... loading ...
حمیداللہ بھٹی
چین کی معاشی و تجارتی ترقی سے امریکہ سخت حیران اور پریشان تو تھاہی، اب دفاعی میدان میں پیشقدمی اور عالمی مسائل کے حل میں کردارادا کرنے کے عمل نے پریشانی دوچندکردی ہے ۔مزیدحیران کُن عمل یہ کہ مشرقِ وسطیٰ سے لیکر افریقہ و ایشیا تک چین کی مصالحتی کوششیں کامیابیوں سے ہمکنار جبکہ امریکہ کا عالمی کردار محدودہونے لگا ہے ۔زوال پذیر امریکی معیشت صدرجوبائیڈن کے لیے پریشان کُن اور چین کا بڑھتا عالمی کردارالگ تشویشنا ک ہے۔ جبکہ چین کو محدود کرنے کی امریکی کوششیں بھی مسلسل ناکامی سے دوچار ہیں۔ چین کے خلاف امریکی انتظامیہ نے اب مکمل طور پر بھارت پر تکیہ کر تے ہوئے اہم کردار کے لیے نریندرمودی کو انتخاب کرلیاہے۔ اِس کا اظہارمودی کے تین روزے امریکی دورے سے ہواہے کہ ایسے مذہبی جنونی کا مسیحا کی طرح استقبال کیا جارہا ہے۔ حالانکہ اس کے اقتدار میں آنے سے بھارت میں انسانی حقوق کی صورتحال سنگین ہوئی اور اقلیتوں کے خلاف بڑھتا تشدد،سول سوسائٹی میں بھی مذہبی تفریق پیداکرنے اوراختلافِ رائے کو دبانے جیسے اقدامات عروج پر ہیں۔ایسی ریاستیں جہاں بی جے پی یا اُس کی اتحادی جماعتوں کی حکومتیں ہیں ،میں نہ صرف بین المذاہب تعلقات جرم اور مسلمانوں ،عیسائیوں اور جین مت کے ماننے والوں کی املاک تباہ کی جارہی ہیں لیکن جو بائیڈن نے مہمان سے اقلیتوں کے خلاف اشتعال انگیزی روکنے کا مطالبہ کرنے کی بجائے ابھی تک اپنی زبان بندکررکھی ہے اور مذہبی گروہوں کیخلااف جرائم کی تحقیقات اور قانونی کارروائی کو یقینی بنانے سے پہلو تہی برقرار ہے۔ حقائق جانتے ہوئے بھی نوازشات جاری ہیں ۔پریس کانفرنس میں انسانی حقوق کے متعلق نریندر مودی کوسولات سے ہونے والی ہزیمت کے باوجود امریکی رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔حالانکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل ،ہیومن رائٹس واچ جیسی تنظیمیں بھارت میں روا رکھے ظلم و ستم کی طرف توجہ مبذول کرانے میں مصروف ہیں ۔
ایسے حالات میں جب امریکہ کو دیوالیہ ہونے کے خدشات ہیں عالمی امور پر نظر رکھنے والے ماہرین چین سے تنائو کوغیر ضروری اور احمقانہ قرار دیتے ہیں۔ امریکی انتظامیہ کے عہدیداراگر ایک چین پالیسی کی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں تو امریکی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان سے تردیدہوجاتی ہے جس سے چینی شکوک و شبہات کم نہیں ہورہے اوراب ایسے واضح اشارے نظر آنے لگے ہیں کہ امریکہ پر اعتماد کرنے کی بجائے چین خم ٹھونک کر مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ سعودی و ایران مصالحت کے علاوہ افریقہ اوروسطی ایشیائی ممالک کے تنازعات کو امریکہ سے بالا بالا حل کرنے کی کامیاب کاوشوں کے بعد روس ویوکرین میں بھی مصالحت کرانے کی بات کرنے لگا ہے۔ مصالحت کرانے میں ملنے والی حیران کن کامیابیاں اُس کے عالمی کردار میں نہ صرف اضافے کا باعث ہیںبلکہ صلے میں تجارتی و معاشی فوائد الگ مل رہے ہیں۔ و ہ آج افریقہ ،سے لیکر مشرقِ وسطیٰ اور ایشیائی ممالک کا سب سے بڑاتجارتی شراکت دار ہے لیکن جس بھارت کی جنونی حکومت پرامریکہ کا تکیہ ہے وہ چین کوروکنے کی کوششوں کا حصہ بننے کی بجائے امریکہ سے جدیدمیزائل و جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور اُس کی دفاعی تحقیقات سے فائدہ اُٹھانے کے چکر میں ہے جو امریکہ سے ہاتھ کے مترادف ہے لیکن سب کچھ دیکھنے اور محسوس کرنے کے باوجود بے چارگی میں نواشات جاری رکھنا امریکی کمزوری کا عکاسی ہیں۔
کمپیوٹر اور آٹو انڈسٹری میں بھارتی ترقی حیران کُن ضرورہے اور اُس کی معاشی گروتھ بھی بہتر ہے نیز مالی ذخائر بھی معیشت مستحکم ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں لیکن کیا چین کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے ؟ میرے خیال میں موجودہ حالات میں ایسا سوچنا ہی غلط ہے مقابلہ کرنا ہے تو پالیسی بدلنا اور کچھ خاص کرنا ہو گا۔ خاص طور پر دفاعی میدان میں صلاحیت بہتر بنانا ہوگی کیونکہ اِس شعبے میں کمزوری عیاں حقیقت ہے۔ دلیل یہ ہے کہ چین کے ساتھ جب بھی جھڑپ ہوتی ہے۔ بھارتی فوجیں مارکھاکر واپس آجاتی ہیں۔ اِس کے باوجود بھارت کسی قسم کی بہتری لانے سے قاصر ہے۔ البتہ چین کی بجائے اُس کی نظر ہمسایہ ممالک پرہے جن کے خلاف دہشت گردی کا ہتھیار استعمال کررہاہے۔ پاکستان خاص طورپر نشانہ ہے۔ نئی پارلیمانی عمارت میں آویزاں نقشے میں پاکستان ،بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ممالک کو شامل کیا ہے جس سے بھارت کے بارے ہمسایہ ممالک کی بدگمانیوں میں اضافہ ہونایقینی ہے جس سے چین کا مقابلہ کرناتودرکنار بھارت کو لاحق خطرات میں اضافہ ہوجائے گا۔ امریکی نوازشات کی بناپر عین ممکن ہے بھارت سے جنوبی ایشیائی ممالک میں پنپتی نفرت میں سے امریکا کو بھی کچھ حد تک حصہ مل جائے ،حال ہی میںکیلی فورنیا میں ایک تقریب کے دوران صدر جوبائیڈن نے رواں برس فروری میں چین کے جاسوس غباروں کو مارگرانے جیسے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے چینی صدر ژی جن پنگ کو آمر کہہ کر جو تضحیک کی ہے، یہ طرزِ عمل بھی امریکہ و چین میں تلخیاں بڑھانے کا باعث ہوگا۔ مگر بھارت کواپنی ضروریات سے غرض ہے اُسے چین سے کوئی سروکارہونہیں اُس کی تمام تر دلچسپی امریکی ٹیکنالوجی میں ہے وہ روس ویوکرین جنگ کے متعلق یواین اومیں پیش ہونے والی قرار داد کی حمایت و مخالفت کی بجائے روس کی ناراضگی سے بچنے کے لیے خود کو الگ رکھتا ہے لیکن کیا یہ چالبازی امریکیوں سے پوشیدہ ہے شاید نہیں بلکہ وہ اپنی مجبوریوں کی بناپر خاموش اور نوازشات جاری رکھنے پر مجبورہے۔
معاشی کے ساتھ دفاعی میدان میں ترقی کے بغیر علاقائی بالادستی ممکن نہیں بھارت اِس حوالے سے انتہائی کمزور پوزیشن پر ہے انڈوپیسفک میں چینی اجارہ داری روکنے کے لیے نئے پانچ رُکنی اتحاد جاپان ،تائیوان اور فلپائن میں امریکہ نے بھارت کوبھی شامل رکھا ہے مودی کے اکیس جون سے شروع ہونے والے تین روزہ سرکاری دورے سے قبل ہی دونوں ممالک میںکئی دفاعی معاہدوں کو حتمی شکل دی جا چکی۔ امریکہ نے کہا ہے کہ وہ بھارت کی دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے تمام وسائل فراہم کرے گا۔ اِس کے لیے جمعرات کو مودی بائیڈن ملاقات کے ایجنڈے میں وہ تمام نکات شامل کیے گئے جن کی بھارت کو عرصہ دراز سے آرزو ہے اِس ملاقات کو امریکی جرائد و نشریاتی اِدارے غیر معمولی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ نے اصولی فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ بھارت کو جوہری اور دفاعی ٹیکنالوجی فراہم کرے گی مگر اِس طرح بھارت کو اتناطاقتور کیا جا سکتا ہے کہ وہ چین سے ٹکرانے کی ہمت کر لے ؟ میرے خیال میں ایسے قیاسات حقیقت کے دورہیں۔ البتہ خطے کا امن خراب ہونا یقینی ہے کیونکہ امریکی کوششوں کے باوجود بھارتی افواج اب بھی چین سے خوفزدہ ہیں۔ بھارت کی دفاعی صنعت کا یہ حال ہے کہ میزائل خود بخود فائر ہوجاتا ہے جسے تکنیکی خرابی قرار دیکر پردہ پوشی کرنے کی کوشش میںہے۔
بھارت کا تیجانامی جنگی طیارہ پائیداری اور بھروسے کے حوالے سے عالمی توجہ حاصل کرنے میں ابھی تک ناکام ہے مصر کے بعد ملائشیابھی یہ طیارہ خریدنے سے انکار ی ہوگیا ہے جو بھارت کی دفاعی صنعت کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں دراصل عالمی مارکیٹ میں تیجا طیاروں سے عدم دلچسپی اور ناکامی کی بڑی وجہ پروجیکٹ میں تاخیر کے ساتھ غیر معیاری کارکردگی ہے۔ اِس حوالے سے یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ2016 سے فروخت کے لیے پیش کیے جانے والے اِس طیارے کو ابھی تک بھارتی فضائی بیڑے کا حصہ نہیں بنایا جاسکا شاید اسی بناپر ملائیشیا نے ناقابلِ عمل آپشن قرار دیتے ہوئے تیجا کی پائیداری اور قابلِ بھروسہ دستیابی پر اعتراض اُٹھایا ہے۔ دفاعی ماہرین میزائل اور تیجا نامی طیاے کی بین الا قوامی منڈیوں میں فروخت پر ناکامی کو بھارت کی دفاعی پیدوار ی صنعت پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں لیکن کیا امریکہ اپنی نوازشات کے ساتھ حقائق تسلیم کرے گا؟ اِس کا وثوق سے ہاں میںجواب دینامشکل ہے لیکن اِتنا یقینی طورپرکہا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی بھارت پر سرمایہ کاری ضائع اور بے نتیجہ ثابت ہو گی۔
٭٭٭