... loading ...
٭یورپ جانے والے پاکستانی سمندری حادثوں، انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں فائرنگ یا غیرمحفوظ لمبے زمینی اور سمندری سفر کے دوران کسمپرسی کی حالت میں جان گنواتے رہے ہیں
٭بحیرہ روم کی غضب ناک لہروں کی شکار کشتی ڈوبنے کا حالیہ واقعہ اپریل 2015 کے المناک بحری جہاز کے تباہ ہونے کے بعد اب تک کا دوسرا سب سے مہلک حادثہ ہو سکتا ہے
٭ہر برس کم از کم 20 ہزار لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے یورپ اور دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں اور بہت سے ڈوبنے یا غیرقانونی ایجنٹوں کے ساتھ تنازعات میں زندگی گنوا بیٹھتے ہیں
٭کراچی، پشاور اور کوئٹہ سے زمینی راستے کے ذریعے ایران سے ترکی جانے کے لیے ایک ایجنٹ کم سے کم 25 سو ڈالر لیتا ہے، جبکہ یونان پہنچانے کے لیے چار ہزار ڈالر لیے جاتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھلا سمندر اور اس کے بیچ میں کشتی پر سوار بے بس اور مجبور انسان۔ بحیرہ روم کی غضب ناک لہریں ہر سال ہزاروں تارکینِ وطن نگل جاتی ہیں۔ بدھ 14 جون کو تارکین وطن سے بھری ہوئی ایک بڑی کشتی یونان کے قریب بحیرہ روم میں ڈوبنے اور بڑی تعداد میں انسانی جانوں کے ضیاع نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔اس حادثے میں بھی درجنوں پاکستانیوں نے اپنی جانیں گنوائی ہیں۔ اس سے قبل بھی کئی مرتبہ پاکستان سے بہتر مستقبل کی تلاش میں یورپ جانے والے درجنوں پاکستانی سمندری حادثوں، انسانی ا سمگلروں کے ہاتھوں فائرنگ یا یورپ کے غیرمحفوظ لمبے زمینی اور سمندری سفر کے دوران بھوک اور موسمی حالات کی وجہ سے کسمپرسی کی حالت میں جان گنواتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین اور پناہ گزینوں کے اداروں نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں سمندر میں ڈوبنے والوں کی تلاش اور ان کی جانیں بچانے کو ضروری قرار دیتے ہوئے اموات روکنے کے لیے فوری اور فیصلہ کن اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔یہ سمندری حادثہ 2015 کے بعد سے سب سے زیادہ ہلاکت خیز واقعہ ہے۔ یو این مائیگریشن ایجنسی کے مسنگ مائیگرنٹس پراجیکٹ نے ٹویٹ میں لیبیا کے ساحل پر الٹنے والے بحری جہاز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اپریل 2015 کے اٹلی کے راستے میں ہونے والے المناک بحری جہاز کے تباہ ہونے کے بعد اب تک کا دوسرا سب سے مہلک حادثہ ہو سکتا ہے،جس میں ایک اندازے کے مطابق تقریباً 800 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ غیرقانونی تارکین وطن کی آمد روکنے کے لیے یورپ نے زمینی اور بحری راستوں کی نگرانی میں اضافہ کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود لوگ بحیرہ روم کے انتہائی پرخطر راستے سے یورپ جانے کو ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ زمینی سرحدوں کو عبور کرنا انتہائی دشوار بن چکا ہے۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن آف مائیگریشن کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2014 سے اب تک بحیرہ روم میں لاپتہ ہونے والے تارکین وطن کی تعداد 27ہزار سے زیادہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان سے ہرسال کتنے لوگ غیرقانونی طور پر یورپ میں داخلے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا روٹس ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے انسانی اسمگلروں کا کیا کردار ہوتا ہے؟
کچھ اندازوں کے مطابق ہر برس کم از کم 20 ہزار لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے یورپ اور دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں، جن میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان سے ایران اور ترکی کے ذریعے یونان اور اٹلی وغیرہ کا راستہ استعمال کرتے ہیں۔ ان غیرقانونی تارکین وطن میں سے کئی دوران سفر سرحدی محافظوں کی گولیوں، سخت موسمی حالات، سمندری لہروں میں کشتیوں کے ڈوبنے یا غیرقانونی ایجنٹوں کے ساتھ معاوضوں کے تنازعات کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ نقل مکانی کے متعلق کام کرنے والی عالمی تنظیم (آئی او ایم) کی ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستانی بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور خطے کے کئی دوسرے ممالک کے افراد بھی غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے لیے یہی راستہ اور طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق غیرقانونی تارکین وطن پاکستان سے یورپ، مشرق وسطی اور آسٹریلیا جانے کے لیے تین راستے استعمال کرتے ہیں، جن میں سے یورپ جانے کے لیے بلوچستان، ایران اور ترکی کا راستہ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ اس راستے پر پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقے تفتان کے علاوہ منڈ بلو اور پشین کے خفیہ راستوں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق لوگوں کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث منظم گروہ جعلی کاغذات کی تیاری سے لے کر بری، بحری اور فضائی سفر کے لیے تارکین وطن سے لاکھوں روپے وصول کرتے ہیں۔کراچی، پشاور اور کوئٹہ سے زمینی راستے کے ذریعے ایران سے ترکی جانے کے لیے ایک ایجنٹ کم سے کم 25 سو ڈالر لیتا ہے، جبکہ یونان پہنچانے کے لیے چار ہزار ڈالر لیے جاتے ہیں۔ کچھ ا سمگلرز فضائی رستوں سے بھی لوگوں کو غیرقانونی طور پر یورپ منتقل کرتے ہیں جس کے لیے وہ 18 ہزار ڈالر تک وصول کرتے ہیں۔ تاہم رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ لوگوں کو یورپ بھجوانے کے لیے لی گئی اس رقم میں ردوبدل ہوتا رہتا ہے کیونکہ یہ نقل مکانی کے راستوں کو مدنظر رکھ کر طے کی جاتی ہے اور راستے بھی خطرات اور سہولت کے پیش نظر بدلتے رہتے ہیں۔ پاکستان سے آسٹریلیا جانے والے عام طور پر اصلی پاسپورٹ پر ملائشیا یا تھائی لینڈ جاتے ہیں اور وہاں سے ان کو زمینی یا سمندری راستوں سے غیرقانونی طور پر پہلے انڈونیشیا اور پھرسمندر کے راستے سے آسٹریلیا پہنچایا جاتا ہے۔ اس سفر کے لیے 13 ہزار کے قریب ڈالر لیے جاتے ہیں۔ پاکستان سے غیرقانونی طور پر مشرق وسطیٰ جانے والے افراد کو ایران کے رستے عمان لے جایا جاتا ہے، لیکن ان کے لیے فضائی سفر بھی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ اس سفر کے لیے کاغذات کی تیاری کے اخراجات کے علاوہ کم از کم ایک ہزار ڈالر لیے جاتے ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق ہر ماہ دو ہزار کے قریب لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے باہر جاتے ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں جن کے اعداد و شمار کے بارے میں متعلقہ لوگوں کو پتہ چل جاتا ہے۔ متعلقہ حکام کے مطابق حکومت غیرقانونی طور پر باہر جانے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کر سکتی کیونکہ وہ مجرم نہیں بلکہ متاثرہ فریق ہوتے ہیں۔ تاہم اسمگلروں کے خلاف مقدمات درج کر کے بھرپور کارروائیاں کی جاتی ہیں۔ اور ان کے خاتمے کے لیے مختلف حکمت عملیوں پر عمل کیا جاتا ہے۔
٭٭٭