وجود

... loading ...

وجود

کون بنے گا میئر کراچی؟

منگل 06 جون 2023 کون بنے گا میئر کراچی؟

عطا محمد تبسم

کراچی میں بلدیاتی انتخابات ہوئے ،دس ماہ کا عرصہ گزر گیا،لیکن اب تک بلدیاتی انتخاب کا یہ عمل مکمل نہیں ہو پا یا ہے ، نہ ہی اس شہر کی بلدیاتی قیادت کو کام کرنے کا موقع نہیں ملا ہے ۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی نے سب سے زیادہ ووٹ لے کر پہلی پوزیشن لی، دوسرے نمبر پر پیپلز پارٹی اور تیسرے نمبر پر تحریک انصاف رہی ہے ۔ لیکن سب سے زیادہ ووٹ لے کر بھی جماعت اسلامی نشستوں کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر اور پیپلز پارٹی پہلے نمبر ہے ، ان انتخاب میں پیپلز پارٹی نے بدترین دھاندلی کی، اور اب بھی وہ اس کوشش میں ہے کہ کراچی کا میئر پیپلز پارٹی کا ہو،الیکشن کمیشن نے کراچی کے میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخاب کے لیے ،15 جون کی تاریخ کا اعلان کیا ہے ، جس کے کاغذات نامزدگی، 9 اور 10 جون کو داخل کیے جائیں گے ، ان انتخابات میں چیئرمین ضلع کونسل اور وائس چیئرمین ضلع کونسل کا بھی انتخاب ہوگا۔
گزشتہ دو ہفتوں سے کراچی میں ایک مثبت تبدیلی دیکھنے میں آرہی ہے ، سڑکوں سے کوڑا صاف ہونا شروع ہوا ہے ، اور بلدیاتی صفائی کا عملہ بھی کام کرتا نظر آرہا ہے ، مٹی اور کوڑا صاف ہونے سے گرد وغبار کا طوفان بھی کسی حد تک تھم گیا ہے ۔کراچی کی میئر شپ کے لیے جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمان سب سے زیادہ فیورٹ ہیں، لیکن انھیں اس میئر شپ کے لیے بہت سے پلوں کو عبور کرنا پڑ رہا ہے ۔ جماعت اسلامی نے پیپلز پارٹی کی جانب مذاکرات کا آغاز کیا تھا، لیکن یہ مذکرات پیپلز پارٹی کی ضد اور ہٹ دھرمی کا شکار ہوگئے ۔9 مئی کے بعد صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی آئی، اور تحریک انصاف کے خلاف جو آپریشن شروع ہوا ، تو پیپلز پارٹی کے رویہ میں مزید سختی آئی اور زرداری اور بلاول بھی یہ کہنے لگے کہ کراچی میں میئر جیالہ ہوگا۔ اس صورت حال میں جماعت اسلامی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ یا تو وہ خاموش ہوکر بیٹھ جائے ، یا تحریک انصاف سے ورکنگ ریلیشن شپ بحال کرتے ہوئے ، میئر کے لیے ان کے ووٹ حاصل کرے ۔ جس وقت پورے ملک میں ریاستی طاقت عمران خان اور تحریک انصاف کو کچلنے میں مصروف ہے ، حافظ نعیم الرحمان اور لیاقت بلوچ نے عمران خان سے ملاقات کرکے سیاست میں ایک دھماکہ کردیا ہے ،عمران خان نے کراچی کی میئر شپ کے لیے ،جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے ۔
جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے اتحاد کی صورت میں دونوں کے ووٹ 192 ہوں گے ، جبکہ پیپلز پارٹی ، ن لیگ اور جے یو آئی اتحاد کے پاس 173 ووٹ ہیں۔جب سے حافظ نعیم الرحمن اور لیاقت بلوچ نے لاہور میں زمان پارک میں جاکر عمران خان سے ملاقات کی ہے ، اور کراچی کی مئیر شپ میں عمران خان نے جماعت اسلامی کی حمایت کا اعلان کیا ہے ، پیپلز پارٹی کو سانپ سونگھ گیا ہے ، لیکن یہ خاموشی کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ بھی ہوسکتی ہے ، پیپلز پارٹی اتنی آسانی سے سونے چڑیا کراچی سے دستبردار نہیں ہوگی، در پردہ خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ ، دھونس دھمکی کا بھی سلسلہ جاری ہے ۔پیپلز پارٹی کی حمایت کرتے ہوئے ، مسلم لیگ ن کے کراچی کے سات منتخب چیئرمینوں نے میاں نواز شریف کو ایک درخواست دی ہے ، اور کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے ، ڈپٹی میئر مسلم لیگ ن کا ہونا چاہئے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اس پر کہاں تک عمل کرتی ہے یا نہیں کرتی ہے ۔
جماعت اسلامی میں کچھ لوگ عمران خان سے مفاہمت اور تعاون کے خلاف ہیں، لیکن انھیں سوچنا چاہیئے کہ سیاست میں زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، جماعت اسلامی کو مین اسٹریم کی سیاست کرنے میں کہیں نہ کہیں اپنا وزن کسی پلڑے میں ڈالنا ہوگا۔ ورنہ موجودہ صورت حال میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔پیپلز پارٹی کراچی کی تعمیر و ترقی سے زیادہ اس کے فنڈز اور دیگر اختیارات سے دلچسپی رکھتی ہے ، اس نے کراچی کے تمام ترقیاتی اداروں پر اپنا قبضہ جمایا ہوا ہے ، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اہلکار کراچی میں کروڑوں روپے دھونس دھمکی، اور ناجائز اختیارات سے روزانہ ہتھیا رہے ہیں، ناجائز تعمیرات یا نقشہ منظور ی کے بغیر تعمیرات کرنے والوں کو بغیر کسی نوٹس اور پیشگی وارننگ کے ڈیمالیش کرنے والا عملہ توڑ پھوڑ شروع کردیتا ہے ، اور پھر کیش رشوت کی رقم لے کر انھیں مذاکرات اور مزید رقوم کے لیے بلایا جاتا ہے ، پیپلز پارٹی نے بڑی حد تک میئر شپ کراچی کو اپنا حق سمجھ لیا ہے ، اور اسی لیے حال ہی میں اس نے میئر کراچی کے اختیارات میں قابل قدر اضافہ کیا ہے ، اس میں میئر کراچی ، کے ڈی اے ، ایل ڈی اے ، واٹر بورڈ، اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے اداروں کا بھی سربراہ ہوگا۔پیپلز پارٹی کے حلقوں کا دعوی ہے کہ “کراچی کا میئر جیالا ہوگا اور حقیقی کراچی والا ہوگا۔
کراچی اس وقت بری طرح تباہ حال ہے ، پیپلز پارٹی نے اس شہر کو کچرے کا ڈھیر بنا دیا ہے ، شہر کی مرکزی سڑک ایم اے جناح روڈ، صدر، یونیورسٹی روڈ ٹوٹ پھوٹ کھدائی، تعمیراتی کام کے سبب شہریوں کے لیے عذاب بن گئی ہے ۔ گزشتہ بارشوں میں تباہ ہونے والے سڑک کی پیوند کاری اس وقت کی گئی ہے ، جب جون جولائی کی بارشیں ہونے والی ہیں، ان میں انتہائی ناقص میٹریل کا استعمال کیا گیا ہے ، جو پھر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ کراچی کی تعمیر نو کے لیے ایسی اہل قیادت لائی جائے ، جو عوام میں اثر نفوذ رکھتی ہو، کیونکہ کراچی کے مسائل عوام کے تعاون اور ان کی شرکت کے بغیر حل نہیں ہوں گے ، جماعت اسلامی کی قیادت اس بات کا ویژن بھی رکھتی ہے ، اور اس کے پاس عوامی حمایت بھی موجود ہے ، جس سے اس شہر کے حالات کو تبدیل کیا جاسکتا ہے ، ورنہ پیپلز پارٹی تو پہلے بھی یہاں ایڈمنسٹریٹر بٹھا کر کام چلاتی رہی ہے ، جنہوں نے کراچی کو لوٹ مار اور کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے ، کراچی کے بارے میں عوام سے زیادہ فیصلہ کا اختیار ان ریاستی اداروں کو حاصل ہے ، جو اس شہر میں امن و امان کے نام پر گذشتہ 35 برسوں سے شراکت دار ہیں، کراچی میں بجلی پانی گیس ٹرانسپورٹ سب پر مافیاز کا قبضہ ہے ، جسے ایک بااختیار اور دیانت دار قیادت ہی نکیل ڈال سکتی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
روس اور امریکامیں کشیدگی وجود بدھ 27 نومبر 2024
روس اور امریکامیں کشیدگی

تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا! وجود بدھ 27 نومبر 2024
تاج محل انتہا پسندہندوؤں کی نظروں میں کھٹکنے لگا!

خرم پرویز کی حراست کے تین سال وجود منگل 26 نومبر 2024
خرم پرویز کی حراست کے تین سال

نامعلوم چور وجود منگل 26 نومبر 2024
نامعلوم چور

احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ وجود پیر 25 نومبر 2024
احتجاج اور مذاکرات کا نتیجہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر