... loading ...
رفیق پٹیل
۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کی سیاست میں تحریک انصاف کی انتخابی صلاحیت کے جبری خاتمے کے بعد اب میدان پیپلز پارٹی کے ہاتھ میں آنے والا ہے۔ آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی ایک سو تیس سے ایک سو چالیس نشستیںحاصل کرنے کے لیے زور لگائے گی اور اپنی انتخابی مہم کو اسی پر مرکوز کرے گی ۔اس وقت تک پی ٹی آئی کے چیئرمین نااہل ہو چکے ہونگے اور قید میں ہونگے اور شاید بقول وزیر دفاع خواجہ آصف ان کا انجام وہی ہے جو ایک ناکام بغاوت کرنے والے کا ہوتا ہے یعنی انہیں سزائے موت بھی دی جاسکتی ہے ۔جس کے لیے ملک کی تمام بڑی جماعتیں رضامند ہونگیں۔ کیونکہ قومی اسمبلی سے فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کی قرار داد کی منظوری ان جماعتوں نے دے دی ہے ۔
مرتضیٰ وہاب کی کامیابی پر جماعت اسلامی کا شور اس لیے بے اثر ہے کہ وہ ان تیس ووٹر کو سامنے نہیں لا سکے جن کے غائب ہونے کاالزام پی پی پر عائد کر رہے ہیں۔ سیاست میں کامیابی ہی اصل حقیقت ہے۔ اگر جماعت اسلامی ایک سو چوہتّر ووٹر سامنے لاتی تو اس کاجبری ووٹ نہ دینے کا الزام موثر ہوتا ۔یہ لو گ ہمیشہ کے لیے تو غائب نہیں ہوئے جب پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی سندھ ہائوس اسلام آباد میں جمع کیے گئے تھے۔ اس وقت جماعت اسلامی نجی محفلوں میں خوشی کا اظہار کر رہی تھی۔ اب بھی پی ٹی آئی پر عائد پابندیوں پر خوش ہے۔ کیونکہ آئندہ انتخابات میں وہ پی ٹی آئی کی کچھ نشستوں پراپنے امیدواروں کی کامیابی کی امید رکھتی ہے۔ کراچی میں بھی پی ٹی آئی کو زیرعتاب دیکھ کر بلدیاتی انتخاب میں جماعت اسلامی نے غلبہ حاصل کرنے کی کو شش کی اور اسے ملک کے اعلیٰ عہدے تک پہنچنے کا زینہ تصور کیا ۔انہیں علم تھا کہ طاقتوروں کا فیصلہ ہے، پی ٹی آئی شجر ممنوعہ ہے۔
کر اچی میں ایک با صلاحیت سرگرم میئر مرتضیٰ وہاب کی کامیابی واضح نظر آ رہی تھی۔ آصف زرداری کی سیاست ملک پر حاوی ہے۔ اس سلسلے میں میری فروری کی تحریر موجود ہے جواخبارات کی زینت بنی تھی ۔یہ ضرور ہے کہ پی ٹی آئی کے غائب یا غیر حاضر ووٹر سے میڈیا میں انتخابی عمل کی شفّافیت زیر بحث ہے۔ جماعت اسلامی احتجاج کر رہی ہے۔ پاکستان میں اقتدار کا کھیل صاف ستھرا نہیں ہے۔ یہ مفادات اور سمجھوتوں کا گورکھ دھندہ ہے، نہ ہی پاکستان ایک مثالی جمہوری معاشرہ ہے۔ لہٰذا توقعات بھی اسی مناسبت سے رکھنی ہونگی۔ پیپلز پارٹی کراچی میں اپنا میئر لانے میں کامیاب ہوچکی ہے اور اس کے حوصلے اگلے مرحلے کے لیے بلند ہیں۔ اب بلاول بھٹو کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انہیں قبولیت مل سکتی ہے۔ نواز شریف اپنی جانب سے واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ اس دوران آصف زرداری نواز شریف کی واپسی سے قبل سیاسی اور انتخابی میدان میں اپنی گرفت مضبوط کر چکے ہونگے ۔آصف زرداری ملک میں سو ارب ڈالر لا نے کا پرکشش دعویٰ کر رہے ہیں۔ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر یہ بالواسطہ عدم اعتماد ہے۔ پی پی رہنمائوں کی جانب سے بجٹ پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے ۔
ایک خیال یہ ہے کہ وہ قومی اسمبلی میں جلد اپنی مرضی کا قائد حزب اختلاف لے کر آجائیں گے۔ اگر وہ حکومت سے علیحدہ ہوئے تو بلاول بھٹو قائد حزب اختلاف ہونگے۔ جس کے ذریعے وہ اپنی مرضی کا نگراں وزیر اعظم لا سکتے ہیں۔ قائد حزب اختلاف کا عہدہ بلاول بھٹو کے وزیر اعظم بننے کا زینہ بھی بن سکتاہے۔ موجودہ حالات میں پی پی کے لیے بہترین موقع ہے۔ اس وقت پی ٹی آئی کے ہزاروں کارکن جیلوں میں ہیں ۔بے شمار روپوش ہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئر مین کے نام لینے پر پابندی ہے ۔جن امیدواروں کو پی ٹی آئی کا ٹکٹ ملے گا ، اسے گرفتاری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔پی ٹی آئی کی آزادانہ انتخابی سر گرمیاں مشکل ہونگیں۔جماعت اسلامی اورتحریک لبّیک کو بھی ان حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا ۔مسلم لیگ کے لیے واحد راستہ یہ ہے کہ وہ ایک طویل مدّتی عبوری حکومت کی کوشش کرے۔ اسی صورت میں وہ اپنا بالواسطہ اقتدار قائم رکھ سکتی ہے۔ ورنہ تیزی سے جگہ بنانے والے آصف زرداری کا مقابلہ ن لیگ کے لیے مشکل ہوگا۔ پیپلز پارٹی کو اندازہ ہوچکا ہے کہ اگر ایک مرتبہ ن لیگ کو موقع دے دیا تو وہ تمام اداروں پر اسی طرح قبضہ کر لے گی جیسے اس نے نوے کی دہائی میں کیا تھا۔ سب سے اہم مسئلہ ملک کی معیشت کا ہے جو موجودہ حکومت کے قیام سے زوال پزیر ہے۔ حکومتی عہدیداروں کو بین الاقوامی سطح پر پزیرائی نہیں مل سکی، نہ ہی آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کا معاہدہ ہوسکا ۔اب آئی ایم ایف بجٹ میں تبدیلی کی خواہاں ہے۔ پیپلز پارٹی کی مخالفت کی سبب بجٹ منظور نہ ہوا تو ایک نگراں حکومت آسکتی ہے ۔اس لیے وزیر اعظم شہباز شریف کو بجٹ کی منظوری تک پیپلز پارٹی کو اپنے حق میں راضی رکھنا ہوگااور ان کے مالی مطالبات بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں ۔بجٹ پر قومی اسمبلی میں ہونے والی بحث کے دوران مسلم لیگ فنکشنل کی خاتون رکن اسمبلی سائرہ بانو نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے آنسو ؤں کو بہنے سے روکتے ہوئے ایک جذباتی تقریر کردی تھی، جس کی گونج سوشل میڈیا پر اب بھی جاری ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انہیں25 روز سے ڈرایا جا رہا ہے۔ اسی قسم کا الزام پی ٹی آئی کی جانب سے تسلسل سے لگایا جا رہا ہے کہ ان کے کارکنوں اور رہنمائوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ مسلسل جاری ہے اور ان کی جماعت کے لیے خوف کی فضا پیدا کردی گئی ہے۔ بہر حال پاکستان میں جاری ایک سیاسی جماعت کے خاتمے کا تجربہ اب تک کامیاب نظر آرہا ہے۔ اس کی کامیابی کی صورت میں آئندہ بھی یہ تجربہ کسی بھی سیاسی جماعت پر استعمال ہونے کے خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ لیکن وقتی فائدے کے لیے بر سر اقتدا ر جماعتیں اس طریقہ کا ر کو جائز تصور کر رہی ہیں۔ ان کے لیے اب میدان خالی ہے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری کی مفاہمتی جا دوگری سے ایسے نتائج کا امکان بڑھ رہا ہے جس سے وہ قومی اسمبلی کی ایک سو تیس سے ایک سو چالیس نشستیں حاصل کر سکتے ہیں ۔اکتوبر کے ممکنہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کو اپنی کامیابی کی امید واضح نظر آرہی ہے لیکن خود مسلم لیگ اس انتخابات میں مزید التوا چاہتی ہے تاکہ وہ پنجاب میں اس قدر گرفت مضبوط کر لے کہ دوسری کوئی سیاسی جماعت اس کے اقتدا ر کے لیے خطرہ نہ بن سکے ۔پیپلز پارٹی کو اس بات کا احساس ہے کہ ان کی پنجاب میں جاری سرگرمیوں میں ن لیگ رکاوٹ بن رہی ہے۔ خصوصاً ان کے بینرز اور پوسٹرز کے پھا ڑنے اور اتارے جانے کا عمل مشکوک اور پراسرار ہے۔ پاکستان کی سیاست کے آنے والے چند ماہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے لیے فیصلہ کن ہونگے ۔فی الحال کراچی میں مرتضیٰ وہاب کی کامیابی کے بعد بلاول بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے امکانات بڑھ چکے ہیں۔ آصف زرداری پاکستان کی سیاست کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہیں ۔وہ اپنی سیاسی جادوگری سے کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ عوام کا ہے، فی الحال ان کے لیے کوئی راحت نہیں ہے ۔وہ مہنگائی اور بے روزگاری کے شدید عذاب کا سامنا کر رہے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی اور بڑھتی ہوئی آبادی بھی خوفناک مسائل کو جنم دے رہی ہے جس پر کسی کی توجہ نہیں ہے ۔
٭٭