... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والد کا عالمی دن سوشل میڈیا پر بڑی دھوم دھام سے منایا گیا۔والد گھڑی میں سیکنڈ کی وہ سوئی ہے جسے ایک لمحہ کے لیے بھی چین نہیں۔ وہ 24گھنٹے 7دن اور 12ماہ روزی روٹی کے لیے چکر کاٹتا رہتا ہے۔ گھڑی میں تین سوئیاں ہوتی ہیں جن میں ایک سوئی سیکنڈ کے نام سے مشہور ہے ۔یہ سیکنڈ والی سوئی اپنا وجود تو رکھتی ہے مگر اس کا ذکر نہیں کیا جاتا۔سب یہی کہتے ہیں کہ 12 بج کر12منٹ ہوگئے ہیں۔کبھی کسی نے یوں نہیں کہا کہ دس بج کر پندرہ منٹ اور چار سیکنڈ ہوئے ہیں۔جبکہ یہ سیکنڈ والی سوئی دونوں سے زیادہ محنت اور مشقت کرتی ہے اور ان دونوں کو بھی آگے بڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ آج کا والد بھی اسی سوئی کی مانند ہے جو اپنے گھر والوں کو آگے لیکر چلتا ہے۔
اسی سیکنڈ کی مانند ہماری عوام بھی ہے جو خو کماتی ہے، محنت مزدوری کرتی ہے اور اپنے ٹیکسوں سے اپنے اوپر مسلط حکمرانوں کا پیٹ بھی پالتی ہے۔ انہیں بیرون ممالک دورے بھی کرواتی ہے۔ ان کی عیاشیوں کے سامان بھی پیدا کرتی ہے۔ انہیں ووٹ بھی دیتی ہے۔ انہیں سپورٹ بھی کرتی ہے۔ خود جھونپڑیوں میں رہ کر انکے بڑے بڑے محلات کے اخراجات بھی برداشت کرتی ہے۔ لیکن ہیں سب سیکنڈ کی سوئی کی مانند جنہیں سکون اور چین لینے کی بھی اجازت نہیں ہوتی ۔اگر کسی نے ایسی گھڑی کہیں دیکھی ہوجس میں سیکنڈوں والی سوئی نہ ہو تو پھر ہم اس گھڑ ی کو اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں کیونکہ اس گھڑی کی خوبصورتی اور حسن اسی سوئی سے ہے ۔ہماری جمہوریت کا حسن بھی عوام سے ہے ۔جمہور ہو گی تو جمہوریت کہلائے گی۔ لیکن عوام کو صرف کمانے والی مشین بنا کر حکمران خود دنیا بھر میں عیاشیاں کرتے ہیں۔
ذکر میں کررہا تھا والد کے عالمی دن کے حوالہ سے کہ وہ بھی بیچارہ خود کو اپنے بچوں کی خاطر ہلکان کرلیتا ہے آج کے دور میں والد کو پیسہ کمانے کی مشین بنا لیا گیا ہے جو صبح سے شام تک نہ جانے کیا کیا پاپڑ بیلتا ہے۔ تب جاکر کہیں اس کے گھر کا چولہا جلتا ہے اور کچھ والدین اپنے بچوں کے سنہری مستقبل کے لیے اپنے آپ کو دکھوں میں ڈال کر بیرون ملک بھاگ جاتے ہیں ۔کچھ سمندر میں ڈوب جاتے ہیں تو کسی کو انسانوں کا سمندر نگل جاتا ہے۔ ملکی حالات اتنے خراب ہوچکے ہیںکہ ایک عام انسان بھی پاکستان سے بھاگنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کی سوچ ہے کہ اس نے تو اپنی ساری زندگی خجل خواریوں میںگزار دی جو دکھ اس نے برداشت کیے وہ اس کے بچے نہ دیکھ سکیں۔ اسی لیے تو کبھی کشتی کے حادثوں میں موت کو گلے لگا رہا ہے تو کبھی صبح سے شام تک سخت گرمی میں اپنے آپ کو قربان کررہا ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ غربت ختم کرنے کے دعویداروں نے اب عوام سے زندہ رہنے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ ایک عام مزدور جو بڑی مشکل سے اپنے بچوں کی روٹی پوری کررہا ہے۔ اسے بھی اس حکومت نے ننگا کردیا۔ بجلی کے بلوں نے اس کا جینا مشکل بنا دیا ہے۔ باقی بلوں کو تو چھوڑیں صرف بجلی کا بل اس کی پورے مہینے کی تنخواہ کھا جاتا ہے اور ہمارے حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ وہ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے ان کی سانسوں پر بھی پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ بجٹ کے بعد آنے والے مہنگائی کے طوفان نے لوگوں کو گھروں سے بھاگنے پر مجبور کردیا اور مجبور خواتین اپنے گھروں میں موت کو گلے لگارہی ہیں ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ گڑھ موڑ کی ایک رہائشی خاتون کا خاوند فوت ہوگیا کچھ دن تک اس خاتون نے خود تو بھوک برداشت کرلی لیکن اپنے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کی بھوک برداشت نہ کرسکی۔ پنکھے کے ساتھ رسی لٹکائی اور پھر خود بھی اسکے ساتھ لٹک گئی۔ اس کا خاوند نہ جانے کیا کچھ کرکے انکے لیے روزی روٹی تلاش کرتا ہوگا ۔آج کی ہماری خواتین کو شاید اس کا احساس نہیںہوتا لیکن کسی مرد کے جانے کے بعد اس گھر پر مصیبتوں کے کیا کیا پہاڑ ٹوٹتے ہیں، اس کا اندازہ اس خاتون کی خود کشی سے لگا لیں۔
ہمارے معاشرے میں عورتیں مردوں کی قدر نہیں کرتیں۔ وہ ان کے لیے مر جاتے ہیں وہ دھوپ اور گرمی برداشت کرتے ہیں۔ ان کے آرام کے لیے عورتیں جس وقت ٹھنڈے گھروں میں سکون سے رہ رہی ہوتی ہیں، مرد ایسے میں پچاس درجے کی گرمی میں سڑکوں پر ان کے لیے آسان زندگی تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے اپنے والدین اور گھر والوں کی قدر کیا کیجیے ۔ رہی بات ہماری اور ہم تو ویسے بھی مسلمان ہیں، اسلام ہمیں اپنے ہمسایوں سے اپنے گھر جیسے سلوک کا حکم دیتا ہے ،پھر بھی اگر بھوک سے بلکتے بچوں کی ماں خود کشی کرجائے تو پھر ایسے ہی حکمران ہم پر مسلط ہوتے رہیں گے ۔جن کی وجہ سے عام انسان کبھی ڈوب کر مرجائیگا تو کبھی اس کے گھر والے خود سے پھانسی لے لیںگے۔ ایک کشمیری رہنما شہزاد نازکی کا دکھ بھرا وٹس ایپ پیغام پڑھا تو آنکھیں بھیگ گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ سمندر میں ڈوبنے والی یونانی کشتی میں ضلع کوٹلی کے تقریباً 43 نوجوان شامل تھے جبکہ میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ کسی کشتی میں ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے جوان بھی موجود تھے۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے نوجوانوں کو معاشی بدحالی بے روزگاری غربت سے نجات حاصل کرنے کا واحد راستہ یورپ ہی نظر آتا ہے ۔ جہاں وہ اپنی اور اپنے گھروالوں اور اپنی نسلوں کی بقا کا خواب دیکھ رہے ہوتے ہیں ۔وہ پاکستان کے اندر بھی رزق کی تلاش میں بھٹک رہے ہوتے ہیں۔ جہاں خود پاکستانی عوام بے روزگاری سے تنگ آ کر خودکشی کر رہی ہے۔ نام نہاد خطے کے اندر کوئی معیاری ٹیکنیکل ادارے تک موجود نہیں ہیں۔ جہاں نوجوان بہتر ہنر ہی سیکھ سکیں۔ان سب حالات کی ذمہ دار ریاست ہے جو بنیادی سہولیات دینے سے محروم ہے جبکہ پاکستان اور کشمیر پر قابض لوگوں کو اس بات کا کوئی احساس نہیں ہے کہ عوام کا کیا حشر ہورہا ہے ۔آخر میں اتنا ضرور کہوںگاکہ پاکستان کے حکمرانوں کو اگر حکمرانی کرنی ہے تو عوام جو سیکنڈ کی سوئی بن کر گھوم رہے ہیں، اس پر اتنا ہی وزن ڈالیں کہ وہ چلتے رہیں کیونکہ وہ چلیں گے تو آپ سکون سے عیاشیاں کریں گے۔ جس دن وزن ان کی اوقات سے بڑھ گیا اور سوئی کی برداشت سے باہر ہوگیا اور وہ ٹوٹ گئی تو پھر بچے گا کسی کا بھی کچھ نہیں۔ سب بکھرے ہوئے تنکوں کی طرح نظر آئیں گے۔ خدارا ملک پر نہیں عوام پر بھی نہیں اپنے آپ پر ہی رحم کرلیں ۔
٭٭٭