... loading ...
تحریر: سیسیلیا اونگ (ملائیشیا)
ترجمہ: حمزہ حسن شیخ
۔۔۔
پچاسیویں دھائی کے لگ بھگ کی بات ہے، لیونگ چن اُس وقت پانچ برس کی تھی۔ اُس کا ایک بڑا بھائی تھا جس کی عمر آٹھ برس اور بڑی بہن کی عمر چھ سال تھی۔ اسی ترتیب میں، اُس کا تیسرا نمبر تھااور دادی کی نظر میں، وہ صرف ایک دوسری ناپسندیدہ لڑکی تھی۔
اُن دنوں، چین کی بہت سی دادیاں، پو تیوں کے بجائے پوتوں کی پیدائش کو زیادہ پسند کرتی تھیں۔ اور اس وجہ سے، لیونگ چن کو خاندان میں ایک اضافی بوجھ سمجھا جاتا کیونکہ خاندان میں پہلے ہی ایک لڑکی، اُس کی بڑی بہن کی شکل میں موجود تھی۔ اگرچہ اُس کی ماں اس سے بے حد محبت کرتی تھی لیکن اُس کی دادی کے دماغ میں اسی خیال نے جڑ پکڑ لی تھی کہ گھر میں ایک اور پوتی کا ہونا پریشانی کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ اس لیے، پسندیدگی اور غیر پسندیدگی کی اس غیر منصفانہ جنگ میں، وہ تینوں بچوں میں سے سب سے برا سلوک اس کے ساتھ کرتی۔ وہ دوسرے دونوں بچوں پر مٹھائیوں، ٹافیوں اور نئے کپڑوں کی خوب برسات کرتی لیکن لیونگ چن کے مقدر میں وہی آتا جو باقی دونوں بچوں سے بچ جاتا۔ پانچ سال کی چھوٹی سی عمر میں، لیونگ چن پر رتی برابر بھی اثر نہ پڑا۔ لیکن کبھی کبھار وہ حیران ہوتی کہ دادی اُس کے باقی بہن بھائیوں کو ہمیشہ اُس سے اچھا کیوں کھانے پینے کو دیتی ہے اور پھر وہ اپنی ماں سے اس کے متعلق سوال کرتی، جب اُس کی ماں ربڑ کے درختوں کا شیرہ جمع کرنے کے بعد واپس آتی۔
اُس کی ماں کو واضح طور پر ساری صورت حال سے آگاہی تھی کہ اُس کی ساس اس چھوٹی بچی کے ساتھ واقعی بہت ہی ناروا سلوک رکھتی ہے اور اس کی معصومیت کا خوب فائدہ اُٹھاتی ہے لیکن اُس کو کبھی احساس نہ ہوا کہ لیونگ چن بہت ذہین بچی تھی۔ اس سب کے ساتھ ساتھ زندگی جاری رہی۔ دادی کے غصہ سے نجات حاصل کرنے کے لیے، لیونگ چن صبح سویرے ہی جاگنا پسند کرتی اور کبھی کبھار تو رات کے دو بجے بھی، تاکہ وہ ماں کے ساتھ ربڑ کے کھیتوں کی جانب جا سکے اور وہاں اپنی ماں کی خالی بالٹیاں اور ربڑ کاٹنے کے چاقو اُٹھانے میں مدد کرے۔ ماں اُس کو گرم گرم لباس پہناتی جب بھی وہ اُس کے ساتھ جاتی۔ جیسے ہی ربڑ کا شیرہ جمع کرنے کا مرحلہ شروع ہوتا، لیونگ چن، شیرہ جمع کرنے والا چاقو لے کر کبھی کبھار اپنی مہارت کا مظاہرہ کرتی اور اکثر اوقات، جب تک شیرہ جمع کرنے کا مرحلہ اختیام پزیر ہوتا،اُس کے سارے بال شیرے سے الجھ چکے ہوتے۔
صبح کے دس بجے، وہ ناشتا کرنے کے لیے واپس گھر آتے اور اُس کی ماں کچھ چاول اور نمکین مچھلی ناشتے کے لیے پکاتی۔ ناشتے کے بعد، اُس کی ماں بیٹھ کر اُس کے بالوں سے شیرہ صاف کر کے کنگھی کر دیتی۔ اس کے بعد، وہ واپس کھیتوں کی جانب شیرہ جمع کرنے کے لیے چلی جاتی اور پیالوں میں جمع کیا ہوا شیرہ بالٹیوں میں اُنڈیل دیتی تاکہ اُسے بعد میں، ربڑ کے گودام میں لایا جا سکے۔ جہاں پر اکٹھے کیے گئے شیرے کو تیزاب کے ساتھ ملایا جاتا اور اس کو مناسب شکل میں ڈھلنے کے لیے مختلف سانچوں میں اُنڈیلا جاتا۔ سانچوں سے مخصوص وقت کے بعد، اس دھنے ہوئے شیرے کو باہر نکالا جاتا اوراس کو مطلوبہ چوڑائی میں ڈھالنے کے لیے ایک دباؤ سے گزارا جاتا۔ اس کے بعد، ربڑ کی ان ساری تہوں کوسوکھنے کے لیے دخانیہ میں لٹکا دیا جاتا تاکہ اُن کے ڈھیر بنا کر بازار میں بھیجا جا سکے۔
