وجود

... loading ...

وجود

حافظ نعیم کو عددی برتری کے باوجود شکست، اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی ریت نئی نہیں

پیر 19 جون 2023 حافظ نعیم کو عددی برتری کے باوجود شکست، اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی ریت نئی نہیں

٭انیس سو ستر کے الیکشن میں مجیب الرحمان کی پارٹی نے 167 اور پیپلزپارٹی نے 80 نشستیں حاصل کیں لیکن اکثریت کو تسلیم نہیں کیا گیا جس کے نتیجے میں ملک دو لخت ہوگیا
٭مارچ 2021 ء کو سینیٹ کے انتخاب میں بھی تحریک انصاف کے امیدوار حفیظ الدین شیخ کو شکست ہوئی، پیپلز پارٹی اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو منتخب کرانے میں کامیاب رہی
٭پیپلز پارٹی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے فن میں ماہر ہے، سابق صدر آصف علی زرداری کو سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر ترین کھلاڑی سمجھا جاتا ہے، لیکن پی پی ہمیشہ فائدے میں نہیں رہی
٭1992ء میں مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ وزیراعلیٰ سندھ بن بیٹھے تھے اور دو بڑی اکثریتی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم اپوزیشن بینچز پر بیٹھنے پر مجبور ہو گئیں
٭تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے، 1979ء میں پیپلز پارٹی کے عبدالخالق اللہ والا میئر بننے جارہے تھے، پھر کچھ کونسلرزاغوا ہوئے اور جماعت اسلامی کے عبدالستار افغانی میئر بن گئے
٭سندھ ہائیکورٹ میں غیر منتخب شخص کے میئر کا انتخاب لڑنے سے متعلق بلدیاتی قانون میں ترمیم کے حوالے سے کیس اہم ہے، ترمیم کو منسوخ کردیا گیا تومرتضیٰ وہاب مئیر نہیں رہیں گے                                                     
                                                          

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کراچی میں میئر کے انتخاب کے موقع پر وہی کچھ ہوا جس کی توقع تھی۔ پیپلزپارٹی کی حکومت اپنا میئر بنوانے میں کامیاب ہوگئی۔اس انتخاب میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اتحاد کے نامزد حافظ نعیم الرحمان عددی برتری کے باجود شکست سے دوچار ہوئے۔ کراچی کی تاریخ میں پہلی بار پی پی پی کا میئر بنا ہے۔ ان کے لئے یقینی طور پر یہ خوشی کی بات ہے، مگر جس طرح یہ سب کچھ ہوا، وہ نہایت افسوسناک اور قابل تنقید ہے۔ مرتضیٰ وہاب میئر کراچی منتخب ہو گئے۔ حافظ نعیم الرحمان نے احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کیا اور جماعت اسلامی کے سربراہ سراج الحق نے بھی ملک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے۔صوبائی وزیر اور صدر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن سعید غنی نے جماعت اسلامی کے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف کے کونسلرز نے پارٹی پالیسیز پراختلافات کرتے ہوئے انتخابی عمل میں شرکت سے انکار کیا۔ پی ٹی آئی کے کونسلرز کے واٹس ایپ گروپ پر میسجز اور ٹیلی فونک گفتگو ہے، جس میں وہ پارٹی کی قیادت سے اختلافات کا اظہار کر رہے ہیں کہ انہیں پارٹی نے مشاورت کا حصہ نہیں بنایا، اگر تحریک انصاف اپنے کونسلرز کو ووٹ ڈالنے کے لیے آمادہ نہیں کر سکی تو اس میں پیپلز پارٹی کا کوئی قصور نہیں۔ حافظ نعیم کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ووٹ دینے کے لیے رضامند کریں لیکن وہ اس میں ناکام رہے ہیں۔پاکستان کی سیاست پر نظر ڈالیں تو اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کی ریت کوئی نئی نہیں۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ پارٹی قومی اسمبلی کی 313 نشستوں میں سے 167 پر کامیابی حاصل کر کے اکثریتی جماعت بنی تھی جبکہ اس کے مدمقابل پیپلز پارٹی صرف 80 نشستیں ہی حاصل کر پائی تھی، تاہم عوامی لیگ کی اکثریت کو تسلیم نہ کیا گیا اور اقتدارعوامی لیگ کے حوالے نہ کیا گیا اور نتیجتاً ملک دو لخت ہو گیا۔مارچ 2021 ء کو ہونے والے سینیٹ کے انتخاب میں بھی حکمران جماعت تحریک انصاف کے امیدوار حفیظ الدین شیخ کو شکست ہوئی جبکہ اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی اپنے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو منتخب کرانے میں کامیاب رہی۔اگر سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے فن میں ماہر سمجھی جاتی ہے اور موجودہ دور میں سابق صدر آصف علی زرداری کو سیاسی جوڑ توڑ کا ماہر ترین کھلاڑی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پیپلز پارٹی ہمیشہ ہی فائدے میں نہیں رہی۔ 1992ء میں مسلم لیگ فنکشنل کے مظفر حسین شاہ وزیراعلیٰ سندھ بن بیٹھے تھے اور صوبے کی دو بڑی اکثریتی سیاسی جماعتیں پیپلز پارٹی اورایم کیو ایم اپوزیشن بینچز پر بیٹھنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔
موجودہ سیاسی منظر نامے پر نظر ڈالیں تو گویا تاریخ اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ 1979ء میں کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی اکثریتی جماعت کے طور پر سامنے آئی اور پیپلز پارٹی کے عبدالخالق اللہ والا میئر بننے جارہے تھے تاہم پھر پیپلز پارٹی کے کچھ کونسلرز اغوا اور گرفتار ہو گئے۔ نتیجتاً جماعت اسلامی کے نامزد عبدالستار افغانی میئر کراچی منتخب ہوگئے۔ آج پھر جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایسی ہی صورتحال ہے تاہم نتائج 1979ء کے برعکس ہیں۔گزشتہ روز جشن کے دوران مرتضی وہاب کا حافظ نعیم کو مخاطب کر کے کہنا کہ نعیم بھائی ”کیسا دیا“۔ یہ بیان دونوں جماعتوں کی ماضی کی چپقلش واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔مرتضیٰ وہاب کی کامیابی گزشتہ روز ہونے والے انتخابی عمل یا چند روز کا قصہ نہیں بلکہ ایک جامع منصوبہ بندی نظر آتی ہے کہ پہلے پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کے حوالے ٹال مٹول کرتی رہی اور حتیٰ الامکان کوششیں کی گئیں کہ انتخابات تاخیر کاشکار ہوں۔ پیپلز پارٹی پر نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھی الزام لگایا جا رہا ہے کہ ان حلقہ بندیوں سے صرف پیپلز پارٹی کو ہی فائدہ پہنچا ہے جبکہ ایم کیوایم، پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتوں کو ان حلقہ بندیوں سے نقصان ہوا ہے۔دوسری جانب مرتضیٰ وہاب کو بھی بلدیاتی انتخابات سے قبل ایڈمنسٹریٹر کے طور پر شہر کی باگ ڈور دی گئی اور انہیں پوری طرح سے تیار کیا گیا۔ اس کے بعد بلدیاتی قوانین میں غیر منتخب شخص کے میئر کا انتخاب لڑنے کی اجازت دینے کی ترمیم کر کے مرتضیٰ وہاب کے لیے بند دروازہ کھول دیا گیا۔ یہ سارے عوامل ایک طویل منصوبہ بندی کی جانب اشارہ کر رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی یہ منصوبہ بندی بالآخر بارآور ثابت ہوئی۔سینئر صحافیوں کے بقول کراچی سونے کا انڈا دینے والی مرغی ہے تاہم مرغی کا گلا نہیں مروڑا جاتا۔ پیپلز پارٹی نے میئر شپ کے لیے سیاسی طور پر بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر پیپلز پارٹی کو جمہوری طرزعمل کے تحت جس کے زیادہ نمبرز تھے اسے آنے دینا چاہیے تھا۔عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے دعوی کیا تھا کہ 36 کروڑ روپے میں میئر کراچی کا عہدہ پیپلز پارٹی کے لیے برا سودا نہیں ہے،“پہلے ہی دبئی میں خرید و فروخت کی منڈی لگا دی گئی ہے۔ حافظ نعیم کو خرید و فروخت میں شکست ہوئی لیکن عوام میں نہیں۔کراچی کی سیاست پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے لیے سادہ اکثریت کے بغیر معاملات کو لے کر چلنا آسان نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے غائب ارکان کے منظرعام پر آنے کے بعد اور کیا انہوں نے اپنا الگ فاروڈ گروپ بنا لیا ہے؟ اور کیا وہ پارٹی کے فیصلوں سے واقعی اختلاف کرتے ہیں؟ یہ تمام چیزیں واضح ہونے کے بعد ہی کچھ کہا جا سکے گا، البتہ سندھ ہائیکورٹ میں غیر منتخب شخص کے میئر کا انتخاب لڑنے سے متعلق بلدیاتی قانون میں ترمیم کے حوالے سے کیس بہت اہم ہے۔ اگر عدالت عالیہ اس ترمیم کو منسوخ قرار دے دیتی ہے تو مرتضیٰ وہاب میئر نہیں رہیں گے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت وجود هفته 23 نومبر 2024
33سالوں میں909 کشمیری بچوں کی شہادت

بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ وجود هفته 23 نومبر 2024
بلوچستان میں جامع آپریشن کافیصلہ

روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن وجود جمعه 22 نومبر 2024
روداد: پاکستان میں گزرے تیس دن

بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون وجود جمعه 22 نومبر 2024
بھارتی مسلمانوں کے گھر گرانے کا عمل ماورائے قانون

ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟ وجود جمعه 22 نومبر 2024
ٹرمپ اور مشرق وسطیٰ: جنگ، امن یا حل؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر