... loading ...
حمیداللہ بھٹی
لیبیا سے اٹلی جاتے ہوئے یونان کے قریب سمند رمیں کشتی ڈوبنے سے سینکڑوں بدقسمت پاکستانی آنکھوں میں چُھپائے سہانے خوابوں سمیت غرق آب ہو گئے جس پر ہر آنکھ اشکبار اوردردمنددل سوگوار ہے مگرحکومتی سطح پر اِس واقعے کے گہرائی تک جا کر اسباب جاننے کی کوئی کوشش دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی بلکہ روزمرہ کی خبر وں پر دیے جانے والے جیسا ردِ عمل سامنے آیا ہے یونان نے تین روزہ سوگ کا اعلان کیاتو مجبوراََ پاکستان نے بھی ایک روزہ سوگ کا اعلان کردیا۔ اِس رویے کو سفاکی و سنگدلی کے زمرے میں شمار کرسکتے ہیں ۔ شاید ایسی خبریں معمول ہونے کی بناپر خواص میں بے وقعت ہوچکی ہیں۔ لیبیا،ترکی جیسے ممالک کے راستے اٹلی ،اسپین ،یونان و دیگر ممالک کی طرف پاکستانی دیوانہ واربھاگ رہے ہیں ۔اِس دوران کسی قسم کے رِسک سے دریغ نہیں کیا جاتا وجہ ملک میں روزگارکے مواقع کم ہونا نیز ملکی مستقبل کے حوالے سے پھیلنے والی مایوسی ہے۔ اب تو انسانی مہاجرت میں اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ ہر دوسراپاکستانی بیرونِ ملک جانے کی تگ و دومیں ہے اور قانونی یا غیر قانونی کے چکر میں پڑے بغیر ملک سے بس نکلنا چاہتاہے ۔یہ جنون سرکاری ملازمین تک وسعت اختیارکر چکا ہے۔ ایک افراتفری کا عالم ہے ۔یہ بڑھتی مہاجرت اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقے میں بھی ہے۔ میٹرک یا او لیول تو ایک طرف ایم اے اور پی ایچ ڈی جیسی ڈگریاں رکھنے والے بھی ملک سے نکلنے کی فکرمیں ہیں۔ ستم ظریفی یہ کہ اِس کے لیے قرضہ لینے ،زمین و جائیداد بیچنے تک پر آمادہ ہیں۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران ہر ماہ سات لاکھ کے لگ بھگ پاسپورٹ کے حصول کے لیے درخواستیں موصول ہونا ملکی تاریخ کاایسا ریکارڈ ہے جو بڑھتی مہاجرت کی تصدیق ہے۔ ملک نے 75برس میں یہ ترقی کی ہے کہ 1947میں اچھے مستقبل کے لیے بے شمار لوگ پاکستان آتے ہوئے راستے میں مارے گئے اور آج 2023میں اچھے مستقبل کے لیے پاکستان سے جاتے ہوئے مارے جارہے ہیں۔ لوگ بس ملک چھوڑناچاہتے ہیں ۔چاہے اِس دوران جان ہی کیوں نہ چلی جائے کسی کو پرواہ نہیں۔
دنیا کا ساتواں اور پہلا اسلامی ملک پاکستان ہے جو جوہری طاقت بھی ہے ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے اِس جوہری طاقت کی معاشی گروتھ منفی ہوچکی ہے۔ درآمدات اوربرآمدات کے حجم میں اِ تنا فرق ہے کہ آمدن سے قرض کی اقساط اور سودکی ادائیگی کی سکت بھی نہیں رہی بلکہ دیوالیہ ہونے کے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ ایسے خطرات نے ہی نوجوانوں کی مایوسی میں اضافہ کیا ہے ۔اچھے بھلے روزگار چھوڑ کر تعلیم یافتہ اورہُنرمند بھی بیرون ملک جانے کی کوشش میں ہیں ۔ِ آج یونان کے ساحل پر پڑی سینکڑوں پاکستانیوں کی لاشیں ہمارے ملک میں حکمران طبقہ کی ظاہری عوام دوستی،پست معیارِ انصاف ،میرٹ کی عدم پاسداری،وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور صلاحیتوں کی ناقدری کا ایسا اشتہارہے جس نے ملک میں رائج وڈیرہ شاہی ،اشرافیہ کی بے ضمیری اور بوسیدہ نظام کو بے نقاب کردیاہے۔ پاکستان مہنگائی کے حوالے سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہے۔ اِس مہنگائی کا بھی انسانی مہاجرت میں بڑاعمل دخل ہے۔ کم تنخواہ میں گزارانہ کر پانے والے بیرونِ ملک جاکر خاندان کو خوشیاں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر ابھی تک حکمرانوں کی ترجیحات میں مہنگائی جیسامسئلہ جگہ نہیں بنا سکا۔ البتہ مختلف قانون ساز اِداروں میں اعلیٰ منصب پر فائز عہدیداروں کی تنخواہ و دیگر مراعات میں اضافہ کرنے پرکام جاری ہے ۔
پاکستان مالی حوالے سے روبہ زوال ہے جس کی وجہ سرمائے کی بیرونِ ملک منتقلی ہے ماضی قریب میں ترسیلاتِ زرکسی حدتک معاشی استحکام کا ذریعہ تھیں لیکن اب یہ زریعہ بھی کمزور ہوتا جارہا ہے جس پر فوری توجہ دے کر اعتماد بحال کرنے کی بجائے خواجہ آصف جیسے اہم عہدیدار تارکینِ وطن پر تنقید کے نشتر چلا کر خوشی وراحت محسوس کرتے ہیں بڑھتی انسانی مہاجرت کو روکنا ہے تو حکومت کوایسا ٹھوس لائحہ عمل بنانا ہوگا جس سے تارکینِ وطن کا نہ صرف ملک پر اعتماد بحال ہو بلکہ نوجوانوں کو مایوسی کی دلدل سے نکالا جاسکے لیکن حکومتی پالیسیوں سے ابھی تک ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ ایسے کسی نتیجہ خیز اقدام کے لیے پُر عزم ہیں بلکہ حکمرانوں سمیت کچھ میڈیا ہائوسز کی کوشش ہے کہ نو مئی کے واقعات کونو گیارہ جیسا سانحہ قرار دیکر نہ صرف اصل مسائل سے عوامی توجہ ہٹائی جائے وزرا ،مشیر اور ذرائع ابلاغ کا مخصوص حصہ دن رات ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ معیشت،بے روزگاری،مہنگائی اور بڑھتی مہاجرت جیسے تمام مسائل سے اہم نو مئی کے واقعات کا ذمہ دارقراردیکراپوزیشن کوکچلنا ہے ۔ہر اِدارہ تمام مصروفیات چھوڑکر ایسے لوگوں کی تلاش میں ہے جو ابھی تک پی ٹی آئی سے وابستہ اور پریس کانفرنس کے ذریعے جماعت سے ناطہ توڑنے سے انکاری ہیں ۔ایسا طرزِ عمل ہی حقیقی انصاف کی بجائے ایسے قیاسات کو قوی تر کررہا ہے کہ ملک میں انصاف کو دہرامعیارہے ۔ضرورت اِس امر کی ہے کہ حکومت قانونی ذریعہ کے مطابق بیرون ملک بجھوانے اور پولیس جیسے قانون نافذ کرنے والے اِدارے بڑھتی انسانی مہاجرت پر قابو پانے میں کردار ادا کریں۔ ایف آئی اے اگر سیاستدانوں کو دبو چنے کی بجائے انسانی اسمگلنگ ختم کرنے پر دھیان دے تو نہ صرف سرمائے کی منتقلی بلکہ انسانی اسمگلنگ کے سلسلے پر قابوپایا جا سکتاہے۔
غیر قانونی تارکینِ وطن کا کوئی باقاعدہ ریکارڈ توہوتانہیں اسی لیے حادثے سے دوچار ہونے کی صورت میں نہ صرف درست اعداد و شمار مرتب کرنے میں مشکل پیش آتی ہے بلکہ گرفتاری یا ڈی پورٹ ہونے پر ہی معلوم ہوتاہے کہ کہاں کون سا پاکستانی کیسی مشکلات سے دوچار ہے۔ یونانی ساحل کے قریب ڈوبنے والی کشتی میں لاکھوں روپے دیکر جلد منزل پانے کی جستجو میںگنجائش سے زیادہ لوگ سوارہوگئے۔ حالانکہ پرانی کشتی اِتنا وزن اُٹھانے کے قابل ہی نہیں تھی۔ تادم تحریر بچنے والے خوش نصیبوں میں بارہ پاکستانی بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ ڈوبے نہیں بلکہ ڈبویا گیا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ اب جب دنیا سوگواری ظاہرکررہی ہے ۔یہ کشتی سات گھنٹے تک سمندر میں بے یارومددگار کھڑی رہی لیکن مہذب ہونے کے دعویدار کسی ملک کو مدد کی توفیق کیوں نہ ہوئی؟ خودیونانی کوسٹ گارڈزگھنٹوں تماشا دیکھتے رہے خیر پاکستانیوں سے تو غیر انسانی سلوک دنیا میںمعمول ہے وہ ائیرپورٹس پر الگ جانچ پڑتال سے گزرتے ہیں۔ کشتی میں بھی انھیںسب سے نچلے حصے میں سوار کرایا گیا وہ یہاں بھی احتجاج یا آہ و بکاکرنے پر تشدد اور بدسلوکی کا نشانہ بنتے رہے ڈوبنے سے کئی دن قبل ہی کشتی میں پانی اور خوارک کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا جس کی وجہ سے ڈوبنے سے قبل ہی سات افراد بھوک و پیاس کا شکار ہو کر لقمہ اجل بن گئے۔
گجرات ،منڈی بہائوالدین ،سیالکوٹ اور آزادکشمیر کے کئی دیہات میں صفِ ماتم بچھی ہے کسی کا سہاگ اُجڑگیا ہے تو کسی کا بھائی اور کسی کا بیٹا بچھڑ گیا ہے ۔کسی کا باپ اپنے بچوں کویتیم کر گیا ہے ۔درجنوں دیہات میں کہرام برپاہے لیکن حکومتی صفوں میں سکون سا ہے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ حکومتی عہدیدار بڑھ چڑھ کر اپوزیشن کے خلاف بیان بازی میں مصروف ہیں۔ حالانکہ ذمہ داران اگر فرائض کی بجا آوری کرتے تو آج ممکن ہے سینکڑوں پاکستانی یونانی ساحل پر یوں بے موت نہ مرتے اور بے گوروکفن نہ ہوتے ۔حالیہ کشتی حادثے میں مرنے والوں کی تعداد کیونکہ معمول سے بہت زیادہ ہے ۔اسی لیے حکمرانوں کو خیال آگیا ہے کہ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایک روزہ سوگ ہونا چاہیے ۔کچھ ایجنٹ مافیا کی پکڑ دھکڑ بھی شروع ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بڑھتی مہاجرت سے ہمارے اِدارے لا علم ہیں ؟ کیا یہ درست نہیں کہ کئی دہائیوں سے حصہ لیکر سہولت کاری کی جارہی ہے؟سمندر کی بے رحم لہروں ،ساحلی محافظوں کی گولیوں کا نشانہ بن کریورپ جاتے مرنے کے واقعات میں گزشتہ چند عشروں سے غیر معمولی اضافہ کیا تمام اِداروں سے پوشیدہ ہے ؟ سوال یہ ہے کہ وقتی طور پر تحقیقات،ذمہ داران کے تعین اور پھر قرارِ واقعی سزا دینے کا دعویٰ اورشروع عمل کبھی مکمل ہو گا یا نہیں ؟معاملے کی سنگینی کے مطابق انسانی مہاجرت کے دھندے میں ملوث اصل کرداروں کی کیا کبھی بیخ کنی ہوگی ؟ممکن ہے اِن سوالات کے کبھی جواب نہ ملیں اور دیگر المناک واقعات کی طرح سمندری سانحہ بھی ملکی تاریخ میں ایک سوالیہ نشان ہی رہے۔
٭٭٭