ایک صبح، لیونگ چن بہت تاخیر سے جاگی۔ اُس کی ماں پہلے ہی کام پر جا چکی تھی اور آہستہ آہستہ بونداباندی ہو رہی تھی۔ اُس نے ماں کے پیچھے جانے کے لیے سوچا لیکن اُس کی سمجھ بوجھ میں، اُس کی لیے ربڑ کے ان وسیع و عریض کھیتوں میں اپنی ماں کا راستہ تلاش کرنا آسان اور محفوظ عمل نہ تھا۔ وہ اپنا راستہ کھو بھی سکتی تھی۔ اس لیے اُس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھ کر، ماں کے گھر واپس آنے کا انتظار کرے گی۔ اسی اثناء، اُس کے بہن بھائی، باورچی خانے کی بڑی کھانے کی میز پر براجمان ہو چکے تھے اور دادی اُن کے لیے گرم گرم چاول دلیہ پلیٹوں میں نکال رہی تھی۔ گرم چاولوں کی خوشبو اتنی اشتہا انگیز تھی کہ لیونگ چن کا پیٹ بھوک سے بلبلانے لگا۔ اس لیے وہ بھی، اُن سے کچھ دور لمبی میز کے آخری کونے پر جا کر بیٹھ گئی، اس اُمید کے ساتھ کہ دادی شاید اس کے لیے بھی کچھ تھوڑا سا چاول دلیہ نکال دے گی۔ تاہم یہ سب ہونے کے بجائے، بُری دادی نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار شروع کر دیا اور پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے اور وہ کھانے کی میز پر کیوں آئی ہے۔۔۔؟ لیونگ چن نے کمزور ڈری ہوئی آواز میں جواب دیا،
دل۔۔دل۔۔ میں بھی بھوکی ہوں۔۔۔مجھے بھی تھوڑا دلیہ چاہیے۔۔۔
دادی نے گھور کر اُسے دیکھا، چاولوں کا ایک پیالہ نکالا اور بھاپ اُڑاتا ہوا دلیہ پیالے میں بھرنے لگی۔ لیکن پیالہ لیونگ چن کے سامنے رکھنے کی بجائے، اُس نے گرم گرم دلیہ کا پیالہ میز پر اُس کی جانب دھکیل دیا۔ پیالہ میز پر لڑھک گیا اور سیدھا لیونگ چن پر جا گرا۔ لیونگ چن خوف اور درد کی شدت سے چلانے لگی کیونکہ پیالہ میز سے اُچھل کر سیدھا اُس کی گود میں جا کر خالی ہوا۔ اُس کے بہن بھائی، اُس کی مدد کر نے اور تسلی دینے کے دوڑے چلے آئے۔ لیکن دادی نے ایک بارپھر اُس کو بُری طرح ڈانٹ دیا کہ وہ اتنی بیوقوف ہے کہ گرم گرم دلیے سے اتنی بے پروائی برتتی ہے۔ وہ چیختی چلاتی معصوم لڑکی کو گھسیٹتے ہوئے اپنے کمرے میں لے گئی اور اپنے اس شیطانی عمل کی دوا دارو کے طور پر اُس کے جلدی سے اُبھرتے ہوئے چھالوں پر مرہم پٹی کرنے لگی۔ بعد میں، لیونگ چن، خاموشی سے سسکیاں لیتے ہوئے گھر کی دہلیز پر بیٹھ کر،ماں کا گھر جلدی واپس آنے کا انتظار کرنے لگی۔ جب اُس کے آنسو اُس کی گالوں پر پھسل رہے تھے تو وہ حیرت سے سوچ رہی تھی کہ دادی اُس سے اتنی نفرت کیوں کرتی ہے۔۔۔؟ اُس نے ایسا کیا غلط کیا ہے۔۔۔؟ دادی صرف اُس کے ساتھ امتیازی سلوک کیوں کرتی ہے۔۔۔ جبکہ اُس کے بہن بھائیوں کے ساتھ نہیں۔۔۔؟
جونہی اُس کی ماں واپس آئی تو اُس کو ساری صورت حال کا اندازہ ہوااور وہ اپنے غصے پہ قابو نہ پا سکی۔ اب تو ہر حد پار ہو گئی تھی۔ اس معصوم بچی نے ایسا کیاکیا تھا کہ اُس کے ساتھ اتنا ظلمانہ سلوک کیا گیا تھا۔۔۔؟ اُس کا ساس کے ساتھ خوب جھگڑا ہوا اور اُس نے پختہ ارادہ کر لیا کہ وہ یہ ظالم گھر چھوڑ دے گی اور اپنے خاوند کے پاس جائے گی جو دوسرے شہر میں اپنا کاروبار کرتا تھا۔ اُس نے اس ظالم عورت کا اپنے بچوں کے ساتھ ظلمانہ سلوک کو کافی برداشت کر لیا تھااور خاص طور پر چھوٹی لیونگ چن کے ساتھ۔ اُسی دن شام کو، وہ اپنی اور تینوں بچوں کی ریل کی ٹکٹیں نیچے گاؤں سے لے آئی۔ اس سلسلے کو ایک ہی بار ہمیشہ کے لیے ختم ہونا تھااور اُس کے پاس گھر چھوڑنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ اپنے خاوند کے ساتھ کیوں نہیں رہتی تھی، اس کی صرف ایک وجہ تھی کہ اُسے اس بوڑھی عورت کی تنہائی کا احساس تھا۔ اب، اُسے یہاں رُکنے کے لیے دُنیا کی کوئی طاقت نہیں رُوک سکتی تھی، شاید کوئی بہت ہی خاص وجہ بھی۔۔۔
بیس سال بیت گئے۔ لیونگ چن اب پچیس برس کی ہو گئی تھی۔ اُس کے ماں باپ جوانی میں فوت ہو گئے تھے۔ اب وہ ایک کامیاب تاجر تھی جس نے معاشیات اور کاروباری امور میں اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ اُس کے بہن بھائی نے شادی کر لی تھی اور ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے تھے۔ انہی دنوں، اُس کو دادی کی بیماری کی خبر موصول ہوئی۔ بوڑھی بزرگ کو دل کا عارضہ لاحق تھااور اُس کی صحت بگڑتی جا رہی تھی۔ لیونگ چن کو گرم گرم دلیہ والا واقعہ ابھی تک نہیں بھولا تھا۔ اگرچہ اس واقعے کو بیس برس بیت چکے تھے۔اُس کے لیے یہ واقعہ ایسے ہی تھا جیسے ابھی کل کی بات ہو۔جب کبھی بھی وہ اپنی ران پر جلنے کے بڑے بڑے بھدے نشان دیکھتی توکبھی کبھار، وہ ابھی بھی وہی جلا دینے والا درد محسوس کرتی جب گرم گرم دلیہ اُس کی گود میں گرا تھا اگرچہ اُس نے اپنی دادی کو اُس واقعہ پر معاف کر دیا تھا۔ اُس نے ایک بار اپنی ماں سے پوچھا تھا کہ دادی اُس کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک کیوں کرتی تھی۔۔۔؟
ایک صبح، جب وہ کام پر جانے کے لیے تیار تھی تو لیونگ چن کو خالہ کی جانب سے ایک ٹیلی گرام موصول ہواکہ اُس کی دادی وفات پا گئی تھی۔ اُس کے جنازے میں اُس کی شرکت لازمی تھی۔ لیونگ چن کو اُمید تھی کہ دادی کے دونوں پسندیدہ بچے، اُس کا بڑا بھائی اور بہن، جنازے کے لیے ضرور آئیں گے۔ لیکن افسوس کہ اُن کے پاس اچھا بہانہ تھا کہ وہ اس وقت بہت دور تھے اور گھر آنے کے لیے، یہ بہت ہی مختصر وقت میں تاخیر ی اطلا ع تھی۔
جب وہ اُس پُرانے بے ترتیب ماں باپ کے گھر پہنچی تو دردناک یادوں کے ایک سیلاب نے اُس کو گھیر لیا۔ جیسے ہی وہ دادی کے جنازے کے ساتھ بیٹھی، اُس نے خاموشی سے بوڑھے جھریوں سے بھرے ہوئے چہرے کو دیکھا۔ اُس کو یوں محسوس ہوا جیسے اُس کی دادی سو رہی ہے، اُس کے چہرے پر بہت ہی سُکون تھا۔ دل کی گہرایوں میں، اُس نے دُعا کی کہ خدا اُس کی دادی کی رُوح کو بخشے، اس کے باوجود کہ اُس نے جو کچھ بھی برداشت کیا تھا۔ غم کے آنسو اُس کی گالوں پر پھسلتے چلے گئے، جب اُس نے خاموشی سے اپنی دادی کے لیے دُعا کی جس سے وہ بھرپور محبت کرتی اگر اُس کو ایسا کوئی موقعہ میسر آتا۔ اُس نے یاد کیا کہ اُس کی مرحومہ ماں نے اُس کو بتایا تھا، جب اُس نے پوچھا تھا کہ دادی اُس کے ساتھ ایسا امتیازی سلوک کیوں کرتی ہے۔۔۔ اُس کا کیا قصور ہے۔۔۔؟
بوڑھی عورت بھی پچپن میں ایسے ہی حالات سے گزری تھی اور دادی کی محبت سے محروم رہی تھی۔۔۔صرف و صرف اس لیے کہ وہ بھی پیدا ہونے والی۔۔۔ دوسری لڑکی تھی۔
انگریزی میں عنوان: One another girl
مصنفہ: Cecilia ong
٭٭٭