 جون 2023 ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں

ڈاکٹر سلیم خان

منموہن سنگھ کے زمانے میں نربھیا کی عصمت دری کے بعد دارالخلافہ دہلی کو‘ریپ کیپٹل’ کے خطاب سے نوازہ گیا تھا مگر اب مودی یُگ میں اس نے مزید ترقی کرکے ‘کرائم کیپٹل ’ کا اعزاز بھی حاصل کرلیا ہے ۔ اس کو کہتے ہیں ‘مودی کا ساتھ جرم کا وکاس ’۔ راجدھانی دہلی میں آئے دن پیش آنے والے لرزہ خیز جرائم کی خبریں پڑھ کر روح کانپ جاتی ہے ۔تازہ واقعہ آر کے پورم تھانہ علاقے میں واقع امبیڈکر بستی کاہے ۔ وہاں اتوار کی علی الصبح 2 درجن سے زیادہ شرپسندایک لڑکے کو مارنے کی خاطر فائرنگ کی، نوجوان تو بچ گیا، مگر اس کی دو بہنیں ہلاک ہوگئیں ۔اس سانحہ میں اگر قاتل ہندو اور مقتول مسلمان ہوتے تو اسے بڑی آسانی سے ماب لنچنگ ، ہندوتوا اور نسل کشی وغیرہ سے جوڑ دیا جاتا۔ اس کے برعکس اگر مسلمان قاتلوں نے کسی ہندو کا قتل کردیا ہوتا تو اس کے لیے ‘لو جہاد’ اور ‘لینڈ جہاد’ کے طرز پر ‘لون جہاد’ کی اصطلاح ایجاد ہوجاتی۔ یہ بتایا جاتا کہ اس میں پہلے قرض لیاجاتاہے اور پھر تقاضہ کرنے والے موت کے گھاٹ اتار دیئے جاتے ہیں لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوا اس لیے ہر کوئی سوچ رہا ہے کہ آخر ہمارے سماج سے انسانیت کہاں چلی گئی؟ ہم لوگ درندوں میں کیوں بدل گئے ؟ اس واقعہ نے سماج کو جو آئینہ دکھایا اس پر ساحر لدھیانوی کا یہ شعر صادق آتاہے
ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
اس دوہرے قتل کی معمولی سی وجہ پورے سماج کو شرمسار کردینے والی ہے ۔خبروں کے مطابق متاثرہ نوجوان للت اپنی ادھار کی رقم وصول کرنے کے لیے مقروض کے گھر گیا اور بے نیل و مرام لوٹ آیا۔ قرض لوٹانے کے بجائے 2 درجن سے زائد بدمعاش اس کے گھر پہنچ گئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ للت کی بہنیں کسی طرح للت کو بھگانے میں کامیاب ہو گئیں تو مشتعل بدمعاشوں نے دونوں بہنوں پنکی( عمر 30) اور جیوتی( عمر 29) کو گولی ماردی۔یہ دوہرا قتل محض پندرہ ہزار روپئے نہیں لوٹانے کی خاطر ہوا۔ سوال یہ ہے کیا اس امرت کال میں قرض دینا اور تقاضہ کرناقابلِ گردن زدنی جرم ہے ۔ معاشرے میں اگر عوام کو ماورائے قانون قتل و غارتگری کی اجازت دے دی جائے ۔ اس کاارتکاب کرنے والوں کو سرکاری تحفظ مل جائے ۔ اس کے ظلم و ستم کا سیاسی فائدہ اٹھایا جائے تو انسانی سماج میں جنگل راج قائم ہوجاتا ہے ۔ وہاں درندے دندناتے پھرتے ہیں۔ اس انحطاط کے لیے لوگوں کے دل سے قانون کا ڈر نکالنے والے شاہ جیسے فسادات سے سبق سکھانے والے اور یوگی جیسے مٹی میں ملانے والے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
پولیس نے چند گھنٹوں کے اندراس معاملے میں کشن اور گنیش سوامی کو گرفتار کرلیا بعد ازاں ارجن، مائیکل اور دیو بھی پکڑے گئے لیکن انہیں قرار واقعی سزا ملے گی یا سیاسی فائدے کے لیے برج بھوشن شرن سنگھ کی مانند بچا لیا جائے گا؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ ویسے تو یہ خالص اخلاقی و انسانی معاملہ ہے لیکن اس پر بھی سیاست کا بازار گرم ہے ۔ اس چونکا نے والے قتل نے حکمران عام آدمی پارٹی اورحزب اختلاف بی جے پی کو جوتم پیزار کا موقع فراہم کردیااورنظم و نسق کی بگڑتی صورتحال پر الزام تراشیاں شروع ہوگئیں ۔دہلی پولیس چونکہ مرکزی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتی ہے اس لیے وزیر اعلی اروند کیجریوال نے لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ پر الزام لگایا کہ وہ شہر میں امن و امان کی موجودہ صورتحال کو ٹھیک کرنے کے بجائے ان کی حکومت سے اختیارات چھیننے کی سازش میں مصروف رہتے ہیں۔ انہوں نے ٹویٹ میں لکھا کہ دہلی کا امن و امان اگر ایل جی کے بجائے عآپ حکومت کے تحت ہوتا، تو دہلی محفوظ ترین ہوجاتی ۔ پسماندگان سے اظہار تعزیت کے بعد کیجریوال نے مقتول خواتین کے روح کی خاطر سکون کی دعا کی۔اروند کیجریوال کے ٹوئٹ سے بی جے پی کی دکھتی رگ دب گئی اور ان کے خلاف لعن طعن کا آتش فشاں پھٹ پڑا۔ زعفرانی رکن پارلیمان منوج تیواری نے کیجریوال پر نزلہ اتارتے ہوئے کہا کہ ایسے واقعات پر سستی سیاست کرنے والے رہنما اپنی بنیادی ذمہ داریوں کو نبھانے میں ناکام ہو رہے ہیں۔ اس کے بعد مرکزی وزیر مملکت میناکشی لیکھی نے بھی وزیر اعلیٰ کے جواب میں لکھا :یہ شخص ( کیجریوال) قانون کو نہیں سمجھتا‘‘۔
اس تمہید کے بعد تو انہوں الزامات ایک پٹارہ ہی کھول دیااور لکھاکہ اروند کیجریوال کا ایم ایل اے دہلی فسادات میں ملوث تھا۔ یہ الزام غلط ہے کیونکہ فساد کے اصل مجرم کپل شرما کو بچانے کے لیے بی جے پی نے جج کا تبادلہ تک کروادیا اور عام آدمی پارٹی کے رہنما کو طاہر حسین کو بلاجواز پھنسایاگیا۔لیکھی نے طاہر حسین پر آئی بی کے افسر انکت کے قتل اورلوگوں میں گلیل ، بندوقیں اور پیٹرول بم بانٹنے کا الزام تو لگایا لیکن اس کے حق میں کوئی ثبوت عدالت کے اندر ہنوز پیش نہیں کیا جاسکا۔ اس لیے یہ کہنا کہ ایسے لوگوں کو امن و امان کی ذمہ داری کیسے دی جا سکتی ہے ؟ بے معنی سوال ہے ۔عام آدمی پارٹی نے لیکھی کو جواب دینے کی ذمہ داری نئے وزیر صحت سوربھ بھردواج کو سونپی ۔ انہوں نے لکھا ‘‘قومی راجدھانی کے اندر پچھلے ایک سال میں امن و امان کی صورتحال خراب ہو گئی ہے ۔ خواتین محفوظ نہیں ہیں کیونکہ ہماری ماؤں اور بہنوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے ۔ چھیڑ چھاڑ عام ہو گئی ہے ۔ آج کوئی بھی عورت زیورات پہن کر گھر سے باہر نہیں نکل سکتی ہے ۔ چھیننے کی وارداتیں کھلے عام ہو رہی ہیں۔ دہلی کا نظام قانون بگڑ گیا ہے ۔ تہاڑ جیل میں اور لوگوں کے گھروں میں گھس کر قتل ہو رہے ہیں۔ دہلی میں نظم ونسق کی حالت اتنی بری کبھی نہیں تھی۔ ایل جی کی ترجیحات چونکہ درست نہیں ہیں اس لیے پولس ایک سیاسی شعبہ کی طرح کام کر رہی ہے ‘‘۔
کانگریس نے موقع کا فائدہ اٹھا کر اس چپقلش میں اپنی سیاسی روٹیاں سینکنا شروع کردی۔ اس کے ترجمان ڈاکٹر نریش نے کہا کہ دہلی میں جہاں پولس کا خوف ہونا چاہئے وہاں شرپسندوں کا ڈر ہے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ پنجاب کے وزیر اعلی بھگونت مان اور دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کے پاس وقت نہیں ہے ، لیکن ملک کے وزیر داخلہ دہلی کے لیے کب وقت نکالیں گے ؟ نریش کمار نے جلد کل جماعتی نشست بلانے اور پولیس بھرتی میں خلا پرُ کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے الزام لگایا کہ دہلی کے وزیر اعلیٰ اور لیفٹیننٹ گورنر آپس میں لڑتے رہتے ہیں اور ان کو اس طرح کے معاملات میں دلچسپی نہیں ہے ۔
دارالخلافہ میں چونکہ جرائم کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہاہے اس لیے دہلی کانگریس پارٹی کے کارکنان نے امن و امان کی بحالی کے لیے احتجاجی دھرنا دینے کا ارادہ ظاہر کیا ۔ ایک طرف جرائم کا سنگین مسئلہ دن بہ دن عفریت کی شکل اختیار کررہا ہے دوسری جانب سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے پر الزام تراشی سے فرصت نہیں ہے ۔ وہ سر جوڑ کر بیٹھنے اور اسے حل کرنے کے لیے ایک دوسرے کا تعاون کرنے پر رضامند نہیں ہیں ۔ شمالی ہند کے بارے میں یہ عام رائے ہے کہ وہاں سفاکی زیادہ ہے لیکن اسی ہفتہ بنگلورو کے ایک واقعہ دل دہلا دیا۔ اس میں ایک 39 سالہ خاتون نے گھریلو جھگڑے کے دوران مشتعل ہوکر اپنی ماں کو قتل کردیا۔ اس کی ڈھٹائی کا یہ عالم تھا کہ وہ ماں کی لاش کو سوٹ کیس میں لے کر تھانے پہنچ گئی یعنی اس کے دل میں قانون یا سزا کا کوئی خوف ہی نہیں تھا۔ خبروں کے مطابق انتالیس سالہ سینالی سین عرف چندرما فزیو تھراپسٹ ہے ۔اس نے پولیس کے سامنے اعتراف کیا کہ اپنی ماں منیما کے ساتھ روز روز کے جھگڑے اور تلخ کلامی سے تنگ کر اس نے یہ قتل کیا۔ چندرما کو شکایت تھی کہ اس کی ماں اسے اپنی من مانی زندگی گزارنے سے روک رہی ہے اس لیے ان میں اکثر لڑائی ہوتی رہتی تھی ۔
چندرما شادی شدہ ہے ۔ اس واردات کے وقت اس کا شوہر گھر پر موجود نہیں تھا لیکن ساس موجود تھی مگر اس کو پتہ ہی نہیں چل سکا۔ اس سنگدل عورت نے لاش کے ساتھ سوٹ کیس میں مقتولہ کے شوہر یعنی اپنے باپ کی تصویر بھی رکھ لی تھی ۔ اس نے پولیس کی تفتیش کے بغیر ہی ساری داستان سنا تے ہوئے کہا کہ وہ بھاگنا نہیں چاہتی اس لیے لاش کو لے کر پولیس تھانے آئی ہے ۔ یہ ہمارے سماج کا ایک ناقابلِ یقین واقعہ ہے جو عوام میں بڑھنے والی عدم برداشت کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ اس میں انسان پندرہزار روپیہ قرض واپس مانگنے والے کی دوبہنوں کو بے دریغ قتل کرسکتا ہے ۔ ایک بیٹی اپنی 75؍ سالہ ماں کو قتل کرکے اس کی لاش کے ساتھ تھانے جاسکتی ہے ۔ شریعتِ الٰہی سے بے بہرہ اور آخرت کی جوابدہی کے عقیدے سے بے نیاز اس مادر پدر آزاد سماج پر بروقت لگام نہیں لگائی گئی تو یہ معاشرہ انسانیت کے نام پر کلنک بن جائے گا ۔ اصلاحِ معاشرہ کا یہ کام آسان نہیں ہے اور اس کے لیے دعوت ِ دین شرطِ اول ہے ۔ مولانا الطاف حسین حالی نے اس دقت طلب ہدف کو اس طرح بیان کیا ہے کہ
فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ


متعلقہ خبریں


مضامین
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام وجود جمعه 01 نومبر 2024
اقوام متحدہ فلسطین و کشمیر کے مسئلہ میں ناکام

آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟ وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
آپ سے بڑھ کر کون جانتا ہوگا؟

ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
ایرانی میزائل پروگرام: تاریخ، ترقی اور موجودہ چیلنجز

مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں وجود جمعرات 31 اکتوبر 2024
مودی حکومت کی تخریب کاری کی عالمی کارروائیاں

یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی! وجود بدھ 30 اکتوبر 2024
یہ جنگ اسرائیل کو مہنگی پڑے گی!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر