... loading ...
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔
بجٹ کی آمد کے بعد ہی کچھ منچلوں نے شرارتا اپنی اپنی فیس بک پر طنزیہ اور مزاحیہ جملوں کی بھر مار کردی۔ پہلے تو کچھ ارشد خان کی وال سے پڑھتے ہیں جس میں وہ فرماتے ہیں کہ ایک بندے نے اپنی خواہش کا اظہار ایسے کیا کہ باسمتی چاول ہوں، دیسی گائے کا دودھ ہو، ولایتی چینی ہو بندہ کھیر پکائے اور سردیوں کی رات چھت پر رکھ کر سوجائے صبح اٹھے تو انگلی لگا کر وہ کھیر کھائے جس پرکسی نے پوچھا تمھارے پاس ان میں سے ہے کیا؟تو وہ بولا “انگلی” وفاقی بجٹ کا بھی یہ حال ہے کہ اس میں مختلف شعبوں کیلئے رقم مختص کی گئی مگرمسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ ہے کہ یہ رقم موجود نہیں ہے۔ ایک اور جگہ خان صاحب لکھتے ہیں کہ ایک شخص انٹرویو دینے گیا تو منیجر نے سوالات مکمل کرنے کے بعد کہا آپ انتہائی قابل شخص ہیں ہم آپ کو سوچنے کی نوکری دیتے ہیں اور آپکی تنخواہ 10 لاکھ ہوگی جبکہ ہماری کمپنی ماہانہ 5 لاکھ کماتی ہے جس پر وہ شخص بولا اگر کمپنی 5 لاکھ کماتی ہے تو آپ مجھے 10 لاکھ کہاں سے دیں گے ؟منیجر بولا بس یہی تو سوچنا ہے 14460 ارب کا بجٹ رکھا ہے جس میں انکم صرف 7536 ہوگی اب 6924 ارب کہاں سے آئیں گے؟ یہ جس نے سوچنا ہے اسکی 80 فیصد دماغی شریانیں بند ہیں پلیٹلیٹس انتہائی نگہداشت ہیں اور دل کے 174 بائی پاس آپریشن ہوچکے ہیں جبکہ اسکا منشی پہلے بھی منی لانڈرنگ کا ایفیڈیوٹ دیکر فرار ہو چکا ہے۔جہانگیر ترین نے پارٹی کا نام “استحکام پاکستان” رکھ تو دیا لیکن جمع سارے غیر مستحکم لوگوں کو کیا ایسے میں ملک میں استحکام کیسے آئے گا ۔ایک جگہ کسی دوست نے لکھا ہوا تھا کہ حالات ٹھیک ہونے کا نام نہیں لیتے کیونکہ جن کیا کام ہے وہ سب تو بگاڑنے میں لگے ہیں عوام غلام اور خاموش تماشائی ہے ۔ہر کوئی ان کو اپنا منجن بیچتا ہے اور میں اور آپ چپ کر کے بیٹھے رہتے ہیں بڑا تیر مارا تو واٹس ایپ پر فلسفہ جھاڑ دیا عملی طور پر ہم سب صفر ہیں اب نیچے پڑھیں غلطی سے شاید آپ لوگ یہ سوتی قوم جاگ جائیں؟ ناممکن تو کچھ نہیں!پاکستان میں دہائیوں سے جو کچھ ہو رہا ہے وہ دنیا میں کہیں نظر نہیں آتا سوائے دنیا کے سب سے زیادہ کرپشن، لاقانونیت اور غربت میں ڈوبے ممالک میں جہاں ظالموں کی حکمرانی ہو ہماری معیشت اتنی خراب ہے کہ لوگ ملک چھوڑنے یا خودکشی کرنے پر مجبور ہیں ہمارا قانونی اور انصاف کا نظام اس قدر خراب ہے کہ بدعنوان مجرم لیڈر بن کر اسمبلیوں میں جاتے ہیں اور بے گناہ لوگوں کی جیلوں میں عزت لوٹی جاتی ہے اور قتل بھی ہوتے ہیں۔ ہمارا پریس اور میڈیا آزاد نہیں ہے اور صرف وہی کہتا ہے جو اقتدار میں حکومت انہیں کہتی ہے چاہے کسی کی ہو ۔ہماری صحت کا نظام دردناک ہے، حفظان صحت کا کوئی وجود نہیں اور ہمارے لیڈر ہمیں ایشین ٹائیگر یا مدینہ کی ریاست بنانے کی بات کرتے ہیں پاکستان میں کوئی بھی اس تلخ سچائی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا کہ غیر مسلم مغربی ممالک میں گورننس، ادارے اور جمہوریت ہم سے دس لاکھ گنا بہتر ہے۔ مسئلہ واضح ہے پاکستانی سیاسی رہنما اور ادارے خود غرضی سے اپنے وجود کے بارے میں سوچتے ہیں کسی کو پاکستانیوں کی پرواہ نہیں یہی وجہ ہے کہ میں 250 ملین پاکستانی یتیم ہیں افسوس کہ ان کے اپنے لیڈران کو ان کی کوئی پرواہ نہیں باقی دنیا ان کے دکھ اور تکلیف سے لطف اندوز ہوتی ہے کیونکہ ہم مسلمان ایٹمی طاقت ہیں اور دنیا ہمارے لیڈرز کے ذریعے ہمیں سزا دیتی ہے، صرف اچھے وقت نسبتاً اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی تاریخ میں مارشل لا تھے جہاں معیشت، خارجہ تعلقات اور گورننس زیادہ تر ٹھیک تھی حقیقت میں وہ بھی کوئی بہترین وقت نہیں تھا لیکن اس سے بہت بہترتھا جو کرپٹ اور انا پرست خاندانی سیاست دانوں نے ہمیں جعلی جمہوریت کے نام پر دیا ہے جہاں آئین اور انصاف کے نظام کو اپنے ذاتی اقتدار اور مالیاتی ایجنڈوں کو آگے بڑھانے کے لیے عوام کو بیوقوف بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور کرپٹ اداروں کی حقیقت پوری دنیا جانتی ہے لیکن افسوس کہ یہ سب حقیقت سے بے حس ہو چکے ہیں اسی لیے تو اپنے ہی لیڈروں اور اداروں کی غلامی ہمارا مقدر ہے ہم صرف امید اور دعا ہی کرسکتا ہوں کہ اگر کائنات میں کوئی اعلیٰ طاقت ہے تو وہ پاکستان کے لوگوں کی مدد کرے پہلے قدم کے طور پر میرا مشورہ ہے کہ عمران خان جو تمام تنازعات کے مرکز میں ہیں فوج اور حکومت سے معافی مانگیں جو انہی معاف کردیں اور جمہوریت کے حقیقی اصولوں کو برقرار رکھیں اور قومی ڈائیلاگ شروع کریں الیکشن اکتوبر میں کروادیں جیسا آئین کے مطابق ہے سب اپنے اپنے گریبان میں دیکھیں اور اللہ تعالی سے معافی مانگیں عوام کا احساس کریں آمریت اور ظلم کی طرح نہیں جو ہم پاکستان میں طویل عرصے سے دیکھتے ہیں اور آج بھی کچھ بدلا نہیں بس چہرے ہی بدلتے ہیں خدارا حکمران ہم پر رحم کھائیں اور سکون کی زندگی گذارنے دیں ابھی تو بجٹ کا ذکر ہی چل رہا ہے اور بجلی کی آنیاں جانیاں بھی شروع ہو چکی ہیں بل پہلے سے دگنے ہو چکے ہیں شہروں میں لوگوں کے پاس روزگار نہیں اور دیہات میںبھی غربت ڈیرے ڈال کر بیٹھی ہوئی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