... loading ...
ریاض احمدچودھری
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر لگائی گئی دس سال کی بدترین پابندی ختم کرکے عام جلسہ کی اجازت دے دی گئی۔جس میں لاکھوں کی تعداد میں عوام کی شرکت یہ ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی ہر قسم کی سختیوں کے باوجود پہلے سے زیادہ مضبوط ، منظم اور مستحکم جماعت بن گئی ہے۔ اس میں ہمارے لئے بھی بہت بڑا سبق ہے کہ وہ لوگ پھانسیوں پر تو جھول گئے لیکن اپنی منزل نہیں بھولے نہ ہی موت ان کو ڈرا سکی۔امیر جماعت اسلامی بنگلہ دیش ڈاکٹر شفیق الرحمن سمیت بے شمار افراد آج بھی پاکستان سے وفاداری کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے جیل کاٹ رہے ہیں۔ نائب امیر جماعت ڈاکٹر سید عبداللہ طاہر کی ساری جائیداد حسینہ واجد نے ضبط کر رکھی ہے۔ کتنے ہی رہنما پاکستان کی خاطر پھانسی کے پھندوں کو چوم چکے ہیں لیکن جلسہ عام میں یوں لگ رہا تھا کہ سارا ڈھاکہ امڈ آیا ہے ۔
2013میںبنگلہ دیش کی ہائیکورٹ نے جماعت اسلامی کی الیکشن کمشن میں رجسٹریشن غیر قانونی دیتے ہوئے آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا تھا۔درخواست گزار نے جماعت اسلامی پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ اپنے منشور میں بنگلہ دیش کی خود مختاری پر یقین نہیں رکھتی اور اسی کو بنیاد بنا کر اس پر پابندی عائد کی گئی ہے۔جماعت اسلامی بنگلہ دیش حسینہ واجد کے عتاب کا شکاررہی ہے۔ حسینہ واجد بنگلہ دیش میں پاکستان کیلئے نرم گوشہ رکھنے والے افراد کو عدالتوں کے ذریعے سزائیں دلوا کر انہیں دیوار سے لگانے کی ناکام کوشش میں ہیں۔ پہلے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائیں دلوائی گئیں اس سے بھی دل نہ بھرا تو جماعت اسلامی کی الیکشن کمشن میں رجسٹریشن کو ہی غیر قانونی قرار دیدیا گیا۔ 3 رکنی پینل میں ایک جج نے اختلافی نوٹ تو لکھا لیکن اکثریت کی بنا پر فیصلہ دیکر جماعت اسلامی پر سیاست کے دروازے بند کر دئیے گئے ۔ مگر دس سال بعد عوام نے ثابت کر دیا کہ جماعت اسلامی کے جڑیں عوام میں ہیں اور بہت مضبوط ہیں۔
یہ دس سال جماعت اسلامی بنگلہ د یش پر بہت بھاری گزرے ہیں۔ بنگلہ دیش میں کمیونسٹ عناصر کی جانب سے صرف اسلامی جماعتوں اور تنظیموں پر پابندی ہی کا مطالبہ نہیں کیاگیا بلکہ اسلامی نظریات کے حامل کاروباری اور میڈیا اداروں پر حملے بھی کیے گئے۔ حکومت کی جانب سے تشکیل دیے جانے والے جنگی جرائم کے ٹربیونل کو عالمی برادری، بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں اور خود اقوام متحدہ نے متنازع اور خامیوں سے پْر قرار دیا گیا لیکن حکومت مخالفین کو اس ٹربیونل کے تحت سزائیں دیتی رہی ۔ کئی اسلامی جماعتوں کے قائدین کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا یا گیا۔بنگلہ دیشی حکومت بھارت نوازی میں اس قدر آگے بڑھ چکی تھی کہ واپسی ناممکن دکھائی دیتی تھی۔ نظربند رہنمائوں جن میں پروفیسر غلام اعظم، مطیع الرحمن نظامی، BNP کے صلاح الدین قادر چوہدری اور عبدالعلیم سمیت دس رہنمائوں کو سزائے موت دے دی گئی تو حالات مزید خراب ہو ئے۔ حکومت کو خبردار کیا کہ ان رہنمائوں کا عدالتی قتل کیا گیا تو عوام خاموش تماشائی بن کر نہیں رہیں گے اور خوفناک صورتحال کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہوگی۔پہلے عبدالقادرملا کو پھانسی دی گئی’ پھر مولانا غلام اعظم کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جو جیل میں وفات پاگئے۔پھر مولانا مطیع الرحمن کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ یہ انتہائی تکلیف دہ امر تھا۔بنگلہ دیش جماعت اسلامی درحقیقت اْس نام نہاد ‘امن کی آشا’ کے سامنے ایک آہنی چٹان ہے، جسے ڈھانے کے لیے برہمنوں ، سیکولرسٹوں اور علاقائی قوم پرستوں کے اتحادِ شرانگیز نے ہمہ پہلو کام کیا ہے۔ بھارتی کانگریس کے لیڈر سابق وزیراعظم من موہن سنگھ نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کو بے دست وپا کرنے، مولانا مودودی کی کتابوں پر پابندی عائد کرنے اور دو قومی نظریے کی حامی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کو دیوارسے لگانے کے لیے حسینہ واجد حکومت کی بھرپور سرپرستی کی۔ دوسری جانب خود بھارت میں مسلم نوجوانوں کو جیل خانوں اور عقوبت کدوں میں سالہا سال تک بغیر کسی جواز اور عدالتی کارروائی کے ڈال دینے کا ایک مکروہ دھندا جاری رکھا ہے۔ افسوس کہ پاکستانی اخبارات و ذرائع ابلاغ اس باب میں خاموش ہیں۔
غدار مجیب الرحمن کی بیٹی اسلام و پاکستان سے محبت رکھنے والوںکو چن چن کر سزائیں دلوا رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں نظریہ پاکستان ایک بار پھر بیدار ہو رہا ہے اور مضبوط تحریک کھڑی ہو رہی ہے۔ اسی سے خوفزدہ ہو کر بھارتی اشاروں پرپھانسیوں کی سزائیں سنا ئی جارہی ہیں۔بنگلہ دیش میں جن قائدین کو پھانسیوں کی سزائیں سنائی جارہی ہیں ان کا جرم صرف یہ تھا کہ جب بھارت نے اگر تلہ سازش کے تحت مجیب الرحمن جیسے غداروں کو کھڑ اکیااور مشرقی پاکستان پر باقاعدہ فوج کشی کی تو ان بزرگوںنے دفاع پاکستان کیلئے پاک فوج کے ساتھ مل کر بھارتی فوج کا مقابلہ کیاتھا۔ آج بنگلہ دیش پر اسی مجیب الرحمن کی بیٹی کی حکومت ہے جو اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے پاکستان کا نام لینے والوں کو جیلوں میں ڈال رہی ہے اوربھارت کی ہمنوا بن کر انہیں پھانسیاں دی جارہی ہیں۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی جس ابتلا و آزمائش سے گزری ہے وہ سب کے سامنے ہے ۔ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بھارت نے بنگالی صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں کو خرید رکھا ہے، لیکن وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے۔
٭٭٭