وجود

... loading ...

وجود

پولیس بے لگام ، سعدیہ خان کا خط

جمعه 16 جون 2023 پولیس بے لگام ، سعدیہ خان کا خط

روہیل اکبر

ْْْْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پنجاب کے نگران وزیر اعلی محسن نقوی جب سے آئے ہیں،اس وقت سے پولیس بھی بڑی ہتھ چھٹ قسم کی ہو گئی ہے حالانکہ بطور صحافی وہ خود ان چیزوں کے سخت خلاف ہوتے تھے ۔ہوسکتا ہے کہ مصروفیات کے باعث وہ اس طرف دھیان نہیں دے رہے، امید ہے کہ وہ پولیس کا قبلہ بھی درست کرنے کی کوشش کریں گے جس طرح دوسرے کچھ اداروںکا رویہ تبدیل ہوا خاص کر ہسپتالوں کے ماحول میں تبدیلی ضرور آئی ہے، رہی بات پولیس کی ایسا لگتا ہے کہ وہ قانون پر عملدرآمد کروانے کی بجائے اسے بگاڑنے پر تلی ہوئی ہے۔
قانون بھی عوام کے ساتھ کھلواڑ کرتا ہے۔ جن لوگوں کے پاس قانون کا علم نہیں ہوتا جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا جن کے پاس سفارشیں نہیں ہوتیں ایسے لوگوں کو با اثر لوگوں کے ساتھ مل کر پولیس دبا لیتی ہے اور لوگ اپنا کیس واپس لے لیتے ہیں یا کیسوں میں حاضر نہیں ہوتے جسکی وجہ سے بااثر جرائم پیشہ عناصر کی حو صلہ افزائی ہوجاتی ہے اور پھر جرائم پروان چڑھتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اور حالات کی تنگی کی وجہ سے سفید پوش اور غریب لوگ کیسوں کی پیروی نہیں کرتے لیکن کچھ لوگ اس کلچر کو نہیں مانتے ۔وہ بے پناہ دکھ ،تکلیفوں اور مسائل کے باوجود جسکی لاٹھی اسکی بھینس جیسے کلچر کو فروغ نہیں دیتے ۔بلکہ ڈٹ کر اس کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اصل میں وہی لوگ ہیں جو قانون کی بالا دستی چاہتے ہیں۔ آئین کی پاسداری چاہتے ہیں انہی لوگوں میں ایک معصوم اور پری چہرہ سعدیہ خان ایڈوکیٹ کا بھی ہے جو پولیس کے مظالم کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی۔ اس لیے نہیں کہ اس کے بھائی کا مسئلہ ہے بلکہ اس لیے کہ آج کے بعد کسی کا بھائی کسی کا بیٹا اور کسی کا سہاگ پولیس کے ہاتھوں ظلم و بربریت کا نشانہ نہ بن سکے۔آج کے کالم میں سعدیہ خان کا خط شامل کرتا ہوں جو معاشرے کی آنکھیںکھولنے کے لیے کافی ہے۔
میں قانون کی طالب علم ہونے کے ناطے یہ بات کہوں گی کہ انسان ساری عمر کچھ نہ کچھ سیکھتا رہتا ہے زندگی ایک سیکھنے کا عمل ہے جب بات اپنے گھر کے ذاتی مقدمے کی آئی تو پولیس کو غور سے دیکھا کہ تھانوں میں انصاف ملتا نہیں انصاف بکتا ہے اور انصاف چھین کر لینا پڑتا ہے۔ میراحقیقی بھائی محمد قاسم خان جب 6ـ02ـ2023 کو مدینہ ٹاؤن کی حدود میںعلاقہ تھانہ غازی آباد لاہور میں قتل ہوا۔ مقامی پولیس پہلے تو لاش کو ڈیڈ ہاؤس جنرل ہسپتال لیکر گئی جو آفیسر لیکر گیا وہ کبھی ہم سے کاغذات منگواتا اور کبھی نیلا کاربن وغیرہ اسی دوران جب ایف آئی آر کی درخواست تھانہ میں جمع کروائی تو SHO صاحب ایف آئی آر نہ دے رہے تھے کیونکہ جن لوگوں نے میرے حقیقی بھائی کو نہ حق قتل کیا تھا وہ علاقہ میں بااثر جرائم پیشہ افراد ہیں۔ ان کے افراد پہلے ہی تھانہ میں موجود تھے۔ جب ملزمان کے ملنے والوں کو ہم نے تھانہ میں شناخت کیا تو SHO صاحب غصے میں آگے اور کہا کہ یہ ہمارا CIA کا اہلکار ہے اور کہا کہ میں ابھی آپ کی ایف آئی آر کا اندراج نہیں کرسکتا۔ حالانکہ پولیس نے دیکھا بھی تھا کہ مقتول کو فائر لگے ہوئے تھے۔ جب SHO صاحب کو پتہ چلا کہ میں ایک وکیل ہوں، پھر وہ ٹال مٹول اور قانون سمجھانے لگے اور ایف آئی آر نمبر 1675 درج کی کیونکہ پہلے SHO صاحب اپنی مرضی کا استغاثہ لکھوانا چاہ رہے تھے۔ مقدمہ اندراج ہوکر انوسٹی گیشن کے پاس جاتا ہے تو پہلے 2/3 دن نقشہ موقعہ نظری بلا سکیل بنانے کیلئے ٹائم دیا گیا پھر وہ بنایا گیا حالانکہ جو میرے بھائی کو قتل کرنے اور کروانے کی نیت سے گھر سے لیکر گیا تھا۔ اس کو پولیس نے موقع سے پکڑ لیا تھا لیکن پولیس اس کو بچانے کی آج تک کوشش کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ پولیس کا اہلکار ہے جسکا نام محمد وقار ہے۔ اسکی آج تک انوسٹی گیشن پولیس نے بھی گرفتاری نہیں ڈالی ہے کیونکہ انچارج انوسٹی گیشن صاحب کہتے ہیں وہ قتل میں شامل نہیں ہے۔ اسکے علاوہ 5 افراد میاں ذوالفقار،ابرار ذوالفقار، ظہیر،محمد عاطف اورمحمد جاوید نامزد ہیں جن میں سے 4 افراد نے معزز عدالت سے عبوری ضمانتیں حاصل کی ہوئی ہیں۔ ابرار ذوالفقار کو چند دن پہلے گرفتار کیاگیا وہ ریمانڈ پر ہے لیکن ایک پولیس اہلکار اورعلاقے کے بااثر افراد کو بچانے کیلئے انچارج انوسٹی گیشن اعلی افسران کو غلط گائیڈ کرکے تفتیش کا رخ موڑ رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ ایک ابرار نے فائر مارے ہیں جبکہ ایسا نہیں ہے۔ پولیس صرف تھانہ میں بیٹھ کر تفتیش کر رہی ہے ۔علاقہ میں جاکر تفتیش نہیں کر رہی۔ انچارج صاحب اتنے اعلی انوسٹی گیشن آفیسر ہے کہ انہوں نے میڈیکل رپورٹ آنے سے پہلے فائنل کر دیا کہ وہ کیسے قتل ہوا ہے۔ موقع کا نقشہ بنایا۔ موقع کی جیو فینسنگ نہیں کی اور کہہ دیا کہ یہ افراد وہاں موجود نہ تھے۔ پولیس اہلکار کو تھانہ میں بتایا جارہا کہ آپ یہ بیان دینا آپ کی جان بچ جائے گی۔ کیونکہ پولیس اہلکار کا بھائی کچھ عرصہ قبل تھانہ غازی آباد انوسٹی گیشن میں تعینات رہا ہے۔ پولیس اہلکار کا والد ریٹاٹرڈ سب انسپکٹر ہے ۔جو غازی آباد میں رہا ہے اعلیٰ افسران کو چاہئے کہ پولیس اہلکار کی موبائل فون کی CDR اور واٹس ایپ کا فرانزک کرائیں ۔پولیس کے اعلی افسران کو خود پتہ چل جائیگا کہ یہ کتنا ایماندار ہے جو جو ملزم پولیس نے گرفتار کرلیے ہیں انکے واٹس ایپ کا فرانزک کروائیں۔ تفتیش میں دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا اور میں ایک وکیل ہونے کے ناطے پولیس کے اعلیٰ افسران سے گزارش کرتی ہو کہ مقدمہ کو میرٹ پر حل کروائیں۔ اس تفتیش کو جیو فینسنگ میڈیکل رپورٹ پر حل کیا جائے کیونکہ مقتول کے جسم پر تشدد کے نشان بھی موجود تھے۔ میں اپنے سینئر وکلاء کا شکریہ ادا بھی کرتی ہوں جو میرا اس مقدمہ میں ساتھ دے رہے ہیں اور تمام بار ایسوسی ایشن کا جنہوں نے اس وقوع کا مذمتی بیان جاری کیا میں اپنی کینٹ بار ایسوسی ایشن،لاہور بار ایسوسی ایشن،ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے اوراپنے سینئر وکلاء برادری سے درخواست کرتی ہوں کہ میرا اس مقدمے میں مزید ساتھ دیں میرے ساتھ مل کر پولیس سے انصاف کے تقاضے پورے کروائیں ۔میں اپنی تمام وکلاء برادری کی مشکور ہو ں گی کیونکہ ذوالفقار اور اسکا گروہ علاقہ میں جرائم پیشہ عناصر اور شوٹروں کے سہولت کار ہیں اور یہ خود کو ن لیگ کا کوآرڈینیٹر بتاتا ہے جس کی وجہ سے مقامی پولیس اس کے ساتھ منسلک ہے۔ وکلاء برادری میرا ساتھ دیں اور مقامی پولیس مجھے اور میری فیملی کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ (سعدیہ خان ایڈوکیٹ ہائیکورٹ)
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال وجود پیر 21 اپریل 2025
پاکستان کے خلاف امریکی اسلحہ کا استعمال

ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا! وجود پیر 21 اپریل 2025
ہندوتوانوازوں پر برسا سپریم جوتا!

ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے! وجود اتوار 20 اپریل 2025
ایران کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے!

یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال وجود اتوار 20 اپریل 2025
یکجہتی فلسطین کے لیے ملک گیر ہڑتال

تارکین وطن کااجتماع اور امکانات وجود اتوار 20 اپریل 2025
تارکین وطن کااجتماع اور امکانات

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر