... loading ...
ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرعمر خالدکو ستمبر2020 کے اندر شمالمشرقی دہلی میں ہونے والے فسادات سے جوڑ کر جیل بھیج دیا گیا۔ یہ ہندوستان کی تاریخ کا نہایت دلچسپ مقدمہ ہے ۔ اس میں سب سے پہلے دہلی پولیس نے جنوری 2020 میں امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی آمد کے موقع پر احتجاج اور دنگا فساد کرنے کا الزام لگایا مگر جب پولیس کی توجہ اس حقیقت کی جانب مبذول کرائی گئی کہ اس وقت تک تو صدر امریکہ کے دورے کا اعلان تک نہیں ہوا تھا اس لیے انہیں علم کیسے ہوگیا؟ تو انتظامیہ کے ہاتھ پاوں پھول گئے ۔پولیس نے کہا کہ اس سے تاریخ کے تعین میں غلطی ہوگئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسی وقت یہ مقدمہ خارج کرکے عمر خالد کو بری کردیا جاتا اور پولیس کو جھوٹا الزام لگانے کی سزا دی جاتی لیکن جج صاحب نے الٹا کیا۔ انہوں نے پولیس کو چھوڑ کرعمر خالد جیل بھیج دیا۔ اس کے بعد عمر خالد کی امراوتی میں کی جانے والی تقریر کو سیاق و سباق سے کاٹ کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس پر عمر خالد کے وکیل نے پوری تقریر سنادی تو جج صاحب کے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے لیکن دل نہیں پسیجا۔ انہوں نے کہا عمر خالد کا طرز تخاطب مناسب نہیں ہے ۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ‘گولی مارو سالوں کو’ کا نعرہ لگانے والے مرکزی وزیر ہیں کسی فرد کے اندازِ خطاب پر سزا دینا کیا مبنی بر انصاف ہے ؟
ڈاکٹر عمر خالد کے خلاف دو فردِ جرم دائر کی گئی۔ ایک میں یو اے پی اے شامل تھی جبکہ دوسرے میں صرف آئی پی سی کی مختلف دفعات پر اکتفاء کیا گیا تھا۔ مؤخر الذکرمیں تو عمر خالد کو ضمانت مل گئی مگر کئی ماہ کی سماعت کے بعدیو اے پی اے معاملے میں نچلی عدالت نے یہ فرمایا کہ بادی النظر میں مقدمہ بنتا ہے ۔ یہ ایک نہایت مبہم جملہ ہے مگر اس کے سبب ایک بے قصور جیل کی صعوبتیں برداشت کرتا رہا۔ اس کے بعد عدالت عالیہ میں بھی پولیس نے مختلف بہانوں سے ٹال مٹول کیا اور بالآخر وہی ایک جملہ والا فیصلہ سنا دیا گیا۔ اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں آچکا ہے ۔ توقع ہے کہ آئندہ ماہ کے وسط میں عمر خالد کو رہائی نصیب ہوجائے گی ۔ عمر خالد اور کنہیا کمار وغیر ہ پہلی بار ‘لے کے رہیں گے آزادی ‘ کا نعرہ سے منظرِ عام پر آئے ۔ کشمیر میں ہونے والے مظالم کے خلاف ہونے والے احتجاج کی ویڈیو میں اسمرتی ایرانی کے ایماء پر بی جے پی آئی ٹی سیل نے غیر متعلق آوازیں ڈالنے کی خیانت بلکہ سازش کی ۔ زرخرید میڈیا نے اس کی مدد سے ایسا اشتعال دلایا کہ کنہیا کمار کو عدالت کے احاطے میں مارا پیٹا گیا۔ اس 2016 کے معاملے کی بنیاد ہی چونکہ جھوٹ پر تھی اس لیے وقت کے ساتھ وہ ٹائیں ٹائیں فش ہوگیا۔ موجودہ نظام عدالت میں جھوٹ بولنے والے سرکاری آلۂ کار سزا دینے کی ہمت نہیں ہے ۔
سی اے اے اور این آر سی کے خلاف جب ایک زبردست تحریک چلی تو اس کے روشن چہرے عمر خالد ، شرجیل امام، صفورہ زرگر اور ان کے ساتھی تھے ۔ ان لوگوں کے حوصلے پست کرنے کی خاطر انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیا گیا ۔ اس سازش کا راز ابھی حال میں دہلی کی ایک عدالت میں کھل کر سامنے آگیا۔ 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات سے متعلق ایک معاملے میں شکایت دہندہ کے ذریعہ ملزم کی شناخت کرنے کا جھوٹا دعویٰ کرنے کے سبب عدالت نے دہلی پولیس کی سخت سرزنش کرنے کے بعد ملزم نور محمد کو فساد اور غیر قانونی اجتماع سے متعلق جرائم سے بری کردیا۔ عدالت نے ایک پولیس گواہ کے اعتبار پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ”اس کا بیان جھوٹا اور دیر سے لیا گیا ہوالگتا ہے ۔”کڑکڑڈوما کورٹ کے چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ شریس اگروال نے کہا کہ ”بات یہ ہے کہ پولیس نے شکایت دہندہ کو ایک گواہ کی شکل میں غلط طریقے سے پیش کیا ہے ، جو ظاہر کرتا ہے کہ فریق استغاثہ کا یہ کہنا کہ نور محمد نے جرم کیا تھا، جھوٹ ہے ۔” جسٹس نے ایک ہیڈ کانسٹیبل کے ذریعہ نور محمد کی شناخت سے متعلق بھی اندیشہ ظاہر کیا اور کہا کہ ہیڈ کانسٹیبل کا یہ دعویٰ بھی درست نہیں لگتا کہ وہ فساد کا چشم دید تھا۔
مجسٹریٹ شریس اگروال نے یہاں تک کہا کہ ”جب فساد اور لوٹ پاٹ ہو رہا تھا تو پولیس افسر کو بھیڑ کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی، جبکہ وہ خاموش تماشائی کی شکل میں وہاں کھڑا تھا۔ اس پر گواہ کے ذریعہ کوئی وضاحت نہیں دی گئی ہے ۔ پولیس افسر کھڑے ہو کر صرف دیکھ رہے تھے اور حادثہ ہو جانے کا انتظار کر رہے تھے ۔ اس نے جرم کیے جانے کی ویڈیو بنانا بھی مناسب نہیں سمجھا۔”فریق استغاثہ کے دوسرے گواہ ایک ہیڈ کانسٹیبل نے قبول کیا کہ اس نے جرم کی رپورٹ نہیں اور جرائم پیشوں کی شناخت نہیں کی۔ تضادات کے سبب عدالت نے ہیڈ کانسٹیبل کی گواہی کو ناقابل اعتبار مانا۔ جج کو یہ یقین کرنا مشکل محسوس ہوا کہ ایک پولیس افسر کی شکل میں ہیڈ کانسٹیبل نے جرم کی رپورٹ نہیں کی یا جرائم پیشوں کو گرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ عدالت نے کہا کہ ”یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ جس پولیس افسر نے اپنے پوسٹنگ والے علاقہ میں جرم ہوتے دیکھا، اس نے اس سلسلے میں کوئی شکایت نہیں کی۔ انھوں نے ایف آئی آر درج کرنے کے لیے کبھی بھی اپنے پولیس اسٹیشن کو معاملے کی اطلاع نہیں دی۔ انھوں نے فوری پولیس مدد لینے کے لیے 100 نمبر پر فون نہیں کیا۔ انھوں نے کسی بھی مجرم کو گرفتار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔”عدالت نے کہا کہ نور محمد کو صرف شبہات کی بنیاد پر قصوروار نہیں ٹھہرایا جا سکتا کیونکہ سزا کے لیے ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس طرح کے بے بنیاد مقدمہ میں ڈاکٹر عمر خالد کی حراست کے ایک ہزار دن پورے ہوئے تو متعدد طلبائ، شہری حقوق کے کارکنوں اور میڈیاسے وابستہ افراد نے ان کی حمایت میں اظہاریکجہتی کیا۔ یہ اجلاس جمعہ 9 جون 2023کو دہلی کے پریس کلب میں منعقد کیا گیا ۔ اس اجتماع کا مرکزی موضوع ‘جمہوریت، اختلاف رائے اور سینسرشپ’تھا۔ وہاں موجود مقررین نے عمر خالد کے طویل قیدو بند کو ‘ مزاحمت کے 1000 دن’ سے تعبیر کیا ۔مذکورہ پروگرام میں آر جے ڈی کے رہنما اور ایوانِ بالا کے رکن منوج جھا نے اس موقع پر شدید گرمی کے باوجود سینکڑوں نوجوانوں کے جمع ہونے پر خوشی کا اظہار کیا ۔انہوں نے کہا، یہ اظہاریکجہتی صرف عمر کے لیے نہیں ہے ، بلکہ ہر سیاسی قیدی کے لیے ہے ۔ یہ شعور کی جنگ ہے ۔ غالب شعور آج مرکزی دھارے میں ہے ، جبکہ حاشیے پر پڑے طبقات کو نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ جھا نے بغاوت کے فرسودہ قانون پر بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔انہوں نے کہا، لاء کمیشن اب بغاوت کے قانون کوسخت کرکے سزا بڑھانے کی سفارش کر رہا ہے ۔ اس کا مطلب ہے کہ جن لوگوں کو سی بی آئی اور ای ڈی نشانہ نہیں بنا سکتے ان کے اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کیا جائے ۔
اس تقریب میں جے این یو کے پروفیسر ایمریٹس پربھات پٹنایک نے کہا کہ خالد کی مسلسل حراست صرف ایک ذاتی المیہ نہیں بلکہ ایک صلاحیت کا ‘سماجی نقصان’ ہے ۔انہوں نے کہاانگریزوں کے نوآبادیاتی دور میں کوئی بھی دو سال سے زیادہ جیل میں نہیں رہا۔ ایک بار پنڈت نہرو کوسب سے طویل عرصے تک 1041 دن مسلسل جیل میں رہنا پڑا جبکہ عمر اب تک حراست میں ایک ہزار دن جیل میں گزار چکا ہے ۔پروفیسر پربھات نے ایک سال بعد ازخود ضمانت دینے کا قانون بنانے کی سفارش کی تاکہ بغیر مقدمہ قائم کیے کسی بے قصور کو لا متناہی پابند سلاسل نہیں کیا جاسکے ۔ عمر خالد کی حمایت میں منعقد ہونے والی تقریب میں معروف صحافی رویش کمار نے بھی شرکت کرکے کہا کہ خالد جیسے لوگوں کے لیے انصاف کا راستہ بہت لمبا ہے ۔انہوں نے خالد کی قید کے 1000 دن کو ہندوستانی عدالتی نظام کی شرمندگی کے 1000 دن قرار دیا۔
اس موقع پر سب سے اہم خطاب خالد کے والدڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس صاحب کا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جیل کی چہاردیواری بھی ان کے بیٹے کی ہمت کو پست نہیں کر سکی اور نہ ان اس کے دوستوں کا جوش و جذبہ کم ہوا۔ اپنے اس دعویٰ کی دلیل کے طور ایس کیو آر الیاس نے کہا کہ جب میں ان تمام لوگوں کو عدالتی سماعت کے دوران دیکھتا ہوں تو مجھے ان کے چہروں پر ایک خود اعتمادی نظر آتی ہے ۔وہ جانتے ہیں کہ کس اعلیٰ و ارفع مقصد کی خاطر خالد جیل میں ہیں۔انہوں نے فخر سے کہا کہ ان کا بیٹا ملک اور اظہار رائے کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ڈاکٹر الیاس نے اپنے بیٹے کے ساتھ شرجیل امام، خالد سیفی، شفا الرحمان اور دیگر تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ سپریم کورٹ کی سینئر وکیل شاہ رخ عالم نے گاندھی پیس فاونڈیشن کی بلا جواز اجازت مسترد کرنے پر احتجاج درج کیا ۔ اس طرح یہ احتجاجی جلسہ ملک میں حریت پسندوں کے لیے ایک مہمیز بن گیا۔ ملک و ملت کے عمر خالد جیسے جیالے سپوتوں پر یہ شعر صادق آتا ہے
وہ ہندی نوجواں یعنی علمبردار آزادی
وطن کی پاسباں وہ تیغ جوہر دار آزادی
٭٭٭